غزل
نظیؔر اکبر آبادی
ہو کیوں نہ تِرے کام میں حیران تماشا
یا رب ! تِری قُدرت میں ہےہر آن تماشا
لے عرش سےتا فرش نئے رنگ، نئے ڈھنگ
ہر شکل عجائب ہے، ہر اِک شان تماشا
افلاک پہ تاروں کی جَھلکتی ہے طلِسمات
اور رُوئے زمیں پر گُل و ریحان تماشا
جِنّات، پَری، دیو، ملک، حوُر بھی نادر
اِنسان عجوبہ ہیں...
غزل
شفیق خلشؔ
کُھلے بھی کُچھ، جو تجاہُل سے آشکار کرو!
زمانے بھر کو تجسّس سے بیقرار کرو
لکھا ہے رب نے ہمارے نصیب میں ہی تمھیں
قبول کرکے، محبّت میں تاجدار کرو
نہ ہوگی رغبتِ دِل کم ذرا بھی اِس سے کبھی!
بُرائی ہم سے تُم اُن کی، ہزار بار کرو
یُوں اُن کے کہنے نے چھوڑا نہیں کہیں کا ہَمَیں
مَیں لَوٹ...
غزل
فراقؔ گورکھپُوری
جنُونِ کارگر ہے، اور مَیں ہُوں
حیاتِ بے خَبر ہے، اور مَیں ہُوں
مِٹا کر دِل، نِگاہِ اوّلیں سے!
تقاضائے دِگر ہے، اور مَیں ہُوں
مُبارک باد ایّامِ اسِیری!
غمِ دِیوار و در ہے، اور مَیں ہُوں
تِری جمعیّتیں ہیں، اور تُو ہے
حیاتِ مُنتشر ہے، اور مَیں ہُوں
ٹِھکانا ہے کُچھ اِس...
غزل
راسخؔ دہلوی
سوالِ وَصْل پہ، وہ بُت نَفُور ہم سے ہُوا
بڑا گُناہ، دِلِ ناصبُور ہم سے ہُوا
جو کُچھ نہ ہونا تھا، ربِّ غفُور! ہم سے ہُوا
کیے گُناہ بہت کم، قُصُور ہم سے ہُوا
فِراقِ یار میں ہاں ہاں ضرُور ہم سے ہُوا
ضرُور صبر، دلِ ناصبُور! ہم سے ہُوا
جَفا کے شِکوے پہ اُن کی وہ نیچی نیچی نَظر
وہ...
غزل
فراقؔ گورکھپُوری
دہنِ یار یاد آتا ہے
غُنچہ اِک مُسکرائے جاتا ہے
رہ بھی جاتی ہے یاد دشمن کی
دوست کو دوست بُھول جاتا ہے
پَیکرِ ناز کی دَمک، جیسے
کوئی دِھیمے سُروں میں گاتا ہے
جو افسانہ وہ آنکھ کہتی ہے
وہ کہِیں ختم ہونے آتا ہے
دلِ شاعر میں آمدِ اشعار
جیسے تُو سامنے سے جاتا ہے
مَیں تو...
غزلِ
مُصحفیؔ
گِل کا پُتلا قضا کے ہاتھ میں ہُوں
ہُوں، پر امرِ خُدا کے ہاتھ میں ہُوں
وہ ہی واقف ہے میری کِل کِل سے
سچ عجب آشنا کے ہاتھ میں ہُوں
ہُوں تو گھٹری پَوَن کی مِثلِ حباب
لیکن، آب و ہَوا کے ہاتھ میں ہُوں
کوزہ ہُوں آبِ صاف کا، لیکن!
ڈر ہے اِتنا، فنا کے ہاتھ میں ہُوں
ہُوں مَیں رنگِ حنا...
غزل
کیا کہیے آرزُوئے دِلِ مبُتِلا ہے کیا
جب یہ خبر بھی ہو، کہ وہ رنگیں اَدا ہے کیا
کافی ہیں میرے بعد پَشیمانیاں تِری
مَیں کُشتۂ وَفا ہُوں مِرا خُوں بَہا ہے کیا
وقتِ کَرَم نہ پُوچھے گا لُطفِ عمیمِ یار
رِندِ خراب حال ہے کیا، پارسا ہے کیا
دیکھو جِسے، ہے راہِ فَنا کی طرف رَواں
تیری محل سرا کا...
غزل
حسرتؔ موہانی
مجھ کو خبر نہیں کہ مِرا مرتبہ ہے کیا
یہ تیرے اِلتفات نے آخر کِیا ہے کیا
مِلتی کہاں گُداز طبیعت کی لذَّتیں
رنجِ فراقِ یار بھی راحت فزا ہے کیا
حاضرہے جانِ زار، جو چاہو مجھے ہلاک !
معلوُم بھی تو ہو، کہ تمہاری رضا ہے کیا
ہُوں دردِ لادَوائے محّبت کا مُبتلا
مجھ کو خبر نہیں کہ...
غزل
سرگرمِ ناز آپ کی شانِ وَفا ہے کیا
باقی ستم کا اور ابھی حوصلہ ہے کیا
آنکھیں تِری جو ہوشرُبائی میں ہیں فرو
اِن میں یہ سِحرکارئیِ رنگِ حنا ہے کیا
گر جوشِ آرزُو کی ہیں کیفیتیں یہی
مَیں بُھول جاؤں گا کہ مِرا مُدّعا ہے کیا
آتے ہیں وہ خیال میں کیوں میرے بار بار
عِشقِ خُدا نُما کی یہی اِبتدا ہے...
غزل
مولانا حسرتؔ موہانی
ہم بندگانِ درد پہ مشقِ جَفا ہے کیا
دِل جوئیِ وُفا کا یہی مُقتضا ہے کیا
محرُومیوں نے گھیر لِیا ہے خیال کو
اے عشقِ یار! تیری یہی اِنتہا ہے کیا
شوقِ لقائے یار کہاں ، میں حَزیں کہاں
اے جانِ بےقرار ! تجھے یہ ہُوا ہے کیا
ہو جائے گی کبھی نہ کبھی جان نذرِ یار
بیمارِ عِشق ہم...
غزل
نظیؔر اکبر آبادی
تُو کہتا ہے مَیں آؤں گا دو چار گھڑی میں
مرجائے گا ظالِم! تِرا بیمار گھڑی میں
جس کام کو برسات میں لگتے ہیں مہینے!
وہ، کرتے ہیں یہ دِیدۂ خونبار گھڑی میں
مَیں تُجھ کو نہ کہتا تھا نظیرؔ اُس سے نہ مِلنا
اب دیکھیو حال اپنا ذرا، چار گھڑی میں
نظیرؔ اکبرآبادی
غزل
خواہش،حصُولِ یار کا اِک زِینہ ہی تو ہے
سُود و زیاں کا زِیست میں تخمینہ ہی تو ہے
حاصل ہو حُسنِ نسواں کو جس سے غضب وقار
ملبُوس سردیوں کا وہ پشمینہ ہی تو ہے
ایسا نہیں کہ آج ہی آیا ہَمَیں خیال
پانا اُنھیں ہی خواہشِ دیرینہ ہی تو ہے
بڑھ چڑھ کے ہے دباؤ غمِ ہجر کے شُموُل
ڈر ہے کہ پھٹ نہ جائے...
غزل
یاد کر وہ دِن کہ تیرا کوئی سودائی نہ تھا
باوجُودِ حُسن تُو آگاہِ رعنائی نہ تھا
عِشقِ روزافزوں پہ اپنے مُجھ کو حیرانی نہ تھی
جلوۂ رنگیں پہ تجھ کو نازِ یکتائی نہ تھا
دِید کے قابل تھی میرے عِشق کی بھی سادگی !
جبکہ تیرا حُسن سرگرمِ خُودآرائی نہ تھا
کیا ہُوئے وہ دِن کہ محوِ آرزُو تھے حُسن...
فِراقؔ گورکھپُوری
مشیّت برطرف کیوں حالتِ اِنساں بَتر ہوتی
نہ خود یہ زندگی ہی زندگی دشمن اگر ہوتی
یہ کیا سُنتا ہُوں جنسِ حُسن مِلتی نقدِ جاں دے کر
ارے اِتنا تو ہم بھی دے نِکلتے جو خبر ہوتی
دھمک سی ہونے لگتی ہے ہَوائےگُل کی آہٹ پر
قفس میں بُوئے مستانہ بھی وجہِ دردِ سر ہوتی
کہاں تک راز کے صیغہ...
غزل
رغبت ِ دِل کوزمانے سے چُھپایا تھا بہت
لیکن اُس ضبطِ محبّت نے رُلایا تھا بہت
دسترس نے بھی تو مٹّی میں مِلایا تھا بہت
جب تماشا دِلی خواہش نے بنایا تھا بہت
بے بسی نے بھی شب و روز رُلایا تھا بہت
خواہشِ ماہ میں جی اپنا جلایا تھا بہت
کُچھ تو کم مایَگی رکھّے رہی آزردہ ہَمَیں!
کُچھ ہَمَیں اُس کی...
غزل
سبھی سوالوں کے ہم سے جواب ہو نہ سکے
کرم تھے اِتنے زیادہ ، حساب ہو نہ سکے
عَمل سب باعثِ اجر و ثَواب ہو نہ سکے
دَوائے درد و دِلی اِضطراب، ہو نہ سکے
رہے گراں بہت ایّام ِہجر جاں پہ مگر!
اُمیدِ وصل سے حتمی عذاب ہو نہ سکے
بَدل مہک کا تِری، اے ہماری نازوجِگر !
کسی وَسِیلہ سُمن اور گُلاب ہو نہ...
اثرؔ لکھنوی
غزل
بہار ہے تِرے عارض سے لَو لگائے ہُوئے
چراغ لالہ و گُل کے ہیں جِھلمِلائے ہُوئے
تِرا خیال بھی تیری ہی طرح آتا ہے
ہزار چشمکِ برق و شرر چُھپائے ہُوئے
لہُو کو پِگھلی ہُوئی آگ کیا بنائیں گے
جو نغمے آنچ میں دِل کی نہیں تپائے ہُوئے
ذرا چلے چلو دَم بھر کو ، دِن بہت بیتے
بہارِ صُبحِ...
غزل
خواہشِ دل دبائے رکّھا ہے
اُن سے کیا کیا چُھپائے رکّھا ہے
ڈر نے ہَوّا بنائے رکّھا ہے
کہنا کل پر اُٹھائے رکھا ہے
مُضطرب دِل نے آج پہلے سے
کُچھ زیادہ ستائے رکّھا ہے
مِل کے یادوں سے تیری، دِل نے مِرے
اِک قیامت اُٹھائے رکّھا ہے
تیری آمد کے اِشتیاق نے پِھر
دِیدۂ دِل بچھائے رکّھا ہے
از سَرِ...
غزل
دِیدہ دلیری سب سے، کہ اُس کو بُھلادِیا
اَوروں نے جب کہا کبھی، مجھ کو رُلا دِیا
کُچھ روز بڑھ رہا تھا مُقابل جو لانے کو!
جذبہ وہ دِل کا مَیں نے تَھپک کر سُلادِیا
تصدیقِ بدگمانی کو باقی رہا نہ کُچھ
ہر بات کا جواب جب اُس نے تُلا دِیا
تشہیر میں کسر کوئی قاصِد نے چھوڑی کب
خط میرے نام لکھ کے جب...
غزل
غلام ربانی تاباںؔ
ہَم ایک عُمر جلے، شمعِ رہگُزر کی طرح !
اُجالا غیروں سے کیا مانگتے، قمر کی طرح
کہاں کے جیب و گریباں، جِگر بھی چاک ہُوئے
بہار آئی، قیامت کے نامہ بر کی طرح
کَرَم کہو کہ سِتم، دِل دہی کا ہر انداز
اُتر اُتر سا گیا دِل میں نیشتر کی طرح
نہ حادثوں کی کمی ہے، نہ شَورَشوں کی...