کِرَن
چھُپ گئے رات کے دامن میں ستارے لیکن
ایک ننھا سا دیا اب بھی ہے ہم راہ و نشاں
ایک ننھا سا دیا اور یہ شب کی یورش
اور یہ ابر کے طوفان ، یہ کُہرا ، یہ دُھواں
لیکن اس ایک تصور سے نہ ہو افسردہ
ساعتیں اب بھی نیا جوش لئے بیٹھی ہیں
سنگِ رہ اور کئی آئیں گے لیکن آخر
منزلیں گرمیِ آغوش لئے بیٹھی ہیں...