کلاسیکل شاعری

  1. طارق شاہ

    سودا تُو ہی کچھ اپنے سر پہ نہ یاں، خاک کر گئی

    مِرزا محمد رفیع سوداؔ تُو ہی کچھ اپنے سر پہ نہ یاں خاک کر گئی شبنم بھی اِس چمن سے صَبا چشمِ تر گئی دیوانہ کون گُل ہے تِرا، جس کو باغ میں زنجیر کرنے ، موجِ نسیمِ سَحر گئی کُچھ تو اثر قبُول کہ تجھ تک ہماری آہ سِینے سے ارمغاں لیے لختِ جِگر گئی نّظارہ باز بزمِ بُتاں کا ہُوں، جیسے مَیں تُو ہی...
  2. طارق شاہ

    شفیق خلش :::: غم نہیں اِس کا ہم مَرے ہی جیئے ::::Shafiq- Khalish

    غزل شفیق خلشؔ غم نہیں اِس کا ہم مَرے ہی جیئے مُطمئن اِس پہ ہیں کھرے ہی جیئے اُن سے اِظہار سے ڈرے ہی جیئے اب کِیا، اب کِیا کرے ہی جیئے عُمر بھر وصل کی اُمید پہ سر اُن کی دہلیز پر دَھرے ہی جیئے ہم وہ ممنُونِ خوش تخیّل ہیں اُن کو بانہوں میں جو بَھرے ہی جیئے کب سپاٹ اُن کا تھا چَلن مجھ سے...
  3. طارق شاہ

    راشد آزرؔ ::::چاہت تمھاری سینے پہ کیا گُل کتر گئی ::::RASHID -AAZAR

    غزل راشد آذر چاہت تمھاری سینے پہ کیا گُل کتر گئی کِس خوش سَلِیقگی سے جگِر چاک کر گئی رکھی تھی جو سنبھال کے تُو نے سلامتی وہ تیرے بعد کس کو پتا ، کس کے گھر گئی جو زندگی سمیٹ کے رکھی تھی آج تک اک لمحۂ خَفِیف میں یکسر بکِھر گئی بھٹکے ہُوئے تھے ایسے کہ گردِسفر کو ہم مُڑ مُڑ کے دیکھتے رہے،...
  4. طارق شاہ

    شفیق خلش ::::: میری ناگفتہ بہ حالت کہاں عَدُو نے کی:::::Shafiq Khalish

    غزل شفیق خلشؔ میری ناگفتہ بہ حالت کہاں عَدُو نے کی اُس سے ہر وقت رہی اُن کی گفتگو نے کی کس سَہارے ہو بَسر اپنی زِندگی، کہ ہَمَیں اِک بَدی تک، نہیں تفوِیض نیک خُو نے کی باغ میں یاد لِیے آئی تو فریب دِیئے! دِیدَنی تھی مِری حالت جو رنگ و بُو نے کی ترکِ اُلفت کی تھی تحریک، شرمسار ہُوئی! کُو بہ...
  5. طارق شاہ

    شفیق خلش ::::: کب تمنّا رہی، گمنام اُنھیں رہنے کی:::::Shafiq Khalish

    غزل کب تمنّا رہی، گمنام اُنھیں رہنے کی پائی فِطرت تھی نہ اپنوں کو ذرا سہنے کی دی جو تجوِیز اُنھیں ساتھ کبھی رہنے کی بولے! ہّمت ہُوئی کیسے یہ ہَمَیں کہنے کی بات ویسے بھی تھی سِینے میں نہیں رہنے کی گرچہ سوچا تھا کئی بار نہیں کہنے کی ذہن چاہے کہ اُڑان اپنی ہو آفاق سے دُور دِل میں خواہش کبھی...
  6. طارق شاہ

    شفیق خلش ::: راغب ہو کہاں دِل نہ جو مطلب ہو خُدا سے:::shafiq khalish

    راغب ہو کہاں دِل نہ جو مطلب ہو خُدا سے جب کیفیت ایسی ہو، تو کیا ہوگا دُعا سے کب راس رہا اُن کو جُداگانہ تشخّص! رافِل رہے ہر اِک کو وہ، گفتار و ادا سے تقدیر و مُکافات پہ ایمان نہیں کُچھ جائز کریں ہر بات وہ آئینِ وَفا سے ہر نعمتِ قُدرت کو رہا اُن سے علاقہ! کب زُلف پریشاں نہ ہُوئی دستِ صبا...
  7. طارق شاہ

    شفیق خلش ::::: راغب ہو کہاں دِل نہ جو مطلب ہو خُدا سے:::::shafiq khalish

    راغب ہو کہاں دِل نہ جو مطلب ہو خُدا سے جب کیفیت ایسی ہو، تو کیا ہوگا دُعا سے کب راس رہا اُن کو جُداگانہ تشخّص! رافِل رہے ہر اِک کو وہ، گفتار و ادا سے تقدیر و مُکافات پہ ایمان نہیں کُچھ جائز کریں ہر بات وہ آئینِ وَفا سے ہر نعمتِ قُدرت کو رہا اُن سے علاقہ! کب زُلف پریشاں نہ ہُوئی دستِ صبا...
  8. طارق شاہ

    نکہت بریلوی:: رَہِ وَفا کے ہر اِک پَیچ و خَم کو جان لیا

    غزل نِکہت بَریلوی رَہِ وَفا کے ہر اِک پَیچ و خَم کو جان لیا جُنوں میں دشت و بَیاباں تمام چھان لیا ہر اِک مقام سے ہم سُرخ رُو گزر آئے قدم قدم پہ محبّت نے اِمتحان لیا گراں ہُوئی تھی غَمِ زندگی کی دُھوپ، مگر کسی کی یاد نے اِک شامیانہ تان لیا تمھیں کو چاہا بہرحال، اور تمھارے سِوا زمین...
  9. طارق شاہ

    شفیق خلش :::: عذاب ترکِ تعلّق پہ کم سہا ہوگا:::::shafiq khalish

    غزل عذاب ترکِ تعلّق پہ کم سہا ہوگا وہاں بھی سَیل سا اشکوں کا یُوں بہا ہوگا یہ دِل شکنجئہ وحشت سے کب رہا ہوگا کب اِختتامِ غَمِ ہجرِ مُنتَہا ہوگا جہاں کہیں بھی وہ عُنوانِ گفتگو ٹھہرا! وہاں پہ ذکر ہمارا بھی بارہا ہوگا ہَوائے شب عِطرآگِیں تھی اس پہ کیا تکرار وُرُودِ صبح پہ تم نے بھی کُچھ...
  10. طارق شاہ

    شفیق خلش ::::چلے بھی آؤ کہ فُرقت سے دِل دُہائی دے::::shafiq khalish

    غزل چلے بھی آؤ کہ فُرقت سے دِل دُہائی دے غمِ جہاں بھی، نہ اِس غم سے کُچھ رہائی دے کبھی خیال، یُوں لائے مِرے قریب تُجھے ! ہرایک لحظہ، ہراِک لب سے تُو سُنائی دے کبھی گُماں سے ہو قالب میں ڈھل کے اِتنے قریب تمھارے ہونٹوں کی لرزِش مجھے دِکھائی دے ہے خوش خیالیِ دل سے کبھی تُو پہلُو میں کُچھ اِس طرح...
  11. طارق شاہ

    شفیق خلش :::: دیدہ دلیری سب سے، کہ اُس کو بُھلا دِیا::: Shafiq Khalis

    غزل دِیدہ دلیری سب سے، کہ اُس کو بُھلادِیا اَوروں نے جب کہا کبھی، مجھ کو رُلا دِیا جو روز بڑھ رہا تھا بہر طَور پانے کا! جذبہ وہ دِل کا ہم نے بالآخر سُلادیا تردِید و خوش گمانی کو باقی رہا نہ کُچھ ہر بات کا جواب کُچھ ایسا تُلا دِیا تشہیر میں کسر کوئی قاصِد نے چھوڑی کب! خط میرے نام لکھ کے جب...
  12. طارق شاہ

    شفیق خلش :::کرب چہرے کا چھپاتے کیسے::::Shafiq-Khalish

    غزل کرب چہرے کا چھپاتے کیسے پُر مُسرّت ہیں جتاتے کیسے ہونٹ بھینچے تھے غَم و رِقَّت نے مسکراہٹ سی سجاتے کیسے بعد مُدّت کی خبرگیری پر اشک آنکھوں کے بچاتے کیسے دوستی میں رہے برباد نہ کم دشمنی کرتے نبھاتے کیسے خوش ہیں، وابستہ ہے اِک یاد سے زیست وہ نہ مِلتے، تو بِتاتے کیسے ظاہر اُن پر ہُوئیں...
  13. طارق شاہ

    مرزا حامدؔ لکھنوی::::: تدبیرِ سکُونِ دِلِ ناکام نہیں ہے :::::Mirza -Hamid -Lakhnavi

    غزل مرزا حامدؔ لکھنوی تدبیرِ سکُونِ دِلِ ناکام نہیں ہے تیروں کی زبانی کوئی پیغام نہیں ہے اب کوئی علاجِ دِلِ ناکام نہیں ہے آرام کا کیا ذکر ، کہ آرام نہیں ہے سہما ہُوا دِل، دیتا ہے یہ کہہ کے ٹہوکے ! ہو جس کی سَحَر خیر سے ، وہ شام نہیں ہے شورِیدہ سَرِی پُوچھ نہ تدبِیرِ رہائی اب کام یہ...
  14. طارق شاہ

    یاس مرزا یاسؔ، یگاؔنہ، چنگیزیؔ:::::خِزاں کے جَور سے واقف کوئی بہار نہ ہو :::::yas, yagana,changezi

    غزل خِزاں کے جَور سے واقف کوئی بہار نہ ہو کسی کا پَیرَہَنِ حُسن تار تار نہ ہو برنگِ سبزۂ بیگانہ روند ڈالے فلک مجھے، بہار بھی آئے تو ساز گار نہ ہو خِزاں کے آتے ہی گلچیں نے پھیر لیں آنکھیں کسی سے کوئی وَفا کا اُمِیدوار نہ ہو ٹھہر ٹھہر دلِ وحشی، بہار آنے دے ابھی سے بہر خُدا اِتنا بے قرار نہ ہو...
  15. طارق شاہ

    شفیق خلش :::::اِک ندامت عِوَض کا عیب نہیں:::::Shafiq-Khalish

    غزل اِک ندامت عِوَض کا عیب نہیں پارسا کہنا پھر بھی زیب نہیں ظاہر و باطن ایک رکھتا ہُوں مَیں ریاکار و پُر فریب نہیں ہُوں مَیں کچھ کچھ یہاں بھی شورِیدہ راست کہنا کہاں پہ عیب نہیں ہے تسلسل سے راہِ زیست گراں کُچھ تنزل نہیں، نشیب نہیں اُلجھنیں معرضِ وُجُود ہوں خود کارفرما کُچھ اِس میں غیب نہیں...
  16. طارق شاہ

    اکبر الہ آبادی :::::دِل زِیست سے بیزار ہے،معلُوم نہیں کیوں::::::::::Akbar -Allahabadi

    غزل اکبؔر الٰہ آبادی دِل زِیست سے بیزار ہے،معلُوم نہیں کیوں سینے پہ نَفَس بار ہے، معلُوم نہیں کیوں اِقرارِ وَفا یار نے ہر اِک سے کِیا ہے مُجھ سے ہی بس اِنکار ہے، معلُوم نہیں کیوں ہنگامۂ محشر کا تو مقصوُد ہے معلُوم دہلی میں یہ دربار ہے، معلوم نہیں کیوں جِس سے دِلِ رنجُور کو ،پہونچی ہے اذِیّت...
  17. طارق شاہ

    شفیق خلش ::::: طَلَب تھی جِس کی، وہ صُورت مِلی یہاں بھی نہیں:::::Shafiq-Khalish

    غزل طَلَب تھی جِس کی، وہ صُورت مِلی یہاں بھی نہیں مُدافعت کوغموں کی مَیں وہ جَواں بھی نہیں بَدیسی زِیست کو حاصِل مِزاج داں بھی نہیں دروغ گوئی ہو، کہہ دُوں جو رائیگاں بھی نہیں ثباتِ دِل کو ہی پُہنچے تھے ہم وطن سے یہاں کہیں جو راست، تو حاصِل ہُوا یہاں بھی نہیں غموں کی دُھوپ سے بچ لیں کِس ایک...
  18. طارق شاہ

    آتش خواجہ حیدر علی::::: چمن میں رہنے دے کون آشیاں، نہیں معلوم ::::: Khwaja Haidar Ali Aatish

    غزل خواجہ حیدر علی آتشؔ چمن میں رہنے دے کون آشیاں، نہیں معلُوم نہال کِس کو کرے باغباں، نہیں معلوم مِرے صنم کا کسی کو مکاں نہیں معلُوم خُدا کا نام سُنا ہے، نشاں نہیں معلُوم اخیر ہوگئے غفلت میں دِن جوانی کے! بہار عمر ہُوئی کب خزاں نہیں معلُوم سُنا جو ذکرِ الٰہی، تو اُس صنم نے کہا عیاں کو جانتے...
  19. طارق شاہ

    شفیق خلش :::::کوئی دستور، یا رواج تو ہو:::::Shafiq-Khalish

    غزل کوئی دستور، یا رواج تو ہو عشقِ افزوں کا کوئی باج تو ہو کچھ طبیعت میں امتزاج تو ہو روزِ فردا کا اُن کی، آج تو ہو مُنتظر روز و شب رہیں کب تک! ماسوا، ہم کو کام کاج تو ہو بس اُمید اور آس کب تک یُوں! حاصِل اِس عِشق سے خراج تو ہو دِل تسلّی سے خوش رہے کب تک محض وعدوں کا کُچھ علاج تو ہو ہم نہ...
  20. طارق شاہ

    شفیق خلش :::::پھر آج دوشِ باد بہت دُور تک گئی:::::Shafiq-Khalish

    غزل شفیق خلشؔ پھر آج دوشِ باد بہت دُور تک گئی خوشبو رَچی تھی یاد، بہت دُور تک گئی نِسبت سے کیا ہی خُوب نظارے تھے پَیش رُو اِک یاد لے کے شاد بہت دُور تک گئی ہم ڈر رہے تھے کوس قیادت پہ زِیست کی ! لے کر پُر اعتماد بہت دُور تک گئی منزِل کی رَہنُمائی پَزِ یرائی سے مِلی! پہلی غَزل کی داد بہت دُور...
Top