غزل

  1. محمد تابش صدیقی

    غزل: اپنی مرضی ہی کرو گے تم بھی ٭ روحی کنجاہی

    اپنی مرضی ہی کرو گے تم بھی کچھ کسی کی نہ سنو گے تم بھی وقت سے بچ نہ سکو گے تم بھی جو کرو گے وہ بھرو گے تم بھی ایک آواز سنی ہے ہم نے ایک آواز سنو گے تم بھی آج آندھی ہو تو مٹی کی طرح ایک دن بیٹھ رہو گے تم بھی آج سرکار بنے بیٹھے ہو کل کو فریاد کرو گے تم بھی یہی ہوتا ہے یہی ہونا ہے...
  2. ملک عدنان احمد

    غزل کی تلاش

    تسلیمات! کہیں بہت پہلے کسی سے کچھ اشعار سنے تھے. کچھ یاد رہ گئے. بتلایا گیا تھا کہ جون ایلیا کے ہیں لیکن اب بہت ڈھونڈنے پر بھی مل نہیں رہے. کسی کے علم میں ہو تو رہنمائی فرمائیے تم محبت نہیں عقیدہ ہو میں تمہیں اختیار کر لوں کیا تیر آ کر ہے میرے پاس گرا کیا کروں، آر پار کر لوں کیا؟
  3. محمد تابش صدیقی

    غزل: رہِ طلب کے جو آداب بھول جاتے ہیں ٭ اعجاز رحمانی

    رہِ طلب کے جو آداب بھول جاتے ہیں وہ گمرہی کے بھی اسباب بھول جاتے ہیں کمند چاند ستاروں پہ ڈالنے والے چراغِ منبر و محراب بھول جاتے ہیں جو آ کے ڈوب گئے شہر کے سمندر میں وہ اپنے گاؤں کے تالاب بھول جاتے ہیں تری قبا کے دھنک رنگ دیکھنے والے ردائے انجم و ماہتاب بھول جاتے ہیں انہیں بہار کی پروا نہ...
  4. کاشفی

    روز خوابوں میں آ کے چل دوں گا - آلوک شریواستو

    غزل (آلوک شریواستو) روز خوابوں میں آ کے چل دوں گا تیری نیندوں میں یوں خلل دوں گا میں نئی شام کی علامت ہوں خاک سورج کے منہ پہ مل دوں گا اب نیا پیرہن ضروری ہے یہ بدن شام تک بدل دوں گا اپنا احساس چھوڑ جاؤں گا تیری تنہائی لے کے چل دوں گا تم مجھے روز چٹھیاں لکھنا میں تمہیں روز اک غزل دوں گا
  5. احمد وصال

    اسی کے ملنے سے تعبیر زندگی ملے گی

    غزل ۔۔ اُسی کے ملنے سے تعبیرِ زندگی ملے گی ہمیں پتہ ہے یہ اک خواب ہے ، نہی ملے گی کہا تھا اُس نے کہ "میسج کروں، نہ کال کروں" مگر وہ کیسی ہے ؟ پھر کیسے آگہی ملے گی الہی! میں نہیں منکر تری عطاؤں کے مگر یہ کیسے ہے ممکن مجھے خوشی ملے گی آہ! انتہائے تغافل کہ سامنے، ۔۔۔۔ نہ سنے اسے خبر دو کہ...
  6. طارق شاہ

    شفیق خلش ::: راغب ہو کہاں دِل نہ جو مطلب ہو خُدا سے:::shafiq khalish

    راغب ہو کہاں دِل نہ جو مطلب ہو خُدا سے جب کیفیت ایسی ہو، تو کیا ہوگا دُعا سے کب راس رہا اُن کو جُداگانہ تشخّص! رافِل رہے ہر اِک کو وہ، گفتار و ادا سے تقدیر و مُکافات پہ ایمان نہیں کُچھ جائز کریں ہر بات وہ آئینِ وَفا سے ہر نعمتِ قُدرت کو رہا اُن سے علاقہ! کب زُلف پریشاں نہ ہُوئی دستِ صبا...
  7. طارق شاہ

    شفیق خلش ::::: راغب ہو کہاں دِل نہ جو مطلب ہو خُدا سے:::::shafiq khalish

    راغب ہو کہاں دِل نہ جو مطلب ہو خُدا سے جب کیفیت ایسی ہو، تو کیا ہوگا دُعا سے کب راس رہا اُن کو جُداگانہ تشخّص! رافِل رہے ہر اِک کو وہ، گفتار و ادا سے تقدیر و مُکافات پہ ایمان نہیں کُچھ جائز کریں ہر بات وہ آئینِ وَفا سے ہر نعمتِ قُدرت کو رہا اُن سے علاقہ! کب زُلف پریشاں نہ ہُوئی دستِ صبا...
  8. طارق شاہ

    نکہت بریلوی:: رَہِ وَفا کے ہر اِک پَیچ و خَم کو جان لیا

    غزل نِکہت بَریلوی رَہِ وَفا کے ہر اِک پَیچ و خَم کو جان لیا جُنوں میں دشت و بَیاباں تمام چھان لیا ہر اِک مقام سے ہم سُرخ رُو گزر آئے قدم قدم پہ محبّت نے اِمتحان لیا گراں ہُوئی تھی غَمِ زندگی کی دُھوپ، مگر کسی کی یاد نے اِک شامیانہ تان لیا تمھیں کو چاہا بہرحال، اور تمھارے سِوا زمین...
  9. میم الف

    تجھ سے بچھڑ کے ہم بھی مقدر کے ہو گئے

    تجھ سے بچھڑ کے ہم بھی مقدر کے ہو گئے پھر جو بھی در ملا ہے اُسی در کے ہو گئے پھر یوں ہوا کہ غیر کو دل سے لگا لیا اندر وہ نفرتیں تھیں کہ باہر کے ہو گئے کیا لوگ تھے کہ جان سے بڑھ کر عزیز تھے اب دل سے محو نام بھی اکثر کے ہو گئے اے یادِ یار تجھ سے کریں کیا شکایتیں اے دردِ ہجر ہم بھی تو پتھر کے ہو...
  10. طارق شاہ

    شفیق خلش :::: عذاب ترکِ تعلّق پہ کم سہا ہوگا:::::shafiq khalish

    غزل عذاب ترکِ تعلّق پہ کم سہا ہوگا وہاں بھی سَیل سا اشکوں کا یُوں بہا ہوگا یہ دِل شکنجئہ وحشت سے کب رہا ہوگا کب اِختتامِ غَمِ ہجرِ مُنتَہا ہوگا جہاں کہیں بھی وہ عُنوانِ گفتگو ٹھہرا! وہاں پہ ذکر ہمارا بھی بارہا ہوگا ہَوائے شب عِطرآگِیں تھی اس پہ کیا تکرار وُرُودِ صبح پہ تم نے بھی کُچھ...
  11. عاطف ملک

    ضبط کہتا ہوں کسی آنکھ کی ویرانی کو

    کافی عرصے بعد کچھ اشعار ہوئے ہیں بلکہ کہے ہیں۔اساتذہ اور محفلین کی خدمت میں اس امید کے ساتھ پیش ہیں کہ اپنی رائے ضرور دیں گے۔ ضبط کہتا ہوں کسی آنکھ کی ویرانی کو آہ کہتا ہوں مَیں پلکوں سے گرے پانی کو جس کے ہونے سے نہ محسوس ہو نادار کا دُکھ زہر کہتا ہوں میں اس شے کی فراوانی کو زندگانی میں محبت...
  12. طارق شاہ

    شفیق خلش :::::مُسابَقَت میں مزہ کوئی دَم نہیں ہوتا:::::shafiq khalish

    غزل مُسابَقَت میں مزہ کوئی دَم نہیں ہوتا ذرا جو فِطرَتِ آہُو میں رَم نہیں ہوتا یہ لُطف، عِشق و محبّت میں کم نہیں ہوتا! بہت دِنوں تک کوئی اور غم نہیں ہوتا دِلوں کے کھیل میں سب حُکم دِل سے صادِر ہوں زماں کا فیصلہ یکسر اَہَم نہیں ہوتا تمھارے ساتھ گُزارے وہ چند لمحوں کا ذرا سا کم کبھی لُطفِ...
  13. محمد تابش صدیقی

    احمد ندیم قاسمی غزل: مجھے بھی مژدۂ کیفیتِ دوامی دے

    مجھے بھی مژدۂ کیفیتِ دوامی دے مرے خدا! مجھے اعزازِ ناتمامی دے میں تیرے چشمۂ رحمت سے شاد کام تو ہوں کبھی کبھی مجھے احساسِ تشنہ کامی دے مجھے کسی بھی معزز کا ہمرکاب نہ کر میں خود کماؤں جسے، بس وہ نیک نامی دے وہ لوگ جو کئی صدیوں سے ہیں نشیب نشیں بلند ہوں، تو مجھے بھی بلند بامی دے تری زمین، یہ...
  14. محمد تابش صدیقی

    مظفر وارثی غزل: ساتھ ہر چند ہمسفر رکھنا

    ساتھ ہر چند ہمسفر رکھنا سامنے اپنی رہ گزر رکھنا زندگی خواب بن کے رہ جائے زانوئے شب پہ یوں نہ سر رکھنا برف کی ناؤ میں تو بیٹھے ہو آگ سی ذہن میں مگر رکھنا خاک پر بھی اگر بناؤ محل سنگِ بنیاد عرش پر رکھنا بن گئے خول اب تو چہرے بھی احتیاطِ دل و نظر رکھنا لذّتیں لے چلیں تمھارے حضور تلخیاں گفتگو...
  15. ظہیراحمدظہیر

    اب تری یاد میں غم بھی ہوئے شامل میرے

    بہت عرصے کے بعد کچھ تازہ اشعار احبابِ محفل کی خدمت میں پیش کررہا ہوں ۔ خاکدان کا مجموعہ ترتیب دینے کے بعد بھی کئی ساری پرانی غزلیں اور نکل آئی ہیں ۔ چند ایک کی نوک پلک درست کرکے مکمل بھی کرلیا ہے اور وقتاً فوقتاً آپ کے ذوق کی نذر کرنے کا ارادہ ہے ۔ فی الحال یہ تازہ اشعار دیکھئے گا ۔ امید ہے کہ...
  16. محمد تابش صدیقی

    اقبال غزل: کہوں کیا آرزوئے بے دلی مجھ کو کہاں تک ہے

    کہوں کیا آرزوئے بے دلی مجھ کو کہاں تک ہے مرے بازار کی رونق ہی سودائے زیاں تک ہے وہ مے کش ہوں فروغِ مے سے خود گلزار بن جاؤں ہوائے گل فراقِ ساقیِ نامہرباں تک ہے چمن افروز ہے صیاد میری خوشنوائی تک رہی بجلی کی بے تابی، سو میرے آشیاں تک ہے وہ مشتِ خاک ہوں ، فیضِ پریشانی سے صحرا ہوں نہ پوچھو...
  17. محمداحمد

    دو غزلہ : رات بھر سوچتے رہے صاحب ۔۔۔ محمد احمدؔ

    السلام علیکم، یہ کلام تقریباً ڈیڑھ دو ماہ پرانا ہے ، اُن دنوں طبیعت میں روانی تھی ، سو یہ غزل سے دو غزلہ ہوگیا۔ احباب کےاعلیٰ ذوق کی نذر: دو غزلہ رات بھر سوچتے رہے صاحب آپ کس مخمصے میں تھے صاحب؟ اس نے 'کاہل 'کہا محبت سے ہنس دیئے ہم پڑے پڑے صاحب گرم چائے، کتاب، تنہائی اور ہوتے ہیں کیا...
  18. محمداحمد

    غزل: ہر اینٹ سوچتی ہے کہ دیوار اس سے ہے ۔۔۔گرچرن مہتا رجت

    غزل ہر اینٹ سوچتی ہے کہ دیوار اس سے ہے ہر سر یہی سمجھتا ہے دستار اس سے ہے ہے آگ پیٹ کی تبھی چھم چھم ہے رقص میں پائل سمجھتی ہے کہ یہ جھنکار اس سے ہے امید ان سے کوئی لگانا ہی ہے فضول ہر منتری کی سوچ ہے سرکار اس سے ہے گھر کو بنائیں گھر صدا گھر کے ہی لوگ سب اور آدمی سمجھتا ہے پریوار اس سے ہے...
  19. محمداحمد

    غزل: ایک پتھر کہ دست یار میں ہے ۔ ۔۔ قمر جمیل

    ایک دھاگے میں پھول پتھر پر ایک مصرع دیکھ کر یہ غزل یاد آئی۔ غزل ایک پتھر کہ دست یار میں ہے پھول بننے کے انتظار میں ہے اپنی ناکامیوں پہ آخر کار مسکرانا تو اختیار میں ہے ہم ستاروں کی طرح ڈوب گئے دن قیامت کے انتظار میں ہے اپنی تصویر کھینچتا ہوں میں اور آئینہ انتظار میں ہے کچھ ستارے...
  20. محمد تابش صدیقی

    غزل: اتنی سی، زندگی میں ریاضت نہ ہو سکی ٭ محمود غزنوی

    اتنی سی، زندگی میں ریاضت نہ ہو سکی اک غم کو بھول جانے کی عادت نہ ہو سکی کچھ دیر جلتا رہتا ہواؤں کے رو برو گھر کے دیے سے اتنی مروت نہ ہو سکی اس کم وفا نے زخم وہ بخشا کہ اس کے بعد ہم سے تو ساری عمر محبت نہ ہو سکی وہ بھی سمجھ سکا نہ مری وحشتوں کا حال مجھ سے بھی اپنے غم کی وضاحت نہ ہو سکی سوچو...
Top