مصطفیٰ زیدی

  1. فرخ منظور

    مصطفیٰ زیدی بے سمتی ۔ مصطفیٰ زیدی

    بے سمتی گئیر بدلتے ہوئے، منہ سے پھینک کر سگرٹ ڈرائیور نے ٹریفک کو ماں کی گالی دی کہا، حضور کہاں کیڈلک، کہاں پیجُو کہاں حکایتِ شیریں دہان و شہد لباں کہ ایک سیر شکر کا نہ مل سکا پرمٹ کہ دفتروں کو چلاتے ہیں تلخ گو بابو گمان بن گئی تہذیبِ رستم و سہراب حکومتوں نے بہ حقِ خزانہ ضبط کیے رموزِ کیسۂ...
  2. فرخ منظور

    مصطفیٰ زیدی نہاں ہے سب سے مِرا درد ِ سینۂ بیتاب ۔ مصطفیٰ زیدی

    نہاں ہے سب سے مِرا دردِ سینۂ بیتاب سوائے دِیدۂ بےخوابِ انجُم و مہ تاب تمہیں تو خیر مِرے غم کدے سے جانا تھا کہاں گئیں مِری نیندیں کِدھر گئے مِرے خواب سفِینہ ڈُوب گیا لیکن اِس وقار کے ساتھ کہ سر اُٹھا نہ سکا پھر کہیں کوئی گرداب عجیب بارشِ نیساں ہوئی ہے اَب کے برس صدف صدف شب ِ وعدہ ہے اَور گُہر...
  3. فرخ منظور

    مصطفیٰ زیدی ائیر ہوسٹس ۔ مصطفیٰ زیدی

    ائیر ہوسٹس شہر کی روشنیاں کِرمکِ آوارہ ہیں نہ وہ ہوٹل کے دریچے نہ وہ بجلی کے ستون نہ وہ اطراف نہ رفتار کا گمنام سکون ہر گھڑی عشوۂ پرواز بنی جاتی ہے سیکڑوں فیٹ تلے رینگ رہی ہو گی زمین کہیں پٹرول کے مرکز، کہیں سڑکوں کا غبار تار کے آہنی کھمبوں میں گھِری راہ گذار صرف اِک دُور کی آواز بنی جاتی ہے...
  4. فرخ منظور

    مصطفیٰ زیدی ناشناس

    ناشناس (۱) کِتنے لہجوں کی کٹاریں مری گردن پہ چلیں کِتنے الفاظ کا سِیسہ مِرے کانوں میں گُھلا جس میں اِک سَمت دُھندلکا تھا اَور اِک سَمت غُبار اُس ترازو پہ مِرے درد کا سامان تُلا کم نِگاہی نے بصیرت پہ اُٹھائے نیزے جُوئے تقلِید میں پیراہن ِ افکار دُھلا قحط اَیسا تھا کہ برپا نہ ہوئی مجلس...
  5. فرخ منظور

    مصطفیٰ زیدی بہ نامِ وطن ۔ مصطفیٰ زیدی

    بہ نام وطن کون ہے جو آج طلبگار ِ نیاز و تکریم وہی ہر عہد کا جبروت وہی کل کے لئیم وہی عیّار گھرانے وہی ، فرزانہ حکیم وہی تم ، لائق صد تذکرہء و صد تقویم تم وہی دُشمن ِ احیائے صدا ہو کہ نہیں پسِ زنداں یہ تمہی جلوہ نما ہو کہ نہیں تم نے ہر عہد میں نسلوں سے غدّاری کی تم نے بازاروں میں عقلوں کی...
  6. فرخ منظور

    مصطفیٰ زیدی پہلے تو غمِ دل میں تھے خرد سے بیگانے ۔ مصطفیٰ زیدی

    پہلے تو غمِ دل میں تھے خرد سے بیگانے ہم کو کون سا غم ہے، آج کل خدا جانے آج اہلِ زنداں نے رت جگا منایا ہے آج شہر والوں پر ہنس رہے ہیں دیوانے ضبط اے دلِ بے تاب دوسروں کی محفل ہے لوگ اس کی پلکوں میں ڈھونڈ لیں گے افسانے جب کبھی ستاروں کا کوئی نامہ بر آیا میرے در پہ دستک دی بار بار دنیا نے آج...
  7. فرخ منظور

    مصطفیٰ زیدی کربلا ۔ مصطفیٰ زیدی

    کربلا کربلا، میں تو گنہگار ہوں لیکن وہ لوگ جن کو حاصل ہے سعادت تری فرزندی کی جسم سے، روح سے، احساس سے عاری کیوں ہیں اِن کی مسمار جبیں، ان کے شکستہ تیور گردشِ حسنِ شب و روز پہ بھاری کیوں ہیں تیری قبروں کے مجاور، ترے منبر کے خطیب فلس و دینار و توجّہ کے بھکاری کیوں ہیں؟ روضۂ شاہِ شہیداں پہ اک...
  8. فرخ منظور

    مصطفیٰ زیدی کوہِ ندا ۔ مصطفیٰ زیدی

    کوہِ ندا اَیہُّاالنّاس چلو کوہ ِ ندا کی جانب کب تک آشفتہ سری ہو گی نئے ناموں سے تھک چکے ہو گے خرابات کے ہنگاموں سے ہر طرف ایک ہی انداز سے دن ڈھلتے ہیں لوگ ہر شہر میں سائے کی طرح چلتے ہیں اجنبی خوف کو سینوں میں چُھپائے ہوئے لوگ اپنے آسیب کے تابوت اُٹھائے ہوئے لوگ ذات کے کرب میں ، بازار کی...
  9. فرخ منظور

    مصطفیٰ زیدی آسودگی ۔ مصطفیٰ زیدی

    آسُودگی اس کارزارِ وقت میں، اس کائنات میں تسکین کی تلاش ہے دیوانگی کی بات بے چارگیِ ذہن ہے ہم معنیِ جمود آوارگی ہے حاصلِ رنگینیِ حیات اُس ولولے میں بھی تھا کبھی ارتقا کا راز جو بخشتا ہے ذہنِ بشر کو توہمّات فطرت کی آبرو ہیں گرجتے ہوئے پہاڑ دھرتی کا رنگ و نور ہیں بے رحم حادثات دل کا فریب ہے...
  10. فرخ منظور

    مصطفیٰ زیدی دیکھنا اہلِ جنوں، ساعتِ جہد آ پُہنچی ۔ مصطفیٰ زیدی

    ساعتِ جہد دیکھنا اہلِ جنوں، ساعتِ جہد آ پُہنچی اب کوئی نقش بہ دیوار نہ ہونے پائے اب کے کُھل جائیں خزانے نفَسِ سوزاں کے اب کے محرومیِ اظہار نہ ہونے پائے یہ جو غدّار ہے اپنی ہی صَفِ اوّل میں غیر کے ہات کی تلوار نہ ہونے پائے یُوں تو ہے جوہرِ گُفتار بڑا وصف ، مگر وجہِ بیماریِ کِردار نہ ہونے پائے...
  11. فرخ منظور

    مصطفیٰ زیدی اندوہِ وفا ۔ مصطفیٰ زیدی

    اندوہِ وفا آج وہ آخری تصویر جلا دی ہم نے جِس سے اُس شہر کے پھولوں کی مَہک آتی تھی آج وہ نکہتِ آسودہ لُٹا دی ہم نے عقل جِس قصر میں اِنصاف کیا کرتی تھی آج اُس قصر کی زنجیر ہِلا دی ہم نے آگ کاغذ کے چمکتے ہوئے سینے پہ بڑھی خواب کی لہر میں بہتے ہوئے آئے ساحل مُسکراتے ہوئے ہونٹوں کا سُلگتا ہوا کرب...
  12. فرخ منظور

    مصطفیٰ زیدی کہانی ۔ مصطفیٰ زیدی

    " کہانی " بچو ، ہم پر ہنسنے والو ، آؤ تمھیں سمجھائیں جِس کے لئے اس حال کو پُہنچے ، اس کا نام بتائیں رُوپ نگر کی اک رانی تھی ، اس سے ہُوا لگاؤ بچو ، اس رانی کی کہانی سُن لو اور سو جاؤ اُس پر مرنا ، آہیں بھرنا ، رونا ، کُڑھنا ، جلنا آب و ہوا پر زندہ رہنا ، انگاروں پر چلنا ہم جنگل جنگل پھرتے...
  13. غزل قاضی

    مصطفیٰ زیدی گذرنے والوں میں کتنے جگر فگار تھے آج

    گذرنے والوں میں کتنے جگر فگار تھے آج فقیر ِ راہ ہیں ہم ، ہم کو کیا نہیں معلوم صبا چلی تو ہے اس بار جھولیاں بھر کے کسی کو راس بھی آئے گی یا نہیں معلوم ہمیں بھی راہ میں اک دن تمھارا خانہ بدوش نظر تو آیا تھا لیکن پتہ نہیں معلوم بہت سے وہ ہیں جو بارِ سفر اٹھا نہ سکے بہت سے ہیں وہ...
  14. غزل قاضی

    مصطفیٰ زیدی ننگ و نام

    ننگ و نام صُبح تک آتی ہے سینے سے کِسی کی آواز ہائے ، یہ سِلسلہ ء شامِ غریباں زیدی تُو مرے واسطے کُیوں مَورِدِ الزام ہُوا تُونے کُیوں ترک کیا رشتہ ء یاراں، زیدی اب نہ وُہ کوچہ و بازار میں آنا جانا اب نہ وہ صحبت ِ احباب و ادیباں ، زیدی اب ترے غم پہ زمانے کو ہنسی آتی ہے پُھول جلتا ہے ،...
  15. غزل قاضی

    مصطفیٰ زیدی شہناز (۵)

    شہناز (۵) جس طرح ترکِ تعلُّق پہ اِصرار اب کے ایسی شدّت تو مرے عہد ِ وفا میں بھی نہ تھی میں نے تو دیدہ و دانستہ پیا ہے وہ زہر جس کی جراؑت صفِ تسلیم و رضا میں بھی نہ تھی تُونے جس لہر کی صورت سے مجھے چاہا تھا ساز میں بھی نہ تھی وہ بات ، صبا میں بھی نہ تھی اور اب یوں ہے کہ جیسے کبھی رسم ِ...
  16. غزل قاضی

    مصطفیٰ زیدی محبت

    محبّت تُو مِری شمعِ دِل و دِیدہ ، مِری معصُومہ پیار کی دُھوپ میں نِکلی تو پِگھل جائے گی کَھولتا ، گُونجتا لاوا ہے مِرے جسم کا لمس تُو مِرے ہونٹوں کو چُھو لے گی تو جل جائے گی تِتلِیاں چُن ابھی خاروں کی طلبگار نہ بن لوریاں سِیکھ مِرے درد میں غم خوار نہ بن بزم ِ آہنگ میں آ ، نالہ ء خُونبار...
  17. غزل قاضی

    مصطفیٰ زیدی سفرِ آخرِ شب

    سفرِ آخرِ شب بہت قریب سے آئی ہوئے دامنِ گُل کِسی کے رُوئے بہاریں نے حال ِ دل پُوچھا کہ اَے فراق کی راتیں گُزارنے والو خُمارِ آخرِ شب کا مزاج کیسا تھا تمھارے ساتھ رہے کون کون سے تارے سیاہ رات میں کِس کِس نے تم کو چُھوڑ دیا بِچھڑ گئے کہ دغا گئے شریکِ سفر اُلجھ گیا کہ وفا کا طِلسم...
  18. غزل قاضی

    مصطفیٰ زیدی نذر غالب

    نذر غالب اس کشمکشِ ذہن کا حاصِل نہیں کچھ بھی انکارار کو ٹھکرائے ، نہ اقرار کو چاہے مفرور طلب رات کو حاصل کرے بن باس مغرور بدن گرمیء بازار کو چاہے سنبھلے نہ زخمِ زیست سے بوجھ آب و ہوا کا آسائش ِ دُنیا در و دیوار کو چاہے آنکھیں روشِ دوست پہ بچھتی چلی جائیں اور دوست کہ طبعِ سَر خوددار کو...
  19. غزل قاضی

    مصطفیٰ زیدی منزلیں ، فاصلے

    منزلیں ، فاصلے حافظے کی مدد سے چلو ، ساتھیو دور تک کہر ہی کہرہے ، راستے راہ گیروں کے قدموں سے لپٹے ہوئے اونگھتی سرحدوں کی طرف کھو گئے ایک بےنام خطرے سے سہمے ہوئے رنگ و رَم لے لپکتے قدم تھم گئے اور دریچوں سے بڑھتی ہوئی روشنی برف و باراں کی یلغار میں کھو گئی وقت عفریت کی رہ گزر بن گیَا...
  20. غزل قاضی

    منزل (۲)

    اہلِ منزل کی مُسافِر پہ یہ تِرچھی نظریں میزباں کی سُوئے مہماں یہ نگاہ ِ اکراہ اَلحذَر خون بہاتے ہُوئے آدابِ کَرَخت الاَماں تِیر چلاتے ہُوئے اخلاق ِ سیاہ یہ خَط و خال سے چَھنتی ہُوئی نفرت کی شُعاع یہ جَبینوں کی لکیروں سے اُبَلتی ہُوئی ڈاہ شہر کے زَلزلہ بردوش ، گلی کُوچوں میں یہ کڑکتے...
Top