غزل
کُچھ تو ہوکر دُو بَدُو، کُچھ ڈرتے ڈرتے کہہ دِیا
دِل پہ جو گُذرا تھا ، ہم نے آگے اُس کے کہہ دِیا
باتوں باتوں میں جو ہم نے، دردِ دِل کا بھی کہا !
سُن کے بولا، تُو نے یہ کیا بکتے بکتے کہہ دِیا
اب کہیں کیا اُس سے ہمدم ! دِل لگاتے وقت آہ
تھا جو کُچھ کہنا، سو وہ تو ہم نے پہلے کہہ دِیا
چاہ...
غزل
قِصّے ہیں خموشی میں نِہاں اور طرح کے
ہوتے ہیں غَمِ دِل کے بَیاں اور طرح کے
تھی اور ہی کُچھ بات، کہ تھا غم بھی گوارا
حالات ہیں اب درپئے جاں اور طرح کے
اے را ہروِ راہِ وفا ! دیکھ کے چلنا
اِس راہ میں ہیں سنگِ گراں اور طرح کے
کھٹکا ہے جُدائی کا ، نہ ملنے کی تمنّا
دِل کو ہیں مِرے وہم و گُماں...
غزل
راہ دُشوار جس قدر ہوگی
جُستُجو اور مُعتبر ہوگی
آدمی آدمی پہ ہنستا ہے
اور کیا ذِلَّتِ بشر ہوگی
پتّھروں پر بھی حرف آئے گا
جب کوئی شاخ بے ثمر ہوگی
جاگ کر بھی نہ لوگ جاگیں گے
زندگی خواب میں بسر ہوگی
حُسن بڑھ جائےگا تکلّم کا
جس قدر بات مُختصر ہوگی
اعجاز رحمانی
غزل
بے اعتناعی کی بڑھتی ہُوئی سی یہ تابی
کہیں نہ جھونک دے ہم کو بجنگِ اعصابی
گئی نظر سے نہ رُخ کی تِری وہ مہتابی
لیے ہُوں وصل کی دِل میں وہ اب بھی بیتابی
مَیں پُھول بن کے اگر بُت سے اِک لِپٹ بھی گیا
زیادہ دِن تو میّسر رہی نہ شادابی
مِری نمُود و نمائش ہے خاک ہی سے ، مگر
سکُھا کے خاک...
غزل
پردے میں ہر آواز کے شامِل تو وہی ہے
ہم لا کھ بدل جائیں، مگر دِل تو وہی ہے
موضوعِ سُخن ہے وہی افسانۂ شِیرِیں !
محِفل ہو کوئی، رَونَقِ محِفل تو وہی ہے
محسُوس جو ہوتا ہے، دِکھائی نہیں دیتا
دِل اور نظر میں حدِ فاصِل تو وہی ہے
ہر چند تِرے لُطف سے محرُوم نہیں ہم
لیکن دلِ بیتاب کی مُشکل تو وہی...
غزل
نہیں کہ پیار ، محبّت میں کاربند نہیں
بس اُس کی باتوں میں پہلے جو تھی وہ قند نہیں
نظر میں میری ہو خاطر سے کیوں گزند نہیں
خیال و فکر تک اُس کے ذرا بُلند نہیں
کب اپنے خواب و تمنّا میں کامیاب رہے
ہم ایک وہ جو کسی مد میں بہرہ مند نہیں
تمام زیور و پازیب ہم دِلا تو چکے!
ملال پِھر بھی ،کہ...
راہ ِحق میں ہُوئے لڑکر ،کبھی مر کر لاکھوں
زندہ جاوید ہر اِک دیس کے گھر گھر لاکھوں
ہو محبّت کے خزانے میں کہاں کُچھ بھی کمی!
چاہے دامن لئےجاتے رہیں بھر بھر لاکھوں
کوچۂ یار کومیلے کا سماں دیتے ہیں
اِک جَھلک دِید کی خواہش لئے دِن بھر لاکھوں
کردے مرکوُز جہاں بَھر کی نِگاہیں خود پر
چاند پِھر...
شان الحق حقی
غزل
اثر نہ ہو، تو اُسی نطقِ بے اثر سے کہہ !
چُھپا نہ درد ِمحبّت ،جہان بَھر سے کہہ
جو کہہ چُکا ہے، تو اندازِ تازہ تر سے کہہ
خبرکی بات ہے اِک، گوشِ بے خبر سے کہہ
چَمَن چَمَن سے اُکھڑ کر رَہے گا پائے خِزاں
رَوِش رَوِش کو جتا دے، شجر شجر سے کہہ
بیانِ شَوق نہیں قِیل و...
غزلِ
احسن اللہ خان بیاؔں
۔
کیا بے طرح ہُوئی تِری دُوری میں شام آج
مرنے کے پھر نہیں، نہ ہُوئے جو تمام آج
تُو بزم سے اُٹھا، کہ ہُوئی تلخ مے کشی !
میں سچ کہوُں، شراب کو سمجھا حَرام آج
غم جس کے پاس ہے، وہ فلاطُوں سے کم نہیں
جمشید ہے وہ جس کو میسّر ہے جام آج
اُس زُلف میں ہو گر، سَرِ مُو...
غزل
اے خوفِ مرگ ! دِل میں جو اِنساں کے تُو رَہے
پِھر کُچھ ہَوس رہے، نہ کوئی آرزُو رَہے
فِتنہ رَہے، فساد رَہے، گُفتگُو رَہے
منظُور سب مجھے، جو مِرے گھر میں تُو رَہے
زُلفیں ہٹانی چہرۂ رنگیں سے کیا ضرُور
بہتر ہے مُشک کی گُلِ عارض میں بُو رَہے
اب تک تِرے سبب سے رَہے ہم بَلا نصیب
اب تابہ حشر گور...
غزل
تھی نہ قسمت میں مِری ،ذات وہ ہرجائی کی
ایک نسبت تھی بلا وجہ کی رُسوائی کی
راہیں مسدُود رہیں اُن سے شَناسائی کی
دِل کی دِل ہی میں رہی ساری تمنائی کی
باعثِ فخر ، یُوں نسبت رہی رُسوائی کی
تہمتوں کی بھی ، دِل و جاں سے پزِیرائی کی
کوشِشیں دَر کی، کبھی کام نہ آنے دیں گی!
وُسعتیں دشت سی...
غزل
شانِ عطا کو، تیری عطا کی خبر نہ ہو !
یُوں بِھیک دے، کہ دستِ گدا کو خبر نہ ہو
چُپ ہُوں، کہ چُپ کی داد پہ ایمان ہے مِرا
مانگوں دُعا جو میرے خُدا کو خبر نہ ہو
کر شوق سے شِکایتِ محرُومئ وَفا
لیکن مِرے غرُورِ وَفا کو خبر نہ ہو
اِک رَوز اِس طرح بھی مِرے بازوؤں میں آ
میرے ادب کو، تیری...
غزل
جاوؔید لکھنوی
جُھوٹی تسلّیوں پہ شبِ غم بَسر ہُوئی
اُٹّھی چمک جو زخم میں سمجھا سَحر ہُوئی
ہر ہر نَفَس چُھری ہے لئے قطعِ شامِ ہجر
یا آج دَم نِکل ہی گیا، یا سَحر ہُوئی
بدلِیں جو کروَٹیں تو زمانہ بدل گیا
دُنیا تھی بے ثبات، اِدھر کی اُدھر ہُوئی
جاتی ہے روشنی، مِری آنکھوں کو چھوڑ کے
تارے...
غزل
نہ مَیں دِل کو اب ہر مکاں بیچتا ہُوں
کوئی خوب رَو لے تو ہاں بیچتا ہُوں
وہ مَے جس کو سب بیچتے ہیں چُھپا کر
میں اُس مَے کو یارو ! عیاں بیچتا ہُوں
یہ دِل، جس کو کہتے ہیں عرشِ الٰہی
سو اِس دِل کو یارو! میں یاں بیچتا ہُوں
ذرا میری ہّمت تو دیکھو عَزِیزو !
کہاں کی ہے جِنس اور کہاں بیچتا ہُوں...
غزل
آپ سے شرح ِآرزُو تو کریں
آپ تکلیف ِگفتگو تو کریں
وہ نہیں ہیں جو، وہ کہیں بھی نہیں
آئیے دِل میں جُستجُو تو کریں
اہلِ دُنیا مجھے سمجھ لیں گے
دِل کسی دِن ذرا لہُو تو کریں
رنگ و بُو کیا ہے ،یہ تو سمجھا دو
سیرِدُنیائے رنگ و بُو تو کریں
وہ اُدھر رُخ اِدھر ہے میّت کا
لوگ فانؔی کو قِبلہ رُو تو...
غزل
تُو اپنے دِل سے غیر کی اُلفت نہ کھوسکا
مَیں چاہُوں اور کو تو یہ مُجھ سے نہ ہوسکا
رکھتا ہُوں ایسے طالعِ بیدار مَیں، کہ رات !
ہمسایہ، میرے نالَوں کی دَولت نہ سو سکا
گو، نالہ نارَسا ہو، نہ ہو آہ میں اثر !
مَیں نے تو دَرگُزر نہ کی، جو مُجھ سے ہو سکا
دشتِ عَدَم میں جا کے نِکالُوں گا جی کا غم...
غزل
متاعِ قلب و جگِر ہیں، ہَمَیں کہیں سے مِلَیں
مگر وہ زخم ،جو اُس دستِ شبنَمِیں سے مِلَیں
نہ شام ہے، نہ گھنی رات ہے، نہ پچھلا پہر!
عجیب رنگ تِری چشمِ سُرمگیں سے مِلَیں
میں اِس وِصال کے لمحے کا نام کیا رکھّوں
تِرے لباس کی شِکنیں، تِری جَبِیں سے مِلَیں
ستائشیں مِرے احباب کی نوازِش ہیں
مگر...
غزل
دِلِ زخمی سےخُوں، اے ہمنشِیں! کُچھ کم نہیں نِکلا
تڑپنا تھا، مگر قسمت میں لِکھّا دَم نہیں نِکلا
ہمیشہ زخمِ دِل پر ، زہر ہی چھڑکا خیالوں نے !
کبھی اِن ہمدموں کی جیب سے مرہم نہیں نِکلا
ہمارا بھی کوئی ہمدرد ہے، اِس وقت دُنیا میں
پُکارا ہر طرف، مُنہ سے کسی کی ہم نہیں نِکلا
تجسُّس کی نظر...
سُنیو جب وہ کبھو سَوار ہُوا
تا بہ رُوح الامیں شکِار ہُوا
اُس فریب بندہ کو نہ سمجھے آہ !
ہم نے جانا کہ ہم سے یار ہُوا
نالہ ہم خاکساروں کا آخر!
خاطرِعرش کا غُبار ہُوا
مَر چَلے بے قرار ہو کر ہم
اب تو تیرے تئیں قرار ہُوا
وہ جو خنجر بَکف نظر آیا
مِیؔر سو جان سے نِثار ہُوا
مِیر تقی مِیؔر
غزل
کچھ نہ ہم کو سُجھائی دیتا ہے
ہر طرف وہ دِکھائی دیتا ہے
خود میں احساس اب لئے اُن کا
لمحہ لمحہ دِکھائی دیتا ہے
ہوگئے خیر سے جواں ہم بھی
گُل بھی کیا گُل دِکھائی دیتا ہے
دسترس میں ہے کُچھ نہیں پھر بھی
اُونچا اُونچا سُجائی دیتا ہے
کب محبّت میں سُرخ رُو ہونا
اپنی قسمت دِکھائی دیتا...