مصطفیٰ زیدی

  1. فرخ منظور

    مصطفیٰ زیدی آج بھی ۔ مصطفیٰ زیدی

    آج بھی پھیلی ہوئی ہے شام کراں تا کراں مگر کون و مکاں میں ساعتِ زنداں ہے آج بھی اس فلسفے کی سوزنِ پنہاں کے باوجود چاک جگر حقیقتِ عریاں ہے آج بھی اس نوجوان عصرِ ترقی پسند میں اک کہنہ یاد وقتِ بداماں ہے آج بھی کیا کیا نگارِ مثلِ بہاراں گذر گئے ضرب المثال یوسفِ کنعاں ہے آج بھی اس عہدِ رنگ و نور...
  2. فرخ منظور

    مصطفیٰ زیدی کرن ۔ مصطفیٰ زیدی

    کِرَن چھُپ گئے رات کے دامن میں ستارے لیکن ایک ننھا سا دیا اب بھی ہے ہم راہ و نشاں ایک ننھا سا دیا اور یہ شب کی یورش اور یہ ابر کے طوفان ، یہ کُہرا ، یہ دُھواں لیکن اس ایک تصور سے نہ ہو افسردہ ساعتیں اب بھی نیا جوش لئے بیٹھی ہیں سنگِ رہ اور کئی آئیں گے لیکن آخر منزلیں گرمیِ آغوش لئے بیٹھی ہیں...
  3. فرخ منظور

    مصطفیٰ زیدی تخلیق ۔ مصطفیٰ زیدی

    تخلیق کتنے جاں سوز مراحل سے گذر کر ہم نے اس قدر سلسلۂ سود و زیاں دیکھے ہیں رات کٹتے ہی بکھرتے ہوئے تاروں کے کفن جُھومتی صبح کے آنچل میں نہاں دیکھے ہیں جاگتے ساز ، دمکتے ہوئے نغموں کے قریب چوٹ کھائی ہوئی قسمت کے سماں دیکھے ہیں ڈوبنے والوں کے ہمراہ بھنور میں رہ کر ! دیکھنے والوں کے انداز ِ...
  4. فرخ منظور

    مصطفیٰ زیدی پیشہ ۔ مصطفیٰ زیدی

    پیشہ چھوڑو میاں، یہ مشغلۂ شعر و شاعری آؤ شکار کے لئے کُہسار کو چلیں اِک مہ جبیں کے واسطے رونے سے فائدہ تسکین ِقلب کے لیے بازار کو چلیں ہاں جنّتِ نگاہ بھی ہو ، رنگ و رقص بھی بے شک کسی حسینہ کے دربار کو چلیں ہاں تاج و تخت میں بھی ہے اک کیفیت مگر میں کیسے اپنے فقر کاپندار چھوڑ دوں کس طرح اپنے...
  5. فرخ منظور

    مصطفیٰ زیدی دُور کی آواز ۔ مصطفیٰ زیدی

    دُور کی آواز میرے محبوب دیس کی گلیو! تم کو اور اپنے دوستوں کو سلام اپنے زخمی شباب کو تسلیم اپنے بچپن کے قہقہوں کو سلام عمر بھر کے لیے تمھارے پاس رہ گئی ہے شگفتگی میری آخری رات کے اداس دیو! یاد ہے تم کو بے بسی میری؟ یاد ہے تم کو جب بھلائے تھے عمر بھر کے کیے ہوئے وعدے رسم و مذہب کی اک بچارن نے...
  6. فرخ منظور

    مصطفیٰ زیدی سفرِ آخرِ شب ۔ مصطفیٰ زیدی

    سفرِ آخرِ شب بہت قریب سے آئی ہوائے دامنِ گُل کِسی کے رُوئے بہاریں نے حالِ دل پُوچھا کہ اَے فراق کی راتیں گُزارنے والو خُمارِ آخرِ شب کا مزاج کیسا تھا تمھارے ساتھ رہے کون کون سے تارے سیاہ رات میں کِس کِس نے تم کو چُھوڑ دیا بِچھڑ گئے کہ دغا دے گئے شریکِ سفر ؟ اُلجھ گیا کہ وفا کا طِلسم ٹُوٹ گیا؟...
  7. فرخ منظور

    مصطفیٰ زیدی تُو مری شمعِ دلِ و دیدہ ۔ مصطفیٰ زیدی

    تُو مری شمعِ دلِ و دیدہ وہ کوئی رقص کا انداز ہو یا گیت کی تان میرے دل میں تری آواز ابھر آتی ہے تیرے ہی بال بکھر جاتے ہیں دیواروں پر تیری ہی شکل کتابوں میں نظر آتی ہے شہر ہے یا کسی عیّار کا پُرہول طلسم تُو ہے یا شہرِ طلسمات کی ننھی سی پری ہر طرف سیلِ رواں، بس کا دھواں، ریل کا شور ہر طرف تیرا...
  8. فرخ منظور

    مصطفیٰ زیدی برف باری ۔ مصطفیٰ زیدی

    برف باری کون سنتا اس بھیا نک رات میں دل کی صدا میرے ہونٹوں پر مری فریاد جم کر رہ گئی زندگی اک بے وفا لڑکی کے وعدوں کی طرح آنسوؤں کے ساتھ آئی آنسوؤں میں بہہ گئی تم کو کیا الزام دوں پہلے ہی اپنے ذہن میں کون سی شائستگی تھی ، کون سی تنظیم تھی صُبح یوں سورج کی کرنیں پھیلتی تھیں ٹوٹ کر جیسے اک ہاری...
  9. فرخ منظور

    مصطفیٰ زیدی فاصلہ ۔ مصطفیٰ زیدی

    فاصلہ رات آئی تو چراغوں نے لَویں اُکسا دیں نیند ٹوٹی تو ستاروں نے لہو نذر کیا کسی گوشے سے دبے پاؤں چلی بادِ شمال کیا عجب اُس کے تبسم کی ملاحت مِل جائے خواب لہرائے کہ افسانے سے افسانہ بنے ایک کونپل ہی چٹک جائے تو پھر جام چلے دیر سے صُبحِ بہاراں ہے نہ شام ِ فردوس وقت کو فکر کہ وہ آئے تو کچھ کام...
  10. فرخ منظور

    مصطفیٰ زیدی شہناز (۳) ۔ مصطفیٰ زیدی

    شہناز (۳) میرے زخموں سے ، مری راکھ سے تصدیق کرو کہ مسیحا نفَس و شعلہ جبیں تھا کوئی ماسوا، وَہم جہاں ، ذکر ِ خدا، وہم جہاں ہاں اُسی ذہن میں عرفان و یقیں تھا کوئی فون خاموش ہے اور گیٹ کی گھنٹی بےصَوت جیسے اس شہر میں رہتا ہی نہیں تھا کوئی بزم ِ ارواح تھی یا تیرے دہکتے ہُوئے ہونٹ واقعہ تھا...
  11. فرخ منظور

    مصطفیٰ زیدی شہناز (1) ۔ مصطفیٰ زیدی

    شہناز (۱) جو بھی تھا چاکِ گریباں کا تماشائی تھا تو نہ ہوتی تو یہ تدبیرِ رفو کرتا کون ؟ ایک ہی ساغر ِِ زہراب بہت کافی تھا دوسری بار تمنّائے سبُو کرتا کون ؟ تیرے چہرے پہ جو تقدیس نہ ہوتی ایسی دل کے موّاج سمندر میں وضو کرتا کون ؟ تُونے اندیشۂ فردا کو سمجھنے پر بھی میرے اِمروز کو ہر فکر سے...
  12. فرخ منظور

    مصطفیٰ زیدی زندگی دُھوپ ہے سنّاٹا ہے ۔ مصطفیٰ زیدی

    زندگی دُھوپ ہے سنّاٹا ہے نکہت ِ عَارض و کاکل والو ! رات آئے گی گزر جائے گی عاشقو ! صبر و تحمل والو ! ہم میں اور تم میں کوئی بات نہ تھی مہ جبینوں میں تجاہل والو ! اعتبارات بھی اٹھ جائیں گے اے غم ِ دل کے تسلسل والو ! پھر بہاروں میں وہ آئیں کہ نہ آئیں دوستو ! زخم ِ جگر دُھلوا لو مصطفیٰ...
  13. فرخ منظور

    مصطفیٰ زیدی فضائے شام ِ غریباں طلوع ِ صبح ِ طرب ۔ مصطفیٰ زیدی

    فضائے شام ِ غریباں طلوع ِ صبح ِ طرب مری سرشت میں کیا کچھ نہیں بہم آمیز شکست ِ دل کے فسانے کا ایک باب ہے اشک لہو نے جس میں کیا ہے ذرا سا نم آمیز مجھے تو اپنی تباہی کا کوئی عِلم نہ تھا مگر وہ آنکھ بھی ہے آج کل کَرَم آمیز کبھی جنون ِ تمنا بھی بےغرض بےلوث کبھی خلوص ِ رفاقت بھی بیش و کم...
  14. فرخ منظور

    مصطفیٰ زیدی قدم قدم پہ تمنائے التفات تو دیکھ ۔ مصطفیٰ زیدی

    قدم قدم پہ تمنائے التفات تو دیکھ زوال ِ عشق میں سوداگروں کا ہات تو دیکھ بس ایک ہم تھے جو تھوڑا سا سر اٹھا کے چلے اسی روش پہ رقیبوں کے واقعات تو دیکھ غم ِ حیات میں حاضر ہوں لیکن ایک ذرا نگار ِ شہر سے میرے تعلقات تو دیکھ خود اپنی آنچ میں جلتا ہے چاندنی کا بدن کسی کے نرم خنک گیسوؤں کی رات تو...
  15. فرخ منظور

    مصطفیٰ زیدی تری تلاش میں ہر رہنما سے باتیں کیں ۔ مصطفیٰ زیدی

    تری تلاش میں ہر رہنما سے باتیں کیں خلا سے ربط بڑھایا ہوا سے باتیں کیں کبھی ستاروں نے بھیجا ہمیں کوئی پیغام تو مدّتوں میں کسی آشنا سے باتیں کیں ہماری خیر مناؤ کہ آج خود اُس نے بڑے خلوص، بڑی التجا سے باتیں کیں گناہ گار تو رمزِ حریم تک پہنچے ثواب والوں نے بانگِ درا سے باتیں کیں بہت سے وہ تھے...
  16. فرخ منظور

    مصطفیٰ زیدی ایک علامت ۔ مصطفیٰ زیدی

    ایک علامت (مصطفیٰ زیدی کا سعادت حسن منٹو کے لیے خراجِ عقیدت) گھاس سے بچ کے چلو ریت کو گلزار کہو نرم کلیوں پہ چڑھا دو غمِ دوراں کے غلاف خود کو دل تھام کے مُرغانِ گرفتار کہو رات کو اس کے تبسّم سے لپٹ کر سو جاؤ صبح اُٹھو تو اسے شاہدِ بازار کہو ذہن کیا چیز ہے جذبے کی حقیقت کیا ہے فرش پر بیٹھ کے...
  17. فرخ منظور

    مصطفیٰ زیدی وفا کیسی؟ ۔ مصطفیٰ زیدی

    وفا کیسی ؟ آج وہ آخری تصویر جلا دی ہم نے جِس سے اُس شہر کے پُھولوں کی مہک آتی تھی جس سے بےنور خیالوں پہ چمک آتی تھی کعبۂ رحمتِ اصنام تھا جو مدت سے آج اُس قصر کی زنجیر ہِلا دی ہم نے آگ ،کاغذ کے چمکتے ہوئے سینے پہ بڑھی خواب کی لہر میں بہتے ہوئے آئے ساحل مُسکراتے ہوئے ہونٹوں کا سُلگتا ہؤا کرب...
  18. فرخ منظور

    مصطفیٰ زیدی جدائی ۔ مصطفیٰ زیدی

    جُدائی (روح کا ایک عمرانی تجربہ) نگار ِ شامِ غم مَیں تجھ سے رخصت ہونے آیا ہُوں گلے مِل لے کہ یوں مِلنے کی نوبت پھر نہ آئے گی سر ِ را ہے جو ہم دونوں کہیں مل بھی گئے تو کیا یہ لمحے پِھر نہ لَوٹیں گے یہ ساعت پھر نہ آئے گی کہ میں اب صرف ان گذرے ہوئے لمحوں کا سایہ ہوں اسی بازار میں بارہ برس ہونے...
  19. فرخ منظور

    مصطفیٰ زیدی ماہیت ۔ مصطفیٰ زیدی

    ماہیت میں سوچتا تھا کہ بڑھتے ہوئے اندھیروں میں افق کی موج پہ ابھرا ہوا ہلال ہو تم تصورات میں تم نے کنول جلائے ہیں وفا کاروپ ہو احساس کا جمال ہو تم کسی کا خواب میں نکھرا ہوا تبسم ہو کسی کا پیار سے آیا ہوا خیال ہو تم مگر یہ آج زمانے نے کر دیا ثابت معاشیات کا سیدھا سا اک سوال ہو تم (مصطفیٰ زیدی از...
  20. فرخ منظور

    مصطفیٰ زیدی رشتۂ جام و سبُو ۔ مصطفیٰ زیدی

    رشتۂ جام و سبُو جانے کب ابر سے نکلے مرا کھویا ہوا چاند جانے کب مجلسِ ارباب ِوفا روشن ہو راستے نور طلب شامِ سفر عکس ہی عکس ڈوبتے، کانپتے ، سہمے ہوئے، بجھتے ہوئے دل ورد کا بوجھ اٹھائے ہوئے گھبرائے ہوئے صبح کے کفش زدہ رات کے ٹھکرائے ہوئے جانے کب حلقۂ گرداب سے ابھرے ساحل سر پٹکتی ہوئی موجوں کا...
Top