فراز صاحب کی ایک نظم جو جو آج اُن کے بیٹے سرمد فراز نے ملالہ یوسف زئی سے منسوب کی ہے۔
بہت حسبِ حال لگتی ہے۔
مت قتل کرو آوازوں کو
تم اپنے عقیدوں کے نیزے
ہر دل میں اتارے جاتے ہو
ہم لوگ محبت والے ہیں
تم خنجر کیوں لہراتے ہو
اس شہر میں نغمے بہنے دو
بستی میں ہمیں بھی رہنے دو
ہم پالنہار ہیں پھولوں...
السلام علیکم!
میرے دو ہی سب سے زیادہ پسندیدہ شعراء ہیں۔ علامہ اقبال اور احمد فراز۔
علامہ اقبال پہ تو ایک بلاگ چل رہا ہے
اور اب
میں احمد فراز پہ ایک بلاگ شروع کرنے کا ارادہ رکھتا ہوں۔
اس سلسلے میں آپ سب کی رہنمائی چاہیے۔
بلاگ کی تھیم کے سلسلے میں میرا خیال ہے کہ اس بلاگ کی تھیم کے ہیڈر کو بدل کے...
میرا بلا اس لنک پہ دیکھا جا سکتا ہے:
نقشِ فریادی
کمنٹ کے لئے میرے پاس رپلائی کا بٹن نہیں ہے۔
کمنٹ ویسے تو ہو جاتا ہے لیکن رپلائی کا بٹن ہو تو زیادہ آسانی ہوتی ہے کہ کسے مخاطب کیا ہے۔
مدد پلیز
محمداحمد بھائی
ذکرِ جاناں سے جو شہرِ سخن آراستہ ہے
جس طرف جائیے اک انجمن آراستہ ہے
یوں پھریں باغ میں بالا قد و قامت والے
تو کہے سر و و سمن سے چمن آراستہ ہے
خوش ہو اے دل کہ ترے ذوقِ اسیری کے لئے
کاکلِ یار شکن در شکن آراستہ ہے
کون آج آیا ہے مقتل میں مسیحا کی طرح
تختۂ دار سجا ہے رسن آراستہ ہے
شہرِ دل میں...
ابر و باراں ہی نہ تھے بحر کی یورش میں شریک
دکھ تو یہ ہے کہ ہے ملاح بھی سازش میں شریک
تا ہمیں ترکِ تعلق کا بہت رنج نہ ہو
آؤ تم کو بھی کریں ہم اِسی کوشش میں شریک
اک تو وہ جسم طلسمات کا گھر لگتا ہے
اس پہ ہے نیتِ خیاط بھی پوشش میں شریک
ساری خلقت چلی آتی ہے اُسے دیکھنے کو
کیا کرے دل بھی کہ دنیا...
@fahim بھیا کی منگنی کی اطلاع آج مقدس باجی نے دی، تو مجھے احمد فراز کی ایک نظم یاد آ گئی، تو میں نے سوچا کہ شریکِ محفل کر دیتا ہوں، شاید کسی کو پسند آ جائے۔
معذرت
(ایک دوست کی شادی پر)
میں نے چاہا تری شادی پہ کوئی نظم کہوں
جس کے الفاظ میں پا زیب کی جھنکاریں ہوں
جس کے ہر بند میں رقصاں ہوں...
غزل
احمد فراز
وہ گیا تو ساتھ ہی لے گیا، سبھی رنگ اُتار کے شہر کا
کوئی شخص تھا میرے شہر میں، کسی دُور پار کے شہر کا
چلو کوئی دل تو اُداس تھا، چلو کوئی آنکھ تو نم رہی
چلو کوئی در تو کُھلا رہا شبِ انتظار کے شہر کا
کئی خوشبوئیں درِ دوست تک، مرے ساتھ شمع بدست تھیں
مجھے پوچھنا نہ پڑا...
احمد فراز مرحوم کی چوتھی برسی پہ اُن کے صاحبزادے سرمد فراز نے "شاعر" کے نام سے ایک ویڈیو ریلیز کی تھی، جو شاید آپ نے دیکھی بھی ہو، میں یہاں وہ ویڈیو شئیر کر دیتا مگر یو ٹیوب بلاک ہونے کی وجہ سے نہیں کر سکتا۔
اسی ویڈیو کے بارے میں ایک کالم جو کل سرمد فراز نے فیس بک پہ شئیر کیا تھا۔
Social...
وہ تری طرح کوئی تھی
یونہی دوش پر سنبھالے
گھنی زلف کے دو شالے
وہی سانولی سی رنگت
وہی نین نیند والے
وہی من پسند قامت
وہی خوشنما سراپا
جو بدن میں نیم خوابی
تو لہو میں رتجگا سا
کبھی پیاس کا سمندر
کبھی آس کا جزیرہ
وہی مہربان لہجہ
وہی میزباں وطیرہ
تجھے شاعری سے رغبت
اُسے شعر یاد...
السلام علیکم
فاصلے اتنے بڑھے ہجر میں آزار کے ساتھ
اب تو وہ بات بھی کرتے نہیں غمخوار کے ساتھ
اب تو ہم گھر سے نکلتے ہیں تو رکھ دیتے ہیں
طاق پہ عزت سادات بھی دستار کے ساتھ
اک تو تم خواب لیے پھرتے ہو گلیوں گلیوں
اس پہ تکرار بھی کرتے ہو خریدار کے ساتھ
ہم کو اس شہر میں جینے کا سودا ہے جہاں...
وہی عشق جو تھا کبھی جنُوں اسے روزگار بنا دیا
کہیں زخم بیچ کے آ گئے کہیں شعر کوئی سُنا دیا
وہی ہم کہ جن کو عزیز تھی دُرِ آبرو کی چمک دمک
یہی ہم کہ روزِ سیاہ میں زرِ داغِ دل بھی لُٹا دیا
کبھی یوں بھی تھا کہ ہزار تیر جگر میں تھے تو دُکھی نہ تھے
مگر اب یہ ہے کسی مہرباں کے تپاک نے بھی رُلا دیا...
سائے کی طرح نہ خود سے رم کر
دیوار کو اپنا ہم قدم کر
اپنے ہی لیے بہا نہ دریا
اوروں کے لیے بھی آنکھ نم کر
تکمیل طلب نہیں ہے منزل
طے راہ وفا قدم قدم کر
اے پچھلی رتوں کو رونے والے
آنے والے دنوں کا غم کر
ممکن ہو تو تیشہء ہنر سے
ہر پارہء سنگ کو صنم کر
ہے چشم براہ ایک دنیا
پتھر کی...
غزل
ہر آشنا میں کہاں خوئے محرمانہ وہ
کہ بے وفا تھا مگر دوست تھا پرانا وہ
کہاں سے لائیں اب آنکھیں اسے کہ رکھتا تھا
عداوتوں میں بھی انداز مخلصانہ وہ
جو ابر تھا تو اسے ٹوٹ کر برسنا تھا
یہ کیا کہ آگ لگا کر ہوا روانہ وہ
پکارتے ہیں مہ و سال منزلوں کی طرح
لگا ہے تو سن ہستی کو تازیانہ...
احمد فراز کی حسِ مزاح اور پچھتاوے
افتی نامہ۔۔۔۔از افتخار نسیم۔۔بشکریہ روزنامہ آج پشاور
احمد فراز کی پہلی برسی آئی اور چلی گئی‘ چند لوگوں نے اسے یاد کیا ،کشور ناہید ٹی وی پر اس کی بیوہ بن کر واویلا کرتی رہی، شبلی اور ان کا بیٹا ٹی وی پر اپنی پندرہ منٹ کی شہرت لے کر غائب ہو گئے۔ اشفاق احمد...
اوّل اوّل کی دوستی ہے ابھی
اک غزل ہے کہ ہو رہی ہے ابھی
میں بھی شہرِ وفا میں نو وارد
وہ بھی رُک رُک کے چل رہی ہے ابھی
میں بھی ایسا کہاں کا زُود شناس
وہ بھی، لگتا ہے، سوچتی ہے ابھی
دل کی وارفتگی ہے اپنی جگہ
پھر بھی کچھ احتیاط سی ہے ابھی
گر چہ پہلا سا اجتناب نہیں
پھر بھی کم کم سپردگی ہے...
اِس کا سوچا بھی نہ تھا اب کے جو تنہا گزری
وہ قیامت ہی غنیمت تھی جو یکجا گزری
آ گلے تجھ کو لگا لوں میرے پیارے دشمن
اک مری بات نہیں تجھ پہ بھی کیا کیا گزری
میں تو صحرا کی تپش، تشنہ لبی بھول گیا
جو مرے ہم نفسوں پر لب ِدریا گزری
آج کیا دیکھ کے بھر آئی ہیں تیری آنکھیں
ہم پہ اے دوست یہ...
کس قدر آگ برستی ہے یہاں
خلق شبنم کو ترستی ہے یہاں
صرف اندیشۂ افعی ہی نہیں
پھول کی شاخ بھی ڈستی ہے یہاں
رُخ کدھر موڑ گیا ہے دریا
اب نہ وہ لوگ نہ بستی ہے یہاں
زندہ درگور ہُوئے اہلِ نظر
کس قدر مُردہ پرستی ہے یہاں
زیست وہ جنسِ گراں ہے کہ فراز
موت کے مول بھی سَستی ہے یہاں
احمد فراز