غزل
کم سہی‘ ہاں مجھے جینے کا گماں تھا پہلے
اب جو دھڑ کا سا ہے دل کو‘ وہ کہاں تھا پہلے
سُنتے آئے ہیں کہ دیوار تھی دیوار کے ساتھ
ہر مکاں دُور تلک ایک مکاں تھا پہلے
ایک آواز تھی اور دل میں اُتر جاتی تھی
قریہ و کو میں کہاں شورِ اذاں تھا پہلے
ایک در کھلتا تھا‘ در کھلتے چلے جاتے تھے...
غزل
زادہء ہجر پر ہزار دامنِ جاں کشادہ تھا
رات بہت طویل تھی، درد بہت زیادہ تھا
دونوں کی ایک قدر تھی اور تھی مشترک بہت
حُسن بھی خود نہاد تھا، عشق بھی بے ارادہ تھا
ایک لباسِ مفلسی، ایک فریبِ دل لگی
ایک تھا میرا پیرہن، ایک ترا لبادہ تھا
وقت کی اپنی چال تھی اور مجھے خبر نہ تھی
رات کی...
غزل
’’صدائے گریۂ ہمسایگاں ‘‘ سُنی کم ہے
تو اصل یہ ہے کہ سینوں میں روشنی کم ہے
بلا کے تیز قدم تھے ہمارے ناقہ سوار
مگر ہماری ہی کچھ اس پہ آگہی کم ہے
سو یہ نہیں کہ ہمیں رفتگاں سے اُنس نہیں
سو بات یہ کہ ہماری بھی زندگی کم ہے
تمھارے پیشِ نظر ہم نہیں ‘ نہیں ممکن
ہمیں ہی وقت کی...
غزل
دل بھر آئے تو سمندر نہیں دیکھے جاتے
عکس ، پانی میں اتر کر نہیں دیکھے جاتے
دیکھ اے سست روی ، ہم سے کنارا کر لے
ہر قدم ، راہ کے پتھر نہیں دیکھے جاتے
وہ چہک ہو کہ مہک ، ایک ہی رخ اڑ تی ہے
بَر سرِ دوش ہوا ، پَر نہیں دیکھے جاتے
دیکھ ، اے سادہ دِل و سادہ رُخ و سادہ جمال
ہر...
غزل
جب کبھی خود کو یہ سمجھاؤں کہ تو میرا نہیں
مجھ میں کوئی چیخ اُٹھتا ہے ، نہیں ، ایسا نہیں
وارداتِ دل کا قصہ ہے ، غمِ دنیا نہیں
شعر تیری آرسی ہے ، میرا آئینہ نہیں
کب نکلتا ہے کوئی دل میں اُتر جانے کے بعد
اس گلی کے دوسری جانب کوئی رستا نہیں
تم سمجھتے ہو، بچھڑ جانے سے مٹ جاتا...
غزل
شکل شکل زندانی، سحرِ بے رخی کی ہے
آزروں کی بستی میں، دھوم سامری کی ہے
چپ کا زہر پی لینا، غم کے ہونٹ سی لینا
مصلحت نہیں یارو، بات بے حسی کی ہے
راہ راہ دیواریں، گام گام بے گاریں
شہرِ سنگ میں کیوں کر میں نے زندگی کی ہے
چند سردمہروں نے، چاند چاند چہروں نے
آفتاب سے بڑھ کر دل میں...
غزل
رات لبوں پر کیا کیا برسا ابر تری مہمانی کا
پیاس کا جھولا جھول رہا تھا ایک کٹورا پانی کا
آنکھ میں نیند کا کاجل بھر کے، کھینچ کے خوابوں کے ڈورے
تھپک تھپک کے بھوک سلا دی، جوڑ کے تار کہانی کا
کتنے سیہ فاقوں کے جلو میں کتنی صدیاں بیت گئیں
لیکن پرجا بھول نہ پائی قصہ راجا رانی کا...
غزل
نئی رتوں میں نئے انکشاف کر جائیں
شجر سے لپٹی ہوئی بیل صاف کر جائیں
مرے وجود کے سب زاویے سلامت ہیں
خطوط کیسے ترا اعتراف کر جائیں
یہ اور بات کہ ہم تیرے معترف ٹھہرے
عجب نہیں جو کبھی اختلاف کر جائیں
سحر کے خواب بہیں اپنی کور آنکھوں سے
شبِ دعا کو ہمارے خلاف کر جائیں
ہُوا تو شہر...
غزل
کڑی ہے دھوپ، گھٹا بن کے خود پہ چھاتے جائیں
کسی کو یاد کریں اوس میں نہاتے جائیں
یہ دل کی بھول بھلیاں، یہ ایک سے رستے
ہر ایک موڑ پہ کوئی نشاں لگاتے جائیں
سیاہ کیوں ہوں یہ طاق و دریچہ و محراب
چلے ہیں گھر سے تو جلتا دیا بجھاتے جائیں
یہ میری آپ کی ہمسائیگی کی آئینہ دار
جو ہو سکے...
غزل
یہ کس ترنگ میں ہم نے مکان بیچ دیا
درخت کاٹ لئے سائبان بیچ دیا
دری لپیٹ کے رکھ دی بساط الٹ ڈالی
چراغ توڑ دئے شمع دان بیچ دیا
خزاں کے ہاتھ خزاں کے نیاز مندوں نے
نوائے موسمِ گل کا نشان بیچ دیا
اٹھا جو شور تو اہلِ ہوس نے گھبرا کر
زمین لیز پہ دے دی، کسان بیچ دیا
یہی ہے بھوک...
غزل
تھا مجھ سے ہم کلام مگر دیکھنے میں تھا
جانے وہ کس خیال میں تھا، کس سمے میں تھا
کیسے مکاں اجاڑ ہوا، کس سے پوچھتے
چولھے میں روشنی تھی نہ پانی گھڑے میں تھا
تا صبح برگ و شاخ و شجر جھومتے رہے
کل شب بلا کا سوز ہمارے گلے میں تھا
نیندوں میں پھر رہا ہوں اسے ڈھونڈتا ہوا
شامل جو ایک خواب...
غزل
وابستہ ہیں اس جہان سے ہم
آئے نہیں آسمان سے ہم
دکھ درد ہے ذکر و فکر اپنا
کہتے نہیں کچھ زبان سے ہم
اس جوشِ نمو سے لگ رہا ہے
اترے نہیں اس کے دھیان سے ہم
کمروں میں اجنبی مکیں تھے
کچھ کہہ نہ سکے مکان سے ہم
محفل تو جمی رہے گی مشتاق
اٹھ جائیں گے درمیان سے ہم
(احمد مشتاق)
غزل
نکلے تھے کسی مکان سے ہم
روٹھے رہے اک جہان سے ہم
بدنامیاں دل سے آنکھ تک تھیں
رسوا نہ ہوئے زبان سے ہم
ہے تنگ جہانِ بود و نابود
اترے ہیں کسی آسمان سے ہم
پھولوں میں بکھر گئے تھے رستے
گزرے نہیں درمیان سے ہم
جو شان تھی ملتے وقت مشتاق
بچھڑے اسی آن بان سے ہم
شاعر: احمد مشتاق
بکھرتا پھول جیسے شاخ پر اچھا نہیں لگتا
محبت میں کوئی بھی عمر بھر اچھا نہیں لگتا
بکھرنے اور بھٹکنے کیلیے تنہائی کافی ہے
کوئی منزل نہ ہو تو ہمسفر اچھا نہیں لگتا
میں اس کو سوچتا کیوں ہوں اگر ندرت نہیں اس میں
میں اس کو دیکھتا کیوں ہوں اگر اچھا نہیں لگتا
اسی باعث میں تیری یادوں میں مصروف...
غزل
وہ چرچا، جی کے جھنجھٹ کا ہوا ہے
کہ دل کا پاسباں کھٹکا ہوا ہے
وہ مصرع تھا کہ اک گل رنگ چہرہ
ابھی تک ذہن میں اٹکا ہوا ہے
ہم اُن آنکھوں کے زخمائے ہوئے ہیں
یہ ہاتھ، اس ہاتھ کا جھٹکا ہوا ہے
یقینی ہے اب اس دل کی تباہی
یہ قریہ، راہ سے بھٹکا ہوا ہے
گلہ اُس کا کریں کس دل سے خالد...
غزل
متاعِ حاصلِ یک لحظہء وصالِ دوست
دہانِ زخمِ طلب، سربسر جمالِ دوست
عجیب رنگ ---- سرِ طاسِ خوئے بے خبری
عجیب حال ---- سرِ راہِ پائمالِ دوست
میں دھڑکنوں میں سمیٹوں کہ نذرِ خواب کروں
یہ رنگ رنگ جھلک، موجِ مستِ حالِ دوست
شعورِ صبحِ قیامت کسی کو ہو تو ہو
ہمیں عزیز شب و روز و ماہ و...
:AOA:
:p
سنا تھا کے وہ آئیں گے انجمن میں سنا تھا کے ان سے ملاقات ہو گی
ہمیں کیا پتا تھا ہمیں کیا خبر تھی نہ یہ بات ہو گی نہ وہ بات ہو گی
میں کہتا ہوں اس دل کو دل میںبسا لو وہ کہتے ہیں ہم سے نگا ہیںملا لو
نگاہوں کو معلوم کیا دل کی حالت نگا ہوں نگاہوں میںکیا بات ہو گی
ہمیں کھینچ کر عشق...
غزل
ہم رہے پر نہیں رہے آباد
یاد کے گھر نہیں رہے آباد
کتنی آنکھیں ہوئی ہلاک ِ نظر
کتنے منظر نہیں رہے آباد
ہم کہ اے دل سخن تھے سر تا پا
ہم لبوں پر نہیں رہے آباد
شہرِ دل میں عجب محلے تھے
جن میں اکثر نہیں رہے آباد
جانے کیا واقعہ ہوا، کیوں لوگ
اپنے اندر نہیں رہے آباد
جون ایلیا