غزل
ریت بھری ہے ان آنکھوں میں تم اشکوں سے دھو لینا
کوئی سوکھا پیڑ ملے تو اُس سے لپٹ کے رو لینا
اُس کے بعد بھی تم تنہا ہو، جیسے جنگل کا رستہ
جو بھی تم سے پیار سے بولے ساتھ اُسی کے ہو لینا
کچھ تو ریت کی پیاس بجھائو جنم جنم سے پیاسی ہے
ساحل پر چلنے سے پہلے اپنے پائوں بھگو لینا
ہم نے...
غزل
پسِ غبار جواِک آشنا سا چہرا ہے
وہ مجھ کو بُوجھ رہا ہو اگر تو اچھّا ہے
اب ایک عمر کی محرومیوں کے بعد یہ وصل
فریبِ دیدہ ودل ہے کہ خواب دیکھا ہے
عجب نہیں کہ ہمارے بھی لب ہنسے ہوں کبھی
ہجومِ غم میں بھلا کس کو یا د رہتا ہے
مری نظر میں یہ انداز بے یقینی کا
فریبِ عہدِ بہاراں کے بعد...
غزل
میری غزلوں کی جاں ہو گئے
وہ مری داستاں ہو گئے
اُن کو اتنا پُکارا کہ وہ
میری طرزِ فغاں ہو گئے
مجھ کو تلقینِ صبر و رضا
اور خود آسماں ہو گئے
خوگرِ رنج کرکے مجھے
ناگہاں مہرباں ہو گئے
آنسوؤ کچھ مداوہ کرو
ہائے وہ بد گماں ہو گئے
کوئی تو میرے دکھ بانٹ لے
یو ں تو سب ہم زباں ہو...
غزل حاضرِ خدمت ہے۔
صحرا صحرا دوپہریں ہیں، بادل بادل شام
دل نگری کی رات اداسی، چنچل چنچل شام
ڈالی ڈالی پھول ہیں رقصاں، دریا دریا موج
تتلی تتلی نقش ہیں رنگیں، کومل کومل شام
رنگِ جنوں دل دیوانے پر دید کے پیاسے نین
تیری گلی، تیری دہلیزیں، پاگل پاگل شام
نین ہیں کس کے، یاد ہے کس کی، کس...
ہر چند سہارا ہے ، تیرے پیار کا دل کو
رہتا ہے مگر ، ایک عجب خوف سا دل کو
وہ خواب کہ دیکھا نہ کبھی ، لے اڑا نیندیں
وہ درد کہ اٹھا نہ کبھی ، کھا گیا دل کو
یاں سانس کا لینا بھی ، گذر جانا ہے جی سے
یاں معرکہِ عشق بھی ، ایک کھیل کا دل کو
وہ آئیں تو حیراں ، وہ جائیں تو پریشاں
یارب...
غزل
تم ایسا کرنا کہ کوئی جگنو کوئی ستارہ سنبھال رکھنا
مرے اندھیروں کی فکر چھوڑو تم اپنے گھر کا خیا ل رکھنا
اُجاڑ موسم میں ریت دھرتی پہ فصل بوئی تھی چاندنی کی
اب اُس میں اُگنے لگے اندھیرے تو کیسا جی میں ملال رکھنا
دیارِ الفت میں اجنبی کو سفر ہے درپیش ظلمتوں کا
کہیں وہ راہوں میں کھو نہ جائے...
غزل
یہ رتجگوں کا کسی طور سلسلہ نہ رہے
ملو تو یوں کہ بچھڑنے کا شائبہ نہ رہے
ہُو ا ہے فطرتِ ثانی یہ جاگتے رہنا
بلا سے خواب کا آنکھوں میں ذائقہ نہ رہے
ملا تو روئے گا اب بھی وہ لگ کے سینے سے
کہ اپنے حال کا ماضی سے فاصلہ نہ رہے
بچھڑنا شرط ہی ٹھہر ا تو یوں بچھڑ جائیں
کسی کو ترکِ تعلق...
غزل
جلاکرہم نے اِس دل کو اگرچہ راکھ کر ڈالا
مگر اندر ہی اندر اس کسک نے خاک کر ڈالا
یہ ٹھانی تھی کہ ہر قیمت پہ اس کو بھول جانا ہے
سو ! خودکو رفتہ رفتہ اس ہنر میں طاق کر ڈالا
کہیں پھر سے تمھاری آرزو دل میں نہ بس جائے
ہمیں اے دوست اس ڈر نے بہت سفّاک کرڈالا
اچانک پھر کسی کی یاد بن کر...
جاکے پھر لوٹ جو آئے ، وہ زمانہ کیسا
تیری آنکھوں نے یہ چھیڑا ہے ، فسانہ کیسا
آنکھ سرشارِ تمنا ہے ، تُو وعدہ کرلے
چال کہتی ہے کہ اب لوٹ کے ، آنا کیسا
مجھ سے کہتا ہے کہ سائے کی طرح ساتھ ہیں ہم
یوں نہ ملنے کا نکالا ہے ، بہانہ کیسا
اس کا شکوہ تو نہیں ہے ، نہ ملے تو ہم سے
رنج ا سکا...
دل خون ہو تو کیوں کر نہ لہو آنکھ سے برسے
آخر کو تعلق ہے اسے دیدہ تر سے
کچھ دیر تو اس قلب شکستہ میں بھی ٹھہرو
یوں تو نہ گزر جاو اس اجڑے ہوئے گھر سے
ہر موج سے طوفانِ حوادث کی حدی خواں
مشکل ہے نکلنا مری کشتی کا بھنور سے
یہ حسن یہ شوخی یہ تبسم یہ جوانی
اللہ بچائے تمہیں بد بیں کی نظر سے...
حالات کے قدموں پہ قلندر نہیں گرتا
ٹوٹے بھی جو تارا تو زمیں پر نہیں گرتا
گرتے ہیں سمندر میں بڑے شوق سے دریا
لیکن کسی دریا میں سمندر نہیں گرتا
سمجھو وہاں پھلدار شجر کوئی نہیں ہے
وہ صحن کہ جِس میں کوئی پتھر نہیں گرتا
اِتنا تو ہوا فائدہ بارش کی کمی سے
اِس شہر میں اب کوئی پھسل کر نہیں گرتا...
کوئی جائے طور پہ کس لئے کہاں اب وہ خوش نظری رہی
نہ وہ ذوق دیدہ وری رہا ، نہ وہ شان جلوہ گری رہی
جو خلش ہو دل کو سکوں ملے ، جو تپش ہو سوز دروں ملے
وہ حیات اصل میں کچھ نہیں ، جو حیات غم سے بری رہی
وہ خزاں کی گرم روی بڑھی تو چمن کا روپ جھلس گیا
کوئی غنچہ سر نہ اٹھا سکا ، کوئی شاخ گل نہ ہری...
پریشاں رات ساری ہے، ستارو تم تو سو جاؤ
سکوتِ مرگ طاری ہے، ستارو تم تو سو جاؤ
ہنسو اور ہنستے ہنستے ڈوبتے جاؤ خلاؤں میں
ہمیں پر رات بھاری ہے، ستارو تم تو سو جاؤ
ہمیں تو آج کی شب پو پھٹے تک جاگنا ہوگا
یہی قسمت ہماری ہے، ستارو تم تو سو جاؤ
تمہیں کیا! آج بھی کوئی اگر ملنے نہیں آیا
یہ...
تمہاری انجمن سے اُٹھ کے دیوانے کہاں جاتے
جو وابستہ ہوئے تم سے وہ افسانے کہاں جاتے
نکل کر دیر و کعبہ سے اگر ملتا نہ مے خانہ
تو ٹھکرائے ہوئے انساں خدا جانے کہاں جاتے
تمہاری بے رخی نے لاج رکھ لی بادہ خانے کی
تم آنکھوں سے پلا دیتے تو پیمانے کہاں جاتے
چلو اچھا ہوا، کام آگئی دیوانگی اپنی...
یہ کس نے کہا تم کوچ کرو، باتیں نہ بناؤ انشا جی
یہ شہر تمہارا اپنا ہے، اسے چھوڑ نہ جاؤ انشا جی
جتنے بھی یہاں کے باسی ہیں، سب کے سب تم سے پیار کریں
کیا اِن سے بھی منہہ پھیروگے، یہ ظلم نہ ڈھاؤ انشا جی
کیا سوچ کے تم نے سینچی تھی، یہ کیسر کیاری چاہت کی
تم جن کو ہنسانے آئے تھے، اُن کو نہ رلاؤ انشا...
اک غزل اُس پہ لکھوں دل کا تقاضا ہے بہت
اِن دنوں خود سے بچھڑ جانے کا دھڑکا ہے بہت
رات ہو دن ہو غفلت ہو کہ بیداری ہو
اُس کو دیکھا تو نہیں ہے اُسے سوچا ہے بہت
تشنگی کے بھی مقامات ہیں کیا کیا یعنی
کبھی دریا نہیں کافی ، کبھی قطرہ ہے بہت
میرے ہاتھوں کی لکیروں کے اضافے ہیں گواہ
میں نے پتھر...
غزل
بہ پاسِ خاطرِ سرکار کیا نہیں کرتے
ہیں دل فگار مگر دل بُرا نہیں کرتے
ہماری ذات میں محشر بپا ہے مدت سے
مگر یہ ہم کہ کوئی فیصلہ نہیں کرتے
غبارِ راہ سے آگے نکل گئے ہوتے
جو رک کے پاؤں سے کانٹے جدا نہیں کرتے
و ہ دل پہ وار بھی کرتا ہے یہ بھی کہتاہے
کہ دل کے زخم عجب ہیں بھرا نہیں...
غزل
میں سمجھا مری گھٹن مٹانے آیا تھا
وہ جھونکا تو دیا بجھانے آیا تھا
موسمِ گل اُس بار بھی آیا تھا لیکن
کیا آیا بس خاک اُڑانے آیا تھا
چشم زدن میں ساری بستی ڈوب گئی
دریا کس کی پیاس بجھانے آیا تھا
مہر نشاں، زرکار قبا، وہ یار مرا
مجھ کو سنہرے خواب دکھانے آیا تھا
خالی چھتری دیکھ...
غزل
اک سزا اور اسیروں کو سنا دی جائے
یعنی اب جرمِ اسیری کی سزا دی جائے
دستِ نادیدہ کی تحقیق ضروری ہے مگر
پہلے جو آگ لگی ہے وہ بجھا دی جائے
اُس کی خواہش ہے کہ اب لوگ نہ روئیں نہ ہنسیں
بے حسی وقت کی آواز بنادی جائے
صرف سورج کا نکلنا ہے اگر صبح تو پھر
ایک شب اور مری شب سے ملا دی...