غزل
کب تمنّا رہی، گمنام اُنھیں رہنے کی
پائی فِطرت تھی نہ اپنوں کو ذرا سہنے کی
دی جو تجوِیز اُنھیں ساتھ کبھی رہنے کی
بولے! ہّمت ہُوئی کیسے یہ ہَمَیں کہنے کی
بات ویسے بھی تھی سِینے میں نہیں رہنے کی
گرچہ سوچا تھا کئی بار نہیں کہنے کی
ذہن چاہے کہ اُڑان اپنی ہو آفاق سے دُور
دِل میں خواہش کبھی...
راغب ہو کہاں دِل نہ جو مطلب ہو خُدا سے
جب کیفیت ایسی ہو، تو کیا ہوگا دُعا سے
کب راس رہا اُن کو جُداگانہ تشخّص!
رافِل رہے ہر اِک کو وہ، گفتار و ادا سے
تقدیر و مُکافات پہ ایمان نہیں کُچھ
جائز کریں ہر بات وہ آئینِ وَفا سے
ہر نعمتِ قُدرت کو رہا اُن سے علاقہ!
کب زُلف پریشاں نہ ہُوئی دستِ صبا...
راغب ہو کہاں دِل نہ جو مطلب ہو خُدا سے
جب کیفیت ایسی ہو، تو کیا ہوگا دُعا سے
کب راس رہا اُن کو جُداگانہ تشخّص!
رافِل رہے ہر اِک کو وہ، گفتار و ادا سے
تقدیر و مُکافات پہ ایمان نہیں کُچھ
جائز کریں ہر بات وہ آئینِ وَفا سے
ہر نعمتِ قُدرت کو رہا اُن سے علاقہ!
کب زُلف پریشاں نہ ہُوئی دستِ صبا...
غزل
نِکہت بَریلوی
رَہِ وَفا کے ہر اِک پَیچ و خَم کو جان لیا
جُنوں میں دشت و بَیاباں تمام چھان لیا
ہر اِک مقام سے ہم سُرخ رُو گزر آئے
قدم قدم پہ محبّت نے اِمتحان لیا
گراں ہُوئی تھی غَمِ زندگی کی دُھوپ، مگر
کسی کی یاد نے اِک شامیانہ تان لیا
تمھیں کو چاہا بہرحال، اور تمھارے سِوا
زمین...
غزل
عذاب ترکِ تعلّق پہ کم سہا ہوگا
وہاں بھی سَیل سا اشکوں کا یُوں بہا ہوگا
یہ دِل شکنجئہ وحشت سے کب رہا ہوگا
کب اِختتامِ غَمِ ہجرِ مُنتَہا ہوگا
جہاں کہیں بھی وہ عُنوانِ گفتگو ٹھہرا!
وہاں پہ ذکر ہمارا بھی بارہا ہوگا
ہَوائے شب عِطرآگِیں تھی اس پہ کیا تکرار
وُرُودِ صبح پہ تم نے بھی کُچھ...
غزل
چلے بھی آؤ کہ فُرقت سے دِل دُہائی دے
غمِ جہاں بھی، نہ اِس غم سے کُچھ رہائی دے
کبھی خیال، یُوں لائے مِرے قریب تُجھے !
ہرایک لحظہ، ہراِک لب سے تُو سُنائی دے
کبھی گُماں سے ہو قالب میں ڈھل کے اِتنے قریب
تمھارے ہونٹوں کی لرزِش مجھے دِکھائی دے
ہے خوش خیالیِ دل سے کبھی تُو پہلُو میں
کُچھ اِس طرح...
غزل
دِیدہ دلیری سب سے، کہ اُس کو بُھلادِیا
اَوروں نے جب کہا کبھی، مجھ کو رُلا دِیا
جو روز بڑھ رہا تھا بہر طَور پانے کا!
جذبہ وہ دِل کا ہم نے بالآخر سُلادیا
تردِید و خوش گمانی کو باقی رہا نہ کُچھ
ہر بات کا جواب کُچھ ایسا تُلا دِیا
تشہیر میں کسر کوئی قاصِد نے چھوڑی کب!
خط میرے نام لکھ کے جب...
غزل
کرب چہرے کا چھپاتے کیسے
پُر مُسرّت ہیں جتاتے کیسے
ہونٹ بھینچے تھے غَم و رِقَّت نے
مسکراہٹ سی سجاتے کیسے
بعد مُدّت کی خبرگیری پر
اشک آنکھوں کے بچاتے کیسے
دوستی میں رہے برباد نہ کم
دشمنی کرتے نبھاتے کیسے
خوش ہیں، وابستہ ہے اِک یاد سے زیست
وہ نہ مِلتے، تو بِتاتے کیسے
ظاہر اُن پر ہُوئیں...
غزل
مرزا حامدؔ لکھنوی
تدبیرِ سکُونِ دِلِ ناکام نہیں ہے
تیروں کی زبانی کوئی پیغام نہیں ہے
اب کوئی علاجِ دِلِ ناکام نہیں ہے
آرام کا کیا ذکر ، کہ آرام نہیں ہے
سہما ہُوا دِل، دیتا ہے یہ کہہ کے ٹہوکے !
ہو جس کی سَحَر خیر سے ، وہ شام نہیں ہے
شورِیدہ سَرِی پُوچھ نہ تدبِیرِ رہائی
اب کام یہ...
غزل
خِزاں کے جَور سے واقف کوئی بہار نہ ہو
کسی کا پَیرَہَنِ حُسن تار تار نہ ہو
برنگِ سبزۂ بیگانہ روند ڈالے فلک
مجھے، بہار بھی آئے تو ساز گار نہ ہو
خِزاں کے آتے ہی گلچیں نے پھیر لیں آنکھیں
کسی سے کوئی وَفا کا اُمِیدوار نہ ہو
ٹھہر ٹھہر دلِ وحشی، بہار آنے دے
ابھی سے بہر خُدا اِتنا بے قرار نہ ہو...
غزل
اِک ندامت عِوَض کا عیب نہیں
پارسا کہنا پھر بھی زیب نہیں
ظاہر و باطن ایک رکھتا ہُوں
مَیں ریاکار و پُر فریب نہیں
ہُوں مَیں کچھ کچھ یہاں بھی شورِیدہ
راست کہنا کہاں پہ عیب نہیں
ہے تسلسل سے راہِ زیست گراں
کُچھ تنزل نہیں، نشیب نہیں
اُلجھنیں معرضِ وُجُود ہوں خود
کارفرما کُچھ اِس میں غیب نہیں...
غزل
اکبؔر الٰہ آبادی
دِل زِیست سے بیزار ہے،معلُوم نہیں کیوں
سینے پہ نَفَس بار ہے، معلُوم نہیں کیوں
اِقرارِ وَفا یار نے ہر اِک سے کِیا ہے
مُجھ سے ہی بس اِنکار ہے، معلُوم نہیں کیوں
ہنگامۂ محشر کا تو مقصوُد ہے معلُوم
دہلی میں یہ دربار ہے، معلوم نہیں کیوں
جِس سے دِلِ رنجُور کو ،پہونچی ہے اذِیّت...
غزل
طَلَب تھی جِس کی، وہ صُورت مِلی یہاں بھی نہیں
مُدافعت کوغموں کی مَیں وہ جَواں بھی نہیں
بَدیسی زِیست کو حاصِل مِزاج داں بھی نہیں
دروغ گوئی ہو، کہہ دُوں جو رائیگاں بھی نہیں
ثباتِ دِل کو ہی پُہنچے تھے ہم وطن سے یہاں
کہیں جو راست، تو حاصِل ہُوا یہاں بھی نہیں
غموں کی دُھوپ سے بچ لیں کِس ایک...
غزل
خواجہ حیدر علی آتشؔ
چمن میں رہنے دے کون آشیاں، نہیں معلُوم
نہال کِس کو کرے باغباں، نہیں معلوم
مِرے صنم کا کسی کو مکاں نہیں معلُوم
خُدا کا نام سُنا ہے، نشاں نہیں معلُوم
اخیر ہوگئے غفلت میں دِن جوانی کے!
بہار عمر ہُوئی کب خزاں نہیں معلُوم
سُنا جو ذکرِ الٰہی، تو اُس صنم نے کہا
عیاں کو جانتے...
غزل
کوئی دستور، یا رواج تو ہو
عشقِ افزوں کا کوئی باج تو ہو
کچھ طبیعت میں امتزاج تو ہو
روزِ فردا کا اُن کی، آج تو ہو
مُنتظر روز و شب رہیں کب تک!
ماسوا، ہم کو کام کاج تو ہو
بس اُمید اور آس کب تک یُوں!
حاصِل اِس عِشق سے خراج تو ہو
دِل تسلّی سے خوش رہے کب تک
محض وعدوں کا کُچھ علاج تو ہو
ہم نہ...
غزل
شفیق خلشؔ
پھر آج دوشِ باد بہت دُور تک گئی
خوشبو رَچی تھی یاد، بہت دُور تک گئی
نِسبت سے کیا ہی خُوب نظارے تھے پَیش رُو
اِک یاد لے کے شاد بہت دُور تک گئی
ہم ڈر رہے تھے کوس قیادت پہ زِیست کی !
لے کر پُر اعتماد بہت دُور تک گئی
منزِل کی رَہنُمائی پَزِ یرائی سے مِلی!
پہلی غَزل کی داد بہت دُور...
غزل
جو، رُو شناس نے پیغام ہم کو چھوڑا ہے!
اُسی نے لرزہ براندام ہم کو چھوڑا ہے
نہ خوف و خاطرِ انجام ہم کو چھوڑا ہے
بنا کے خوگرِ آلام ہم کو چھوڑا ہے
گو شَوقِ وصل نے، ناکام ہم کو چھوڑا ہے!
گلی سے دُور نہ اِک شام ہم کو چھوڑا ہے
قدم قدم نہ ہو دِل غم سے کیسے آزردہ !
مُصیبتوں نےکوئی گام ہم کو چھوڑا...
غزل
میرتقی میؔر
مَیلانِ دِل ہے زُلفِ سِیہ فام کی طرف
جاتا ہے صید آپ سے اِس دام کی طرف
دِل اپنا عدلِ داورِ محشر سے جمع ہے
کرتا ہے کون عاشقِ بدنام کی طرف
اِس پہلُوئے فِگار کو بستر سے کام کیا
مُدّت ہُوئی، کہ چُھوٹی ہے آرام کی طرف
یک شب نظر پڑا تھا کہیں تو ،سو اب مُدام
رہتی ہے چشمِ ماہ تِرے بام...
غزل
غرض تھی اپنی تو بانہوں میں بھر لیا تھا مجھے
کسی کی دشمنی میں دوست کرلیا تھا مجھے
مُسلسَل ایسے تھے حالات مَیں سنبھل نہ سکا
کُچھ اُس نے عِشق میں بھی سہل تر لیا تھا مجھے
کسی بھی بات کا کیونکر یقیں نہیں تھا اُنھیں
خُدا ہی جانے جو آشفتہ سر لیا تھا مجھے
کسی کا مشوَرہ درخورِ اِعتنا کب تھا
تھی...
غزل
صفؔی لکھنوی
ذرّے ذرّے میں ہے جلوہ تِری یکتائ کا
دِلِ اِنساں میں، جو ہو شوق شناسائ کا
موت ہی قصد نہ کرتی جو مسیحائ کا
کون پُرساں تھا مَرِیضِ شَبِ تنہائ کا
میری خوشبُو سے ہیں، آزاد ہَوائیں لبریز
عطرِ دامن ہُوں قبائے گُلِ صحرائ کا
تا سَحر چشمِ تصوُّر میں رہی اِک تصوِیر
دِل سے ممنُون ہُوں...