قتلِ عشاق میں اب عذر ہے کیا بسم اللہ
سب گنہگار ہیں راضی بہ رضا بسم اللہ
میکدے کے ادب آداب سبھی جانتے ہیں
جام ٹکرائے تو واعظ نے کہا بسم اللہ
ہم نے کی رنجشِ بے جا کی شکایت تم سے
اب تمہیں بھی ہے اگر کوئی گِلا بسم اللہ
بتِ کافر ہو تو ایسا کہ سرِ راہگزار
پاؤں رکھے تو کہے خلقِ خدا بسم...
کل شب ہوئی کسی سے مُلاقات رقص میں
وہ کب تھی زندگی تھی مرے ساتھ رقص میں
اک دوسرے کو تھامے ہوئے بے سبب نہ تھے
محسوس کی ہے گردشِ حالات رقص میں
اُس کے بدن کی آنچ مرے دل تک آگئی
آوارہ ہو رہے تھے مرے ہاتھ رقص میں
وہ ایڑیوں پہ مثلِ زمیں گھومتی رہی
سات آسماں تھے رقص کناں ساتھ رقص میں...
غزل
خاموش ہو کیوں دادِ جفا کیوں نہیں دیتے
بسمل ہو تو قاتل کو دعا کیوں نہیں دیتے
وحشت کا سبب روزنِ زنداں تو نہیں ہے
مہر و مہ و انجم کو بجھا کیوں نہیں دیتے
اک یہ بھی تو اندازِ علاجِ غمِ جاں ہے
اے چارہ گرو، درد بڑھا کیوں نہیں دیتے
منصف ہو اگر تم تو کب انصاف کرو گے
مجرم ہیں اگر ہم تو...
کب یاروں کو تسلیم نہیں ، کب کوئی عدو انکاری ہے
اس کوئے طلب میں ہم نے بھی دل نذر کیا جاں واری ہے
جب ساز سلاسل بجتے تھے ، ہم اپنے لہو میں سجتے تھے
وہ رِیت ابھی تک باقی ہے ، یہ رسم ابھی تک جاری ہے
کچھ اہلِ ستم ، کچھ اہلِ حشم مے خانہ گرانے آئے تھے
دہلیز کو چوم کے چھوڑ دیا دیکھا کہ یہ پتھر بھاری ہے...
دل ٹھہرنے دے تو آنکھیں بھی جھپکتے جاویں
ہم کہ تصویر بنے بس تجھے تکتے جاویں
چوبِ نم خوردہ کی مانند سلگتے رہے ہم
نہ تو بجھ پائیں نہ بھڑکیں بہ دہکتے جاویں
تیری بستی میں تیرا نام پتہ کیا پوچھا
لوگ حیران و پریشان ہمیں تکتے جاویں
کیا کرے چارہ کوئی جب ترے اندوہ نصیب
منہ سے کچھ بھی...
نہ تیرا قرب نہ بادہ ہے کیا کیا جائے
پھر آج دکھ بھی زیادہ ہے کیا کیا جائے
ہمیں بھی عرض تمنا کا ڈھب نہیں آتا
مزاج یار بھی سادہ ہے کیا کیا جائے
کچھ اپنے دوست بھی ترکش بدوش پھرتے ہیں
کچھ اپنا دل بھی کشادہ ہے کیا کیا جائے
نہ اس سے ترک تعلق کی بات کر جائیں
نہ ہمدمی کا ارادہ ہے کیا کیا...
14 اگست 1954۔۔
آج تری آزادی کی ہے ساتویں سالگرہ،
چار طرف جگمگ جگمگ کرتی ہے شہر پنَہ،
پھر بھی تری روح بجھی ہے تقدیر سیَہ،
پھر بھی ہیں پاؤں میں زنجیریں، ہاتھوں میں کشکول،
کل بھی تجھ کو حکم تھا آزادی کے بول نہ بول،
آج بھی تیرے سینے پر ہے غیروں کی بندوق،
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔اے بھوکی مخلوق،
بیس...
غزل
روئے نگار و چشمِ غزالاں کے تذکرے
گیسوئے یار و حرف وحکایت کے رات دن
وہ صبح و شام، دربدری ہم سنوں کے ساتھ
آوارگی میں سیر و سیاحت کے رات دن
رسوائیوں کی بات تھی، رسوائیاں ہوئیں
رسوائیوں کی عمر میں شہرت کے رات دن
ہر آرزو نے جامہِ حسرت پہن لیا
پھر ہم تھے اور گوشہِ عزلت کے رات دن...
ہاتھ اٹھائے ہیں مگر لب پہ دعا کوئی نہیں
کی عبادت بھی تووہ ، جسکی جزا کوئی نہیں
آ کہ اب تسلیم کرلیں تو نہیں تو میں سہی
کون مانے گا کہ ہم میں بے وفا کوئی نہیں
وقت نے وہ خاک اڑائی ہے کہ دل کے دشت سے
قافلے گذرے ہیں پھر بھی نقشِ پا کوئی نہیں
خود کو یوں محصور کر بیٹھا ہوں اپنی ذات میں...
خواب مرتے نہیں
خواب دل ھیں نہ آنکھیں نہ سانسیں کہ جو
ریزہ ریزہ ھوئے تو بکھر جائیں گے
جسم کی موت سے یہ بھی مر جائیں گے
خواب مرتے نہیں
خواب تو روشنی ھیں نوا ھیں ھوا ھیں
جو کالے پہاڑوں سے رکتے نہیں
ظلم کے دوزخوں سے بھی پھکتے نہیں
روشنی اور نوا اور ھوا کے علم
مقتلوں میں پہنچ کر بھی جھکتے...
'غزل "
جب یار نے رخت سفر باندھا، کب ضبط کا یارا اس دن تھا
ہر درد نے دل کو سہلایا، کیا حال ہمارا اس دن تھا
جب خواب ہوئیں اس کی آنکھیں جب دھند ہوا اس کا چہرہ
ہر اشک ستارہ اس شب تھا ،ہر زخم انگارہ اس دن تھا
سب یاروں کے ہوتے سوتے ،ہم کس سے گلے مل کے روتے
کب گلیاں...
نہ جانے ظرف تھا کم یا انا زیادہ تھی
کلاہ سر سے تو قد سے قبا زیادہ تھی
رمیدگی تھی تو پھر ختم تھا گریز اس پر
سپردگی تھی تو بے انتہا زیادہ تھی
غرور اس کا بھی کچھ تھا جدائیوں کا سبب
کچھ اپنے سر میں بھی شاید ہوا زیادہ تھی
وفا کی بات الگ پر جسے جسے چاہا
کسی میں حسن، کسی میں ادا زیادہ تھی...
آنسو نہ روک دامنِ زخمِ جگر نہ کھول
جیسا بھی حال ہو نگہء یار پر نہ کھول
جب شہر لُٹ گیا ہے تو کیا گھر کو دیکھنا
کل آنکھ نم نہیں تھی تو اب چشمِ تر نہ کھول
چاروں طرف ہیں دامِ شنیدن بچھے ہوئے
غفلت میں طائرانِ معانی کے پر نہ کھول
کچھ تو کڑی کٹھور مسافت کا دھیان کر
کوسوں سفر پڑا ہے ابھی سے...
قربتوں میں بھی جدائی کے زمانے مانگے
دل وہ بے مہر کہ رونے کے بہانے مانگے
ہم نہ ہوتے تو کسی اور کے چرچے ہوتے
خلقتِ شہر تو کہنے کو فسانے مانگے
یہی دل تھا کہ ترستا تھا مراسم کے لیئے
اب یہی ترکِ تعلق کے بہانے مانگے
اپنا یہ حال کہ جی ہار چکے لٹ بھی چکے
اور محبت وہی انداز پرانے مانگے
زندگی ہم...
چلو وہ عشق نہیں چاہنے کی عادت ہے
پہ کیا کریں ہمیں ڈوبنے کی عادت ہے
تو اپنی شیشہ گری کا ہنر نہ کر ضائع
میں آئینہ ہوںمجھے ٹوٹنے کی عادت ہے
میں کیا کہوں کہ مجھے صبر کیوں نہیں آتا
میں کیا کروں کہ تجھے دیکھنے کی عادت ہے
تیرے نصیب میں اے دل ! سدا کی محرومی
نہ وہ سخی، نہ تجھے مانگنے کی عادت ہے...
از عطاء الحق قاسمی
پاکستان ہماری امیدوں کا مرکز ہے اور اس کی محبت ہماری رگوں میں دوڑ رہی ہے 1947 سے ہم اس کے ساتھ الحاق کے لیے تڑپ رہے ہیں ، قربانیاں دے رہے ہیں۔سید علی گیلانی
جب شعر سفر کرجائےگا
وسعت اللہ خان
بی بی سی اردو ڈاٹ کام، اسلام آباد
ناصر کاظمی، احمد ندیم قاسمی، جون ایلیا، خاطر، قتیل، فارغ، منیر نیازی ، احمد شاہ فراز۔آسمانِ سخن کی یہ ڈار کل پوری طرح بکھرگئی ۔ظفر اقبال اور انور شعور نامی دو بچھڑی کونجیں پر سمیٹے بیٹھی ہیں۔اور اب ہم فرحت عباس شاہ، وصی...
Brief Biography:
Ahmed Faraz (Syed Ahmed Shah) was born on January 14, 1931, in Naushehra,Pakistan. Faraz went to Islamia High School, Kohat for his early education. He got hisbachelors degree from Edward College, Peshawar. Later, he did his masters in Urdu and Persian from Peshawar...
ایک تحریر جو آج صبح عجلت میں اپنے بلاگ کیلیئے لکھی یہاں بھی دوستوں کے ساتھ شیئر کر رہا ہوں۔
---------
احمد فراز بھی اس دارِ فانی سے کوچ فرما گئے، اناللہ و انا الیہ راجعون۔
اقلیم سخن کا نامور شاعر جس نے ایک عرصے تک اردو شاعری کے چاہنے والوں کے دلوں پر راج کیا، بالآخر سمندر میں مل گئے، بقول...