غزل

  1. Qamar Shahzad

    غزل:قریہ ءِ جاں پہ کیوں لشکرِ ہجر کا خوف

    قریہ ءِ جاں پہ کیوں لشکرِ ہجر کا خوف طاری کروں وقفِ تعبیرِ خوابِ وصالِ صنم زیست ساری کروں کوئی دعویٰ نہیں اس ہنر میں مجھے، ہاں اگر تُو ملے دستِ لب سے ترے جسم کی لوح پر دستکاری کروں دیکھنا عکسِ جاناں زِ چشمِ تخیل برائے حیات نعمتِ خاص ہے، آبشارِ تشکر کو جاری کروں رشکِ مہتاب اپنی جبینِ...
  2. عاطف ملک

    مضطر و بے کس و لاچار رہا کرتے ہیں

    ایک اور کاوش محترم اساتذہ کرام اور محفلین کی خدمت میں پیش ہے۔اپنی رائے سے ضرور آگاہ کیجیے گا۔ مضطر و بے کس و لاچار رہا کرتے ہیں تیری چوکھٹ سے جو بے زار رہا کرتے ہیں اک نظر لطف کی، اے میرے مسیحا اس سمت اس طرف آپ کے بیمار رہا کرتے ہیں وہ تو معصوم ہی رہتے ہیں ستم کر کے بھی ہم گلہ کر کے گنہ گار...
  3. Qamar Shahzad

    اک عکسِ لاوجود سے لپٹا ہوا ہوں میں

    اک عکسِ لا وجود سے لپٹا ہوا ہوں میں جیسا مجھے نہ ہونا تھا ویسا ہوا ہوں میں میرے درختِ جسم کو خوفِ خزاں نہیں اُس معجزاتی ہونٹ کا چوما ہوا ہوں میں پورے کیے ہیں پیار کے سارے لوازمات اب کُن کے انتظار میں بیٹھا ہوا ہوں میں خود کو تمہارے بعد سمیٹا کچھ اس طرح لگتا نہیں کہیں سے بھی ٹوٹا ہوا ہوں...
  4. Qamar Shahzad

    ایک کے بعد نئی ایک کہانی کھلتی

    ایک کے بعد نئی ایک کہانی کھلتی شکر یہ ہے نہ کھلی گر وہ جوانی کھلتی سب کو ہوتی نہیں محسوس مہکتی مسکان ہر کسی پر تو نہیں رات کی رانی کھلتی ثبت انعام سب اس کے ہیں جگر پر میرے غیر پر کیسے بھلا اس کی نشانی کھلتی تُو مری نرم مزاجی کی بلائیں لیتا دوست تجھ پر جو مری شعلہ فشانی کھلتی وہ سزا مجھ کو...
  5. Qamar Shahzad

    وہ اتنا حسیں،اتنا حسیں، اتنا حسیں ہے

    اس جیسا زمانے میں کوئی اور نہیں ہے وہ اتنا حسیں، اتنا حسیں، اتنا حسیں ہے اس چاند سے آنکھیں نہ مری ہونگی منور درکار انہیں یار فقط تیری جبیں ہے چھایا ہے تخیل پہ مرے تیرا سراپا محسوس یہ ہوتا ہے کوئی پھول قریں ہے وہ حدِ تناظر سے بہت دور ہے، مانو بینائی کہیں اور مری آنکھ کہیں ہے رستوں نے...
  6. عاطف ملک

    غزل: پلٹ کر کی خبر گیری، نہ رکھا رابطہ کوئی

    ایک اور کاوش محترم اساتذہ کرام اور محفلین کی خدمت میں پیش ہے۔ پلٹ کر کی خبر گیری، نہ رکھا رابطہ کوئی کبھی اپنوں کو بھی یوں چھوڑ کر جاتا ہے کیا کوئی خدا شاہد ہے، تھا، ہے، اور نہ ہو گا دوسرا کوئی مرے دل میں سمائے بھی تو کیوں تیرے سوا کوئی ہمارے واسطے تو بس وہی اک رہنما ٹھہرا دکھائے تجھ کو پانے...
  7. عاطف ملک

    غزل: ڈھونگ اور منافقت کی روایات پر ہنسوں

    ایک اور کاوش احباب کی خدمت میں پیش: ڈھونگ اور منافقت کی روایات پر ہنسوں عہدِ رواں کی جملہ خرافات پر ہنسوں مفلس پدر کے زیرک و پر عزم نور چشم تیرا مذاق اڑاؤں، تری ذات پر ہنسوں تُو سوچتا ہے سانچ کو آتی نہیں ہے آنچ میں سوچتا ہوں تیرے خیالات پر ہنسوں میں خوگرِ وفا ہوں تو وہ پیکرِ جفا الفت کی اس...
  8. بافقیہ

    فکر و غم نے ہمیں نڈھال کیا

    فکر و غم نے ہمیں نڈھال کیا ذات کو اپنی پائمال کیا ہو کے برباد ، خانہ بر انداز اس پری رو کو مالا مال کیا تو جو ہوتا تو عیش سے کٹتی تیرے جانے نے پُر ملال کیا بے غرض تھے مگر زمانے نے ہم کو بکرا سمجھ حلال کیا ہے زلیخا ولیک یوسف نے حُسن کی ساکھ کو بحال کیا ثقلین یوسف
  9. عاطف ملک

    غزل: لاؤں میں ایسے لفظ کہاں سے ترے لیے

    چند اشعار معزز اساتذہ کرام اور محفلین کی خدمت میں پیش ہیں۔شاید کوئی شعر آپ کو پسند آ جائے۔ نکلے نہ ہوں کسی بھی زباں سے ترے لیے لاؤں میں ایسے لفظ کہاں سے ترے لیے جذبات جن کو دل میں چھپائے ہوئے تھا میں نکھرے ہیں میرے حسنِ بیاں سے، ترے لیے اک بار میرے دل میں ذرا جھانک کر تو دیکھ چاہت ہے بڑھ کے...
  10. بافقیہ

    کہکشاں

    صالح ادب کی تعمیر و تشکیل میں نعت خوانوں ، موسیقاروں اور خوش نواؤں کا حصہ فراموش نہیں کیا جاسکتا۔ آج بڑی مشکل سے معیاری کلام سماعت سے ٹکراتا ہے۔ اور اگر معیاری کلام، صحت تلفظ اور خوب صورت لب و لہجے کے ساتھ سماعت کے پردے میں سمائے تو جی بلیوں اچھلنے لگتا ہے۔ اور احساسات، جذبات اور کیفیات کا ایک...
  11. عاطف ملک

    غزل: تُو نے دیکھا ہی نہیں مڑ کر کبھی جانے کے بعد

    ایک اور کاوش محترم اساتذہ کرام اور محفلین کی خدمت میں پیش ہے۔ عشق کی حدت سے میرے دل کو گرمانے کے بعد تُو نے دیکھا ہی نہیں مڑ کر کبھی جانے کے بعد جو ہوا ہرگز نہیں اس میں کوئی میرا قصور وہ یہی کہتا ہے مجھ پر ہر ستم ڈھانے کے بعد تنگ آ کر توڑ ڈالا آج پھر اک آئنہ اپنے چہرے میں وہی صورت نظر آنے کے...
  12. محمد فخر سعید

    اصلاح طلب ایک اور غزل۔۔۔۔

    سمجھیے جیسے مر گیا ہوں میں خود سے خود ہی بچھڑ گیا ہوں میں آپ کو کیا بتاؤں حال اپنا اپنی قسمت سے لڑ گیا ہوں میں جانتا تھا وفا نہیں ملنی پھر بھی ان ہی پہ مر گیا ہوں میں دیکھ کر خود کو آج آئینے میں ایک بار پھر بکھر گیا ہوں میں ان کا اب ذکر بھی نہیں کرتا لگ رہا ہے بگڑ گیا ہوں میں اب کسی سے...
  13. محمد فخر سعید

    تازہ غزل برائے اصلاح

    جو تیری بات سنیں ان سے نبھا کیوں نہیں کرتے؟ جو تجھے چاہتے ہیں ان سے وفا کیوں نہیں کرتے؟ ہر کسی سے ہے تمہیں ذوق شناسائی مگر سن تم کسی ایک ہی چہرے پہ ڈٹا کیوں نہیں کرتے؟ یہ تمہاری ہے ادا یا کہ جلانا ہمیں مقصود تم رقیبوں سے مری جان بچا کیوں نہیں کرتے؟ ہجر کے دور کی تلخی ہے، بُجھے رہتے ہیں تم مرے...
  14. محمد فخر سعید

    اصلاح کیجیئے۔۔۔

    یادِ ماضی کو ہم سے جدا نہ کرو میرا دو پل کا جیون تباہ نہ کرو وہ کریں یاد ہم کو ہے ان کا کرم وہ جو نہ بھی کریں تو گلا نہ کرو گر ہمیں وصل کا خوب ہے انتظار وہ تو کہتے ہیں ہم سے ملا نہ کرو ہم نے چاہا ہے انکو اور کہہ بھی دیا اور وہ کہتے ہیں یہ سب کہا نہ کرو یہ غزل ہم نے لکھی تیرے نام ہے آپ مجھ پے...
  15. محمد فخر سعید

    اصلاح طلب غزل ۔۔۔

    ہجر میں ہم نے صنم جتنے زخم جھیلے ہیں پوچھیے مت! سبھی یہ آپ کے وسیلے ہیں کبھی چاہو، تو آ جانا! ہمارے پاس کہ اب بھی تمہارے بن، قسم تیری! بہت زیادہ اکیلے ہیں بھلے ہی عشق سننے میں بہت بے کار لگتا ہے سبھی گلشن کے رنگ و ڈھنگ اسی سے ہی سجیلے ہیں ہمیں تو یاد ہے اب بھی تمہارا روٹھ کر کہنا چلے جاؤ کہ...
  16. محمد فخر سعید

    اصلاح طلب ایک اور غزل

    نگاہ تم سے ملا کر ہم مئے خانہ بھول جاتے ہیں تمہیں پا کر قسم تیری زمانہ بھول جاتے ہیں تیرے رخسار کی شوخی اثر کرتی ہے بھنوروں پر کہ ان کی مست رنگت سے وہ کلیاں بھول جاتے ہیں ہمیں جب بھی کبھی آیا ہے غصہ اُس کی باتوں پر وہ چہرہ پھول سا دیکھیں تو غصہ بھول جاتے ہیں کِیا کیا کچھ نہیں ہم نے سبھی کچھ...
  17. محمد فخر سعید

    اصلاح چاہتے ہیں

    فخر اس ہنر میں کب سے کمال رکھتا ہے آنکھ میں نیند نہیں، خواب پال رکھتا ہے ہم نے چاہا ہے انہیں ، ان کو اس سے کیا مطلب وہ تو باتوں سے ہمیں خوب ٹال رکھتا ہے کس طرح دردِ دل چہرے سے عیاں ہو تیرا کہ تُو غم میں بھی تبسم بحال رکھتا ہے ایک فرقہ ہے مکمل ہمارے یاروں کا جان سے بڑھ کے ہمارا خیال رکھتا ہے...
  18. محمد فخر سعید

    اصلاح کر کے راہنمائی طلب ہے۔

    اک روز تیرے ساتھ گھر آباد کریں گے ویران دل کو دم تیرے سے شاد کریں گے چپ رہ کے صبر کر اور یاد کیے جا وہ لوگ تجھے مرضیوں سے یاد کریں گے ہاں پیار انہیں ہم سے ہے اور بے حساب ہے اب اُن سے بھی ہم وقت کی فریاد کریں گے؟ اپنے لگائے زخم پر خود ہی کریں پٹی اب دوست اِس سے بڑھ کے کیا اِمداد کریں گے؟ ہم...
  19. عاطف ملک

    کسی نے آج یہ پوچھا ہے مجھ سے، میرا کیا ہے وہ

    چند تک بندیاں محفلین کی خدمت میں۔ بشر ہے یا مَلَک ہے، داس ہے یا دیوتا ہے وہ مجھے اس سے غرض کوئی نہیں ہے، گر مِرا ہے وہ حسیں، دلکش، پری وش، آئینہ رو، دل رُبا ہے وہ مری چاہت، تمنا، آرزو، الفت، رضا ہے وہ مِری سانسوں کی سرگم، دل کی دھڑکن کی صدا ہے وہ مری خاموشیوں میں گیت بن کر گونجتا ہے وہ مری...
  20. عاطف ملک

    غزل: میں چاہتا ہوں کہ ایسا کوئی ٹھکانہ ملے

    چند تُک بندیاں اساتذہ اور محفلین کی خدمت میں پیش ہیں۔ میں چاہتا ہوں کہ ایسا کوئی ٹھکانہ ملے کسی کو ڈھونڈنے پر بھی مرا پتا نہ ملے تلاش اب کے ہے ایسے جہان کی کہ جہاں بس ایک تُو ہو، مجھے کوئی دوسرا نہ ملے خوشی تو خیر ہماری تجھی سے تھی منسوب ہمیں تو غم بھی ترے غم کے ماسوا نہ ملے تمہارے شہر میں...
Top