اس غزل کو ٹائپ کرنے کی وجہ ایک تو یہ تھی کہ یہ مشہور زمانہ غزل شاید ابھی تک پسندیدہ کلام کا حصہ نہیں بنی۔ کم از کم میری تلاش کے مطابق۔ اور دوسری وجہ اس کے اکثر اشعار کا بگڑی ہوئی حالت میں مشہور ہونا ہے۔ تابش کانپوری کی یہ غزل اصل حالت میں آپ احباب کی باذوق بصارتوں کی نذر ہے۔
تیری صورت نگاہوں...
کل شب دلِ آوارہ کو سینے سے نکالا
یہ آخری کافر بھی مدینے سے نکالا
یہ فوج نکلتی تھی کہاں خانۂِ دِل سے
یادوں کو نہایت ہی قرینے سے نکالا
میں خون بہا کر بھی ہوا باغ میں رُسوا
اُس گُل نے مگر کام پسینے سے نکالا
ٹھہرے ہیں زر و سیم کے حقدار تماشائی
اور مارِ سیہ ہم نے دفینے سے نکالا
یہ سوچ کے...
جسم کا بوجھ اٹھائے ہوئے چلتے رہیے
دھوپ میں برف کی مانند پگھلتے رہیے
یہ تبسم تو ہے چہروں کی سجاوٹ کے لیے
ورنہ احساس وہ دوزخ ہے کہ جلتے رہیے
اب تھکن پاؤں کی زنجیر بنی جاتی ہے
راہ کا خوف یہ کہتا ہے کہ چلتے رہیے
زندگی بھیک بھی دیتی ہے تو قیمت لے کر
روز فریاد کا انداز بدلتے رہیے
وے سائیں تیرے چرخے نے
اَج کت لیا کتن والی نوں
ہر اِک مُڈھا پچھی پایا
نہ کوئی گیا تے نہ کوئی آیا
ہائے اللہ اَج کی بنیاں
اِس چھوپے کتن والی نوں
تاک کسے نہ کھولے پِیڑے
نِسل پئے رانگلے پیڑھے
ویکھ اٹیرن باورا ہویا
لبھدا اَتن والی نوں
کسے نہ دِتی کسے نہ منگی
دُوجے کنی واج نہ لنگی
امبر ہس کے ویکھن...
اپنی مٹی کو سرفراز نہیں کر سکتے
یہ در و بام تو پرواز نہیں کر سکتے
عالم خواہش و ترغیب میں رہتے ہیں مگر
تیری چاہت کو سبوتاژ نہیں کر سکتے
حسن کو حسن بنانے میں مرا ہاتھ بھی ہے
آپ مجھ کو نظر انداز نہیں کر سکتے
شہر میں ایک ذرا سے گھر کی خاطر
اپنے صحراؤں کو ناراض نہیں کر سکتے
عشق وہ کار مسلسل ہے کہ...
پرائے پن کا ہے اب تک پڑاؤ لہجے میں
کہیں سے ڈھونڈ کے لاؤ، لگاؤ لہجے میں
یہ بات اپنی طرف سے نہیں کہی تم نے
عیاں ہے صاف کسی کا دباؤ لہجے میں
عد م توجہی گویا، مری کھلی اُس کو
تبھی در آیا ہے اتنا تناؤ لہجے میں
یہ گفتگو، کسی ذی روح کی نہیں لگتی
کوئی اتار نہ کوئی چڑھاؤ لہجے میں
زبان پر تو بظاہر...
چاہت کے صبح و شام محبت کے رات دن
دل ڈھونڈتا ہے پھر وہی فرصت کے رات دن
وہ شوقِ بے پناہ میں الفاظ کی تلاش
اظہار کی زباں میں لکنت کے رات دن
وہ ابتدائے عشق وہ آغازِ شاعری
وہ دشتِ جاں میں پہلی مسافت کے رات دن
سودائے آذری میں ہوائے صنم گری
وہ بت پرستیوں میں عبادت کے رات دن
روئے نگاراں و چشمِ...
درد اور درد کی، سب کی ہے دوا ایک ہی شخص
یاں ہے جلاد و مسیحا بخدا ایک ہی شخص
حور و غلماں کے لیے لائیں دل آخر کس کا
ہونے دیتا نہیں یاں عہدہ برآ ایک ہی شخص
قافلے گزریں وہاں کیونکہ سلامت واعظ
ہو جہاں راہزن اور راہنما ایک ہی شخص
قیس سا پھر کوئی اٹھا نہ بنی عامرمیں
فخر ہوتا ہے گھرانے کا سدا ایک ہی...
ترے نزدیک آکر سوچتا ہوں
میں زندہ تھا کہ اب زندہ ہوا ہوں
جن آنکھوں سے مجھے تم دیکھتے ہو
میں ان آنکھوں سے دنیا دیکھتا ہوں
خدا جانے مری گھٹڑی میں کیا ہے
نہ جانے کیوں اٹھائے پھر رہا ہوں
یہ کوئی اور ہے اے عکس دریا
میں اپنے عکس کو پہچانتا ہوں
نہ آدم ہے نہ آدم زاد کوئی
کن آوازوں سے سر ٹکرا رہا ہوں...
اے دل نہ سن افسانہ کسی شوخ حسیں کا
ناعاقبت اندیش رہے گا نہ کہیں کا
دنیا کا رہا ہے دل ناکام نہ دیں کا
اس عشق بد انجام نے رکھا نہ کہیں کا
ہیں تاک میں اس شوخ کی دزدیدہ نگاہیں
اللہ نگہبان ہے اب جان حزیں کا
حالت دل بیتاب کی دیکھی نہیں جاتی
بہتر ہے کہ ہوجائے یہ پیوند زمیں کا
گو قدر وہاں خاک کی بھی...
یا رب مری حیات سے غم کا اثر نہ جائے
جب تک کسی کی زلف پریشاں سنور نہ جائے
وہ آنکھ کیا جو عارض و رخ پر ٹھہر نہ جائے
وہ جلوہ کیا جو دیدہ و دل میں اتر نہ جائے
میرے جنوں کو زلف کے سائے سے دور رکھ
رستے میں چھاؤں پا کے مسافر ٹھہر نہ جائے
میں آج گلستاں میں بلا لوں بہار کو
لیکن یہ چاہتا ہوں خزاں روٹھ...
مرنے کی دعائیں کیوں مانگوں جینے کی تمنا کون کرے
یہ دنیا ہو یا وہ دنیا اب خواہش دنیا کون کرے
جب کشتی ثابت وسالم تھی، ساحل کی تمنا کس کو تھی
اب ایسی شکستہ کشتی پر ساحل کی تمنا کون کرے
جو آگ لگائی تھی تم نے اس کو تو بجھایا اشکوں سے
جو اشکوں نے بھڑکائی ہے اس آگ کو ٹھنڈا کون کرے
دنیا نے ہمیں...
کبھی کسی کو مکمل جہاں نہیں ملتا
کہیں زمیں کہیں آسماں نہیں ملتا
تمام شہر میں ایسا نہیں خلوص نہ ہو
جہاں امید ہو اس کی وہاں نہیں ملتا
کہاں چراغ جلائیں کہاں گلاب رکھیں
چھتیں تو ملتی ہیں لیکن مکاں نہیں ملتا
یہ کیا عذاب ہے سب اپنے آپ میں گم ہیں
زباں ملی ہے مگر ہم زباں نہیں ملتا
چراغ جلتے ہیں...
دیر لگی آنے میں تم کو شکر ہے پھر بھی آئے تو
آس نے دل کا ساتھ نہ چھوڑا ویسے ہم گھبرائے تو
شفق دھنک مہتاب گھٹائیں تارے نغمے بجلی پھول
اس دامن میں کیا کیا کچھ ہے دامن ہاتھ میں آئے تو
چاہت کے بدلے میں ہم تو بیچ د یں اپنی مرضی تک
کوئی ملے تو دل کا گاہک کوئی ہمیں اپنائے تو
سنی سنائی بات نہیں یہ...
یہ غزل بہت سے گلوکاروں نے گائی ہے۔ اور زیادہ تر نے "دیواروں سے باتیں کرنا اچھا لگتا ہے" کر کے گائی ہے۔ جبکہ اصل شعر "دیواروں سے ملکر رونا اچھا لگتا ہے"۔ اور دوسری بات کہ چند احباب نے انٹرنیٹ کی دنیا میں اس کے چند اشعار (خاص کر مقطع) کو ناصر کاظمی سے منسوب کر رکھا ہے جبکہ یہ اصل غزل جناب...
اب کے سال پُونم میں جب تو آئے گی ملنے، ہم نے سوچ رکھا ہے رات یوں گزاریں گے
دھڑکنیں بچھا دیں گے، شوخ ترے قدموں میں، ہم نگاہوں سے تیری، آرتی اتاریں گے
تو کہ آج قاتل ہے، پھر بھی راحتِ دل ہے، زہر کی ندی ہے تو، پھر بھی قیمتی ہے تو
پَست حوصلے والے، تیرا ساتھ کیا دیں گے!، زندگی اِدھر آجا! ہم تجھے...
جب میرے راستے میں کوئی میکدا پڑا
مجھ کو خود اپنے غم کی طرف دیکھنا پڑا
معلوم اب ہوئی تری بیگانگی کی قدر
اپنوں کے التفات سے جب واسطا پڑا
ْ
اک بادہ کش نے چھین لیا بڑھ کے جامِ مَے
ساقی سمجھ رہا تھا سبھی کو گرا پڑا
ترکِ تعلقات کو اک لمحہ چاہیے
لیکن تما م عمر مجھے سوچنا پڑا
یوں جگمگا رہا ہے مرا...
اج میں تکیا اکھاں نال،
وچ گودڑی لکیا لال ۔
سر دے اتے پھٹا پرولا،
ٹھبی جتی گنڈھیا جھولا ۔
چھجے کپڑے ہوئے لنگارے،
وچوں پنڈا لشکاں مارے ۔
حسن نہ جاوے رکھیا تاڑ،
نکل آؤندا کپڑے پاڑ !
نہیں ایہہ انگر، نہیں لنگارے
ایہہ تاں پھٹّ نصیباں مارے ۔
یا پھر لٹن مارن ڈاکے،
وڑی غریبی سنھاں لا کے ۔
حسن اوس دا میں...
سسی سوہنی سکیاں بھیناں برہوں دے گھر جائیاں
وکھّو وکھ نصیبےدونویں دُھروں لکھا لیائیاں
ایہدے ہتھوں دور بریتہ ، اوہدی تھلیں وَہانی
اوہ پانی نوں سکدی مر گئی ، ایہہ موئی وچ پانی
ایہہ پانی وچ غؤطے کھائے ، اوہ پئی پھکے ریتاں
لیکھ اوہدے وچ ہُسڑ گُمیں ، بھاگ ایہدے وچ سیتاں
باگاں دے وچ کھیڈدیاں نے ،جیہا...
بے دِلی کیا یونہی دن گزر جائیں گے
صرف زندہ رہے ہم تو مر جائیں گے
رقص ہے رنگ پر رنگ ہم رقص ہیں
سب بچھڑ جائیں گے سب بکھر جائیں گے
یہ خراباتیانِ خردِ باختہ
صبح ہوتے ہی سب کام پر جائیں گے
کتنی دلکش ہو تم کتنا دل جُو ہوں میں
کیا ستم ہے کہ ہم لوگ مر جائیں گے
ہے غنیمت کہ اسرار ہستی سے ہم
بے خبر آئے...