غزل
(امیر مینائی رحمتہ اللہ علیہ)
وہ کون تھا جو خرابات میں خراب نہ تھا
ہم آج پیر ہوئے کیا کبھی شباب نہ تھا
شبِ فراق میں کیوں یارب انقلاب نہ تھا
یہ آسمان نہ تھا یا یہ آفتاب نہ تھا
لحاظ ہم سے نہ قاتل کا ہوسکا دمِ قتل
سنبھل سنبھل کے تڑپتے وہ اضطراب نہ تھا
اُسے جو شوقِ سزا ہے مجھے...
غزل
(داغ دہلوی رحمتہ اللہ علیہ)
ذرا وصل پر ہو اشارا تمہارا
ابھی فیصلہ ہے ہمارا تمہارا
بتو! دین و دنیا میں کافی ہے مجھ کو
خدا کا بھروسا، سہارا تمہارا
اُن آنکھوں کی آنکھوں سے لوں میں بلائیں
میسر ہے جن کو نظارا تمہارا
محبت کے دعوے ملے خاک میں سب
وہ کہتے ہیں کیا ہے اجارا تمہارا...
اس غزل سے متاثر ہو کر (نذرِ سودا) کے عنوان سے فیض نے بھی ایک غزل لکھی تھی جو فیض کے مجموعہ دستِ صبا میں موجود ہے۔
کیوں میں تسکینِ دل، اے یار! کروں یا نہ کروں؟
نالہ جا کر پسِ دیوار کروں یا نہ کروں؟
سن لے اک بات مری تو کہ رمق باقی ہے
پھر سخن تجھ سے ستم گار کروں یا نہ کروں؟
ناصحا! اُٹھ...
غزل
(امیر مینائی رحمتہ اللہ علیہ)
یوں دل مرا ہے اُس صنمِ دلرُبا کے پاس
جس طرح آشنا کسی ناآشنا کے پاس
بولا وہ بُت سرہانے مرے آکے وقتِ نزع
فریاد کو ہماری چلے ہو خدا کے پاس؟
توفیق اتنی دے مجھے افلاس میں خدا
حاجت نہ لے کے جاؤں کبھی اغنیا کے پاس
رہتے ہیں ہاتھ باندھے ہوئے...
ہمارے آپ خفا ہو کے کیا مکاں سے گئے
تمہارے جانے سے یاں ہم بھی اپنی جاں سے گئے
گئے جو کوچۂ قاتل میں آہ! حضرتِ دل
مری طرف سے وہ اے ہمدمو جہاں سے گئے
نہ آیا شام کے وعدے پہ تو جو ماہ لقا
خدنگ آہ! گزر اپنی آسماں سے گئے
گئے جو ہم سے خفا ہو کے حضرتِ ناصح
بُرا بھلا ہمیں کہتے ہوئے زباں سے گئے
قطعہ...
غزل
(امیر مینائی رحمتہ اللہ علیہ)
کہا جو میں نے کہ یوسف کو یہ حجاب نہ تھا
تو ہنس کے بولے وہ منہ قابلِ نقاب نہ تھا
شبِ وصال بھی وہ شوخ بے حجاب نہ تھا
نقاب اُلٹ کے بھی دیکھا تو بے نقاب نہ تھا
لپٹ کے چوم لیا منہ، مٹا دیا انکار
نہیں کا اُن کے سوا اس کے کچھ جواب نہ تھا
مرے جنازے پہ...
غزل
(میر انیس)
گنہ کا بوجھ جو گردن پہ ہم اُٹھا کے چلے
خدا کے آگے خجالت سے سر جھکا کے چلے
کسی کا دل نہ کیا ہم نے پائمال کبھی
چلے جو راہ تو چیونٹی کو ہم بچا کے چلے
مقام یوں ہوا اس کارگاہء دنیا میں
کہ جیسے دن کو مسافر سرا میں آکے چلے
طلب سے عار ہے اللہ کے فقیروں کو
کبھی جو...
غزل
گُل نے بہت کہا کہ چمن سے نہ جائیے
گُلگشت کو جو آئیے آنکھوں پہ آئیے
میں بے دماغ کر کے تغافل چلا کیا
وہ دل کہاں کے ناز کسو کے اٹھائیے
صحبت عجب طرح کی پڑی اتفاق ہے
کھو بیٹھیے جو آپ کو تو اوسکو پائیے
رنجیدگی ہماری تو پر سہل ہے ولے
آزردہ دل کسو کو نہ اتنا ستائیے
خاطر ہی کے علاقے کی سب ہیں...
غزل
مدّت سے تو دلوں کی ملاقات بھی گئی
ظاہر کا پاس تھا سو مدارات بھی گئی
کتنے دنوں میں آئی تھی اس کی شبِ وصال
باہم رہی لڑائی سو وہ رات بھی گئی
کچھ کہتے آ کے ہم تو سنا کرتے وے خموش
اب ہر سخن پہ بحث ہے وہ بات بھی گئی
نکلے جو تھی تو بنتِ عنب عاصمہ ہی تھی
اب تو خراب ہو کر خرابات بھی گئی...
غزل
طبیعت نے عجب کل یہ ادا کی
کہ ساری رات وحشت ہی رہا کی
نمائش داغِ سودا کی ھے سر سے
بہار اب ھے جنوں کے ابتدا کی
نہ ہو گُلشن ہمارا کیونکہ بلبل
ہمیں گلزار میں مدت سنا کی
مجھی کو ملنے کا ڈھب کچھ نہ آیا
نہیں تقصیر اس ناآشنا کی
گئے جل حرِّ عشقی سے جگر دل
رہی تھی جان سو برسوں جلا کی
انہی نے...
غزل
ہم رو رو کے دردِ دلِ دیوانہ کہیں گے
جی میں ہے کہوں حال غریبانہ کہیں گے
سودائی و رسوا و شکستہ دل و خستہ
اب لوگ ہمیں عشق میں کیا کیا نہ کہیں گے
دیکھے سے کہے کوئی نہیں جرم کسو کا
کہتے ہیں بجا لوگ بھی بیجا نہ کہیں گے
ہوں دربدر و خاک بسر، چاک گریبان
اسطور سے کیونکر مجھے رسوا نہ کہیں گے...
غزل
(شمس ولی اللہ ولی دکنی)
خوب رو خوب کام کرتے ہیں
یک نگہ میں غلام کرتے ہیں
دیکھ خوباں کو وقت ملنے کے
کس ادا سوں سلام کرتے ہیں
کیا وفا دار ہیں کہ ملنے میں
دل سوں سب رام رام کرتے ہیں
کم نگاہی سوں دیکھتے ہیں ولے
کام اپنا تمام کرتے ہیں
کھولتے ہیں جب اپنی زلفاں کو
صبح عاشق کوں...
غزل بشکریہ محمد وارث صاحب۔
غزل از سید محمد میر سوز
یہ تیرا عشق کب کا آشنا تھا
کہاں کا جان کو میری دھرا تھا
وہ ساعت کونسی تھی یا الہٰی
کہ جس ساعت دو چار اس سے ہوا تھا
میں، کاش اس وقت آنکھیں موند لیتا
کہ میرا دیکھنا، مجھ پر بلا تھا
میں اپنے ہاتھ، اپنے دل کو کھویا
خداوندا، میں کیوں عاشق ہؤا...
غزل بشکریہ محمد وارث صاحب۔
غزل از میر حسن
سیر ہے تجھ سے مری جان، جدھر کو چلئے
تو ہی گر ساتھ نہ ہووے تو کدھر کو چلئے
خواہ کعبہ ہو کہ بت خانہ غرض ہم سے سن
جس طرف دل کی طبیعت ہو، ادھر کو چلئے
زلف تک رخ سے نگہ جاوے نہ اک دن کے سوا
شام کو پہنچئے منزل جو سحر کو چلئے
جب میں چلتا ہوں ترے کوچہ سے...
غزل
مجھے چھیڑنے کو ساقی نے دیا جو جام اُلٹا
تو کِیا بہک کے میں نے اسے ایک سلام اُلٹا
سحر ایک ماش پھینکا مجھے جو دکھا کے اُن نے
تو اشارا میں نے تاڑا کہ ہے لفظِ شام اُلٹا
یہ بلا دھواں نشہ ہے مجھے اس گھڑی تو ساقی
کہ نظر پڑے ہے سارا در و صحن و بام اُلٹا
بڑھوں اُس گلی سے کیونکر کہ وہاں تو میرے دل...
غزل
مجھے کیوں نہ آوے ساقی نظر آفتاب الٹا
کہ پڑا ہے آج خُم میں قدحِ شراب الٹا
عجب الٹے ملک کے ہیں اجی آپ بھی کہ تُم سے
کبھی بات کی جو سیدھی تو ملا جواب الٹا
چلے تھے حرم کو رہ میں، ہوئے اک صنم کے عاشق
نہ ہوا ثواب حاصل، یہ ملا عذاب الٹا
یہ شب گذشتہ دیکھا کہ وہ خفا سے کچھ ہیں گویا
کہیں حق کرے کہ...
غزل
یارب ہمیں دے عشقِ صنم اور زیادہ
کچھ تجھ سے نہیں مانگتے ہم اور زیادہ
دل لے کے نہ کچھ مانگ صنم اور زیادہ
مقدور نہیں تیری قسم اور زیادہ
ہستی سے ہوئی فکرِ عدم اور زیادہ
غم اور زیادہ ہے الم اور زیادہ
بھرتا نہیں جب زخم کسی شکل سے قاتل
بھرتا ہوں تری تیغ کا دم اور زیادہ
تھی بختِ زلیخا میں...
غزل
نیا ہر لحظہ ہر داغِ کہن ہے
بہارِ سینہ رشکِ صد چمن ہے
دہن تیرے کو پایا بات کہتے
ہماری جز رسی میں کیا سخن ہے
یہ صحرا ہے بھلا دیکھیں تو بارے
جنوں کیسا ترا دیوانہ پن ہے
نہ جمعِ رخت سے خوش ہو کہ اک روز
ترا منصب وہی دس گز کفن ہے
وہ گویا زخم ہے چہرے کے اوپر
جو بے لطفِ سخن کوئی دہن ہے
شہیدِ...
غزل
زہے وہ معنیِ قرآں، کہے جو تُو واعظ
پھٹے دہن کے تئیں اپنے، کر رفو واعظ
مجھے یہ فکر ہے تُو اپنی ہرزہ گوئی کا
جواب دیوے گا کیا حق کے روبرو واعظ
خدا کے واسطے چپ رہ، اتر تُو منبر سے
حدیث و آیہ کو مت پڑھ توُ بے وضو واعظ
سنا کسی سے تُو نامِ بہشت، پر تجھ کو
گلِ بہشت کی پہنچی نہیں ہے بُو واعظ...
غزل
درد بن کب ہو اثر نالۂ شب گیر کے بیچ
کارگر کیا ہو وہ، پیکاں نہیں جس تیر کے بیچ
بند اسباب میں ہرگز نہ رہیں وارستہ
کب ٹھہرتی ہے صدا حلقۂ زنجیر کے بیچ
تشنہ لب مر گئے کتنے ہی ترے کوچے میں
ظاہرا آب نہ تھی تجھ دمِ شمشیر کے بیچ
ناصحا! پوچھ نہ احوالِ خموشی مجھ سے
ہے یہ وہ بات کہ آتی نہیں تقریر کے...