کلام کرتی نہیں میری چشم تر جیسے
تمہیں نہیں ہے مرے حال کی خبر جیسے
کہیں جہاں میں سُکھ بھی نہیں ہے گھر جیسا
کہیں جہاں میں دُکھ بھی نہیں ہیں گھر جیسے
چلا ہے اُس کی گلی کو اُسی طرح انورؔ
سحر کو لوگ روانہ ہوں کام پر جیسے
چند دن پہلے محترم و مکرم محمداحمد صاحب کی مہربانی سے اس کو سننے کا اتفاق ہوا۔ شاعری اور گائیکی دونوں بہت پسند آئے۔ سوچا اہل محفل کے ساتھ بھی شئیر کی جائے۔ مکمل کہیں اور سے نقل کی ہے۔ خود نہیں لکھی۔۔۔
یہ شہرِتمنا یہ امیروں کی دنیا
یہ خود غرض اور بے ضمیروں کی دنیا
یہاں سکھ مجھے دو جہاں کا ملا ہے...
مٹی گریز کرنے لگی ہے خیال کر
اپنا وجود اپنے لیے تو بحال کر
تیرا طلوع تیرے سوا تو کہیں نہیں
اپنے میں ڈوب اپنے ہی اندر زوال کر
اوروں کے فلسفے میں ترا کچھ نہیں چھپا
اپنے جواب کے لیے خود سے سوال کر
پہلے وہ لا تھا مجھ سے الٰہی ہوا ہے وہ
لایا ہوں میں خدا کو خودی سے نکال کر
اس کارگاہ عشق میں سمتوں...
میرا خاموش رہ کر بھی انہیں سب کچھ سنا دینا
زباں سے کچھ نہ کہنا دیکھ کر آنسو بہا دینا
میں اس حالت سے پہنچا حشر والے خود پکار اٹھے
کوئی فریاد کرنے آ رہا ہے راستہ دینا
اجازت ہو تو کہ دوں قصۂ الفت سرِ محفل
مجھے کچھ تو فسانہ یاد ہے کچھ تم سنا دینا
میں مجرم ہوں مجھے اقرار ہے جرمِ محبت کا
مگر پہلے...
مجھ کو شبِ وجود میں تابش خواب چاہیے
شوقِ خیال تازہ ہے یعنی عذاب چاہیے
آج شکستِ ذات کی شام ہے مجھ کو آج شام
صرف شراب چاہیے ، صرف شراب چاہیے
کچھ بھی نہیں ہے ذہن میں کچھ بھی نہیں سو اب مجھے
کوئی سوال چاہیے کوئی جواب چاہیے
اس سے نبھے گا رشتۂ سود و زیاں بھی کیا بھلا
میں ہوں بلا کا بدحساب اس کو...
بھلا کیا پڑھ لیا ہے اپنے ہاتھوں کی لکیروں میں
کہ اس کی بخششوں کے اتنے چرچے ہیں فقیروں میں
کوئی سورج سے سیکھے، عدل کیا ہے، حق رسی کیا ہے
کہ یکساں دھوپ بٹتی ہے، صغیروں میں کبیروں میں
ابھی غیروں کے دکھ پہ بھیگنا بھولی نہیں آنکھیں
ابھی کچھ روشنی باقی ہے لوگوں گے ضمیروں میں
نہ وہ ہوتا، نہ میں اِک...
ایک آزار ہوئی جاتی ہے شہرت ہم کو
خود سے ملنے کی بھی ملتی نہیں فرصت ہم کو
روشنی کا یہ مسافر ہے رہِ جاں کا نہیں
اپنے سائے سے بھی ہونے لگی وحشت ہم کو
آنکھ اب کس سے تحیر کا تماشا مانگے
اپنے ہونے پہ بھی ہوتی نہیں حیرت ہم کو
اب کے اُمید کے شعلے سے بھی آنکھیں نہ جلیں
جانے کس موڑ پہ لے آئی محبت ہم کو...
کیوں اے فلک جو ہم سے جوانی جُدا ہوئی
اِک خود بخود جو دل میں خوشی تھی وہ کیا ہوئی
گُستاخ بلبلوں سے بھی بڑھ کر صبا ہوئی
کچھ جھُک کر گوش گُل میں کہا اور ہوا ہوئی
مایوس دل نے ایک نہ مانی امید کی
کہہ سن کے یہ غریب بھی حق سے ادا ہوئی
دنیا کا فکر ، موت کا ڈر، آبرو کا دھیان
دو دن کی زندگی مرے حق میں...
جو کچھ دیکھا جو سوچا ہے وہی تحریر کر جائیں!
جو کاغذ اپنے حصے کا ہے وہ کاغذ تو بھر جائیں!
نشے میں نیند کے تارے بھی اک دوجے پر گرتے ہیں
تھکن رستوں کی کہتی ہے چلو اب اپنے گھر جائیں
کچھ ایسی بے حسی کی دھند سی پھیلی ہے آنکھوں میں
ہماری صورتیں دیکھیں تو آئینے بھی ڈر جائیں
نہ ہمت ہے غنیمِ وقت سے...
دہکتے دن میں عجب لطف اٹھایا کرتا تھا
میں اپنے ہاتھ کا تتلی پہ سایہ کرتا تھا
اگر میں پوچھتا بادل کدھر کو جاتے ہیں
جواب میں کوئی آنسو بہایا کرتا تھا
یہ چاند ضعف ہے جس کی زباں نہیں کھلتی
کبھی یہ چاند کہانی سنایا کرتا تھا
میں اپنی ٹوٹتی آواز گانٹھنے کے لئے
کہیں سے لفظ کا پیوند لایا کرتا تھا
عجیب...
جنون دل نہ صرف اتنا کہ اک گل پیرہن تک ہے
قد و گیسو سے اپنا سلسلہ دارو رسن تک ہے
مگر اے ہم قفس، کہتی ہے شوریدہ سری اپنی
یہ رسمِ قید و زنداں، ایک دیوارِ کہن تک ہے
کہاں بچ کر چلی اے فصل گل، مجھ آبلہ پا سے
مرے قدموں کی گلکاری بیاباں سے چمن تک ہے
میں کیا کیا جرعۂ خوں پی گیا پیمانۂ دل میں
بلا...
غبار جاں نکلنا جانتا ہے
دھواں روزن کا رستا جانتا ہے
تم اس کی رہنمائی کیا کرو گے
کدھر جانا ہے دریا جانتا ہے
بہت حیراں ہوا میں اس سے مل کر
مجھے اک شخص کتنا جانتا ہے
نہیں چلتے زمانے کی روش پر
ہمیں بھی اک زمانہ جانتا ہے
بڑے چرچے ہیں اُس کی آگہی کے
مگر انساں ابھی کیا جانتا ہے
کیے ہیں جس نے دل...
راضی ناواں ہو سکدا اے
جے او ساواں ہو سکدا اے
دھپّاں دے وچ میرے نال
ہاں! پرچھاواں ہوسکدا اے
میرے ورگے مک نئیں سکدے
ٹاواں ٹاواں ہوسکدا اے
اج میرے تے خُش لگدا اے
ہتھ تے لاواں، ہوسکدا اے
موت کی رسم نہ تھی، ان کی ادا سے پہلے
زندگی درد بنائی تھی، دوا سے پہلے
کاٹ ہی دیں گے قیامت کا دن اک اور سہی
دن گزارے ہیں محبّت میں قضا سے پہلے
دو گھڑی کے لئے میزان عدالت ٹھہرے
کچھ مجھے حشر میں کہنا ہے خدا سے پہلے
تم جوانی کی کشاکش میں کہاں بھول اٹھے
وہ جو معصوم شرارت تھی ادا سے پہلے
دار فانی...
فیض کی روح سے معذرت کے ساتھ
اے نیازؔ ! چپکے سے نوٹ جب اسے ایک سو کا تھما دیا
جسے لوگ کہتے تھے سخت خُو، اُسے موم ہم نے بنا دیا
جو بھی رکن اپنا تھا ہمنوا، اسے کیسا ہم نے صلہ دیا
نہ وزیر کی رہی سیٹ جی، وہ مشیر ہم نے بنا دیا
جو گرانی پھولی، پھلی، بڑھی، اسے ایسے ہم نے شکست دی
کہ وہ مک مکا کا جو...
پیر و مرشد
(کنہیالال کپور)
ماخذ
پطرس میرے استاد تھے۔ ان سے پہلی ملاقات تب ہوئی، جب گورنمنٹ کالج لاہور میں ایم اے انگلش میں داخلہ لینے کے لئے ان کی خدمت میں حاضر ہوا۔ انٹر ویو بورڈ تین ارکین پر مشتمل تھا پروفیسر ڈکنسن (صدر شعبہ انگریزی) پروفیسر مدن گوپال سنگھ اور پروفیسر اے ایس بخاری۔ گھر سے خوب...
شام کے پیچ و خم ستاروں سے
زینہ زینہ اُتر رہی ہے رات
یوں صبا پاس سے گزرتی ہے
جیسے کہہ دی کسی نے پیار کی بات
صحنِ زنداں کے بے وطن اشجار
سرنگوں ،محو ہیں بنانے میں
دامنِ آسماں پہ نقش و نگار
شانۂ بام پر دمکتا ہے!
مہرباں چاندنی کا دستِ جمیل
خاک میں گھل گئی ہے آبِ نجوم
نور میں گھل گیا ہے عرش کا نیل...