زندگی میں کمی سی لگتی ہے
یہ مجھے اجنبی سی لگتی ہے
ایک لمحہ ہوا جدا ہو کر
مجھ کو لیکن صدی سی لگتی ہے
گھر جلانا تو ان کا پیشہ ہے
ان کو یہ روشنی سی لگتی ہے
دل میں جذبہ نہیں ہے الفت کا
رہبری رہزنی سی لگتی ہے
بے قراری ، گھٹن ، تیری چاہت
مجھ کو یہ عاشقی سی لگتی ہے
درد کی داستان لکھتا ہوں
ان کو یہ...
جو مجھے کبھی بھی نہ مل سکی مجھے اس خوشی کی تلاش ہے
میں خود اپنے آپ کو جان لوں اسی آگہی کی تلاش ہے
تیری عمر بھر رہی جستجو میں تجھے کبھی بھی نہ پا سکا
میں تو ہوں بقید حیات پرمجھے زندگی کی تلاش ہے
میں اکیلا خوش ہوں تو کچھ نہیں مجھے ہر کسی کا خیال ہے
جو ہو خستہ حال بھی خوش اگر مجھے اس خوشی کی تلاش...
غزل
شفیق خلشؔ
کہنے کا زور و شور سے اُن پر اثر نہ ہو
سُن کر بھی یُوں رہیں وہ کہ جیسے خبر نہ ہو
شرمِندۂ عَمل ہُوں کہ صرفِ نظر نہ ہو
دِل سے وہ بے بسی ہے کہ صُورت دِگر نہ ہو
کوشش رہے اگرچہ، کوئی لمحۂ حیات!
خود میں خیال اُن کا لیے جلوہ گر نہ ہو
اِک اِلتماس تجھ سے بھی ایّامِ خُوب رفت!
صُحبت...
غزل
جلیل حسن جلیؔل
چال سے فتنۂ خوابیدہ جگاتے آئے!
آپ، جب آئے قیامت ہی اُٹھاتے آئے
نالۂ گرم نے، اِتنا نہ کِیا تھا رُسوا
اشک کمبخت تو، اور آگ لگاتے آئے
دِل کو مَیں اُن کی نِگاہوں سے بچاتا، کیونکر
دُور سے، تِیر نِشانے پہ لگاتے آئے
آئے ہم سُوئے قَفس ، چھوڑ کے جب گُلشن کو
آہ سے آگ نشیمن میں...
ایک غزل پیش ہے
غزل
۔۔۔
کوئی بتلائے کیا یہ غم کم ہے
وہ بھی کہتے ہیں تجھ کو کیا غم ہے
مجھ کو ہر شے سے وہ مقدّم ہے
آرزو دل میں جو مجسّم ہے
دل کا آئینہ ہو اگر صیقل
ہاتھ میں تیرے ساغر جم ہے
کچھ منازل ہیں زیست کی جن میں
نہ کوئی بدرقہ نہ ہمدم ہے
عہد طفلی گیا، شباب گیا
زندگی ہے کہ اب بھی...
غزل
فِراق گورکھپُوری
تِرا جمال بھی ہے آج، اِک جہانِ فِراق
نِگاہِ لُطف و کرم خود ہے تر جمانِ فِراق
فضا جہانِ محبّت کی جِن سے تھی رنگِیں
تجھے بھی یاد کچھ آئے وہ، شادمانِ فِراق
نظر بچا کے جنھیں برقِ حُسن چھوڑ گئی
مِلے نہ زخمِ نہاں میں بھی وہ نشانِ فِراق
نِگاہِ ناز تِری تھی تمام قَول و قَسَم
کسی...
۔۔۔غزل۔۔۔
سن کے بولے وہ مدعا میرا
پڑ گیا کس سے واسطہ میرا
جس نے دیکھا اسی نے منہ پھیرا
تم ہی سن لیتے ماجرا میرا
اب تو اٹھتے ہیں عادتاََ پاؤں
کھو چکا کب کا راستہ میرا
کیا لکھا ؟ لکھ کے پھاڑ بھی ڈالا !
پوچھتا ہے یہ آئینہ میرا
فکر دنیا تھما کے ہاتھوں میں
لے گیا وقت جھنجھنا میرا
اک وہی بات...
غزل
بنیں شریکِ سفر وہ مکاں سے گھر کے لیے
تو وجہ کیا کوئی باقی ہو دِل میں ڈر کے لیے
طَلَب ذرا نہ ہو تکیہ کی عُمر بھر کے لیے!
مُیَسّر اُن کا ہو زانُو جو میرے سر کے لیے
تمنّا دِل میں کہاں اب کسی بھی گھر کے لیے
نہیں ہے چاند مُیسّر جو بام و دَر کے لیے
کوئی بھی پیار ہو، اِظہار سے عِبارت ہے!
کریں...
غزل
کیوں مُستند خیال کروں ہر خبر کو میں
کیا جانتا نہیں ہوں صفِ معتبر کو میں
میں صاحبِ نظر نہ سہی، دیکھتا تو ہوں
پھر کیا کروں ہر ایک کی فہم و نظر کو میں
آمادہء سفر ہی نہ ہو ہم سفر تو پھر
کیا خاک چھاننے کو چُنوں رہگزر کو میں
کس مہرباں نے کھوٹی کی ہیں میری منزلیں؟
"پہچانتا نہیں ہوں ابھی راہ بر...
کچھ اشعار پیش ہیں چند ایک روز سے زیر غور تھے ۔
غزل
جاگے گی ایک دن مری تقدیر دیکھنا
کام آئے گی تمہاری نہ تدبیر دیکھنا
پہلے تم اس کے دام کی تزویر دیکھنا
پھر کس سے کون ہوتا ہے تسخیر دیکھنا
اک دن مقابلے پہ صف آرا ملوں گا میں
ٹوٹے گی میرے پاؤں کی زنجیر دیکھنا
میرا حریف بن کے مرے سامنے ہے وہ
اب...
غزل
طلب تو جزوِ تمنا کبھی رہی بھی نہیں
سو اب کسی کے نہ ہونے سے کچھ کمی بھی نہیں
ہمیں تمہاری طرف روز کھینچ لاتی تھی
وہ ایک بات جو تم نے کبھی کہی بھی نہیں
وہ سب خیال کے موسم کسی نگاہ سے تھے
سو اب خوشی بھی نہیں دل گرفتگی بھی نہیں
کرم کیا کہ رُکے تم نگاہ بھر کے لیے
نظر کو اس سے زیادہ کی تاب تھی...
غزل
شفیق خلشؔ
حُصُولِ قُرب گو اُن کے یُوں پیش و پس میں نہیں!
انا کا پاس کرُوں کیا، کہ دِل ہی بس میں نہیں
جُدا ہُوا نہیں مجھ سے ، جو ایک پَل کوکبھی !
غضب یہ کم، کہ وہی میری دسترس میں نہیں
خیال و خواب مُقدّم لیے ہے ذات اُس کی
کہوں یہ کیسے کہ پَیوستہ ہر نفس میں نہیں
محبّتوں میں عِنایت کا...
کچھ دنوں سے ایک دو مصرعے ذہن میں گردش کر رہے تھے۔ انہیں ایک غزل کی شکل دینے کی کوشش کی ہے۔
جو ہم نہ ہوں تو ہے کس کام کی یہ رعنائی
ڈبو کے چھوڑے گا تم کو یہ زعم یکتائی
اگر چہ کہہ تو دیا تم نے جو میں چاہتا تھا
وہ زیر و بم نہ تھے لیکن شریک گویائی
چراغ ڈستے رہے میری تیرہ راتوں کو
سحر نہ بن سکی...
اب وقت کا فرمان بہ اندازِ دگر ہے
حالات کا عنوان بہ اندازِ دگر ہے
اے کشتیِ تدبیر کے آرام نشینو!
تقدیر کا فرمان بہ اندازِ دگر ہے
از بسکہ ہیں تخریب کے اطوار نرالے
تعمیر کا سامان بہ اندازِ دگر ہے
اے غم کے اندھیرے میں سسکتے ہوئے راہی
اب صبح کا امکان بہ اندازِ دگر ہے
اربابِ محبت نہیں فریاد کے خوگر...
کیا مذاقِ آسماں ہے ہم دل افگاروں کے ساتھ
ذہن پھولوں سے بھی نازک، زندگی خاروں کے ساتھ
درد کم ہونے نہیں دیتے کہ ہم سے پھر نہ جائیں
کیا محبت ہے مسیحاؤں کو بیماروں کے ساتھ
جن کو سِم سِم کی خبر تھی ان پر دروازے کھلے
ہم الجھتے ہی رہے سنگین دیواروں کے ساتھ
اپنا اندازِ محبت بے نیازِ قرب و بعد
جسم...
حاضری لگوانے کی نیت سے چند اشعار پیش ہیں۔امید ہے کہ احباب رائے سے نوازیں گے۔
اپنے دل پر لگا لیے چرکے
ہم نے پھر ذکر آپ کا کر کے
میری آہوں میں کرب اتنا تھا
مجھ سے وحشت لپٹ گئی ڈر کے
تیغ و خنجر کہاں ہمارا نصیب
ہم تو گھائل ہیں دیدۂِ تر کے
جینا ایسا بھی کیا ضروری ہے
کہ جیا جائے روز مر مر کے...
آج میں آپ کو میرؔ صاحب کی ایک غزل سنانا چاہتا ہوں۔
سیدھی سادی سی ہے۔
لیکن میرؔ صاحب کی سیدھی سادی باتیں بھی دل میں پیوست ہو جاتی ہیں۔
یہ غزل تو مجھے اپنی ہی آپ بیتی معلوم ہوتی ہے۔
امید ہے آپ کو بھی پسند آئے گی:
تھا شوق مجھے طالبِ دیدار ہوا میں
سو آئنہ سا صورتِ دیوار ہوا میں
جب دور گیا...
غزل
(عبدالرفیق - علیگڑھ)
مانگی ہے جان آپ نے ایمان لیجئے
اب تو خدا کے واسطے پہچان لیجئے
دار و رسن کا کس لئے احسان لیجئے
لطف و کرم سے آپ مری جان لیجئے
مایوسیوں سے فرحت ارمان لیجئے
مجبوریوں سے صورت امکان لیجئے
مجھ کو نجات دیجئے میری تڑپ سے آپ
لیکن تڑپ حیات ہے یہ جان لیجئے
آواز ہے جرس کی...
پھونک کر گھر اپنا ذکرِ برقِ ناہنجار کیا
خود کشی کر کے بیانِ تیغِ جوہر دار کیا
شمعیں خود گل کر کے ظلمت کی مذمت کس لیے
قتل کر کے دوستوں کو شکوۂ اغیار کیا
کن سرابوں میں ہیں اہلِ کارواں کھوئے ہوئے
پاؤں اپنے توڑ کر پھر خواہشِ رفتار کیا
سر تو اپنے تم نے پھوڑے اے گروہِ خود سراں!
کچھ سمجھ میں آئی بھی...
موج در موج ہے دریا تیرا
تشنہ لب پھرتا ہے پیاسا تیرا
تہہ بہ تہہ دھند کے پردے ہیں یہاں
کیا نظر آئے سراپا تیرا
خامشی میری ہے، حیرت میری
آئنے تیرے ہیں، جلوا تیرا
جانتے سب ہیں پہ کہتے ہیں ”نہیں“
کیسا تنہا ہوا رسوا تیرا
پھول کھلتے ہیں تو یاد آتا ہے
مسکراتا ہوا چہرا تیرا
چاند چڑھتا ہے تو ہم دیکھتے...