نظم

  1. فرخ منظور

    مصطفیٰ زیدی یہ ایک نام ۔ مصطفیٰ زیدی

    یہ ایک نام شفق سے دُور ، ستاروں کی شاہراہ سے دُور اُداس ہونٹوں پہ جلتے سُلگتے سِینے سے تمھارا نام کبھی اِس طرح اُبھرتا ہَے فضا میں جیسے فرشتوں کے نرم پَر کُھل جائیں دِلوں سے جَیسے پُرانی کدُورتیں دُھل جائیں یہ بولتی ہُوئی شب ، یہ مُہِیب سناٹا کہ جیسے تُند گناہوں کے سیکڑوں عفرِیت بس ایک...
  2. محمد تابش صدیقی

    بیٹا! فون تو اٹھا :: نظم برائے اصلاح

    پرسوں گزرے لاہور کے سانحے میں ایک دل کو چیر دینے والی تصویر نظر سے گزری، کہ جس میں دہشت گردی کی شکار ایک شہید کے موبائل پر اس کی ماں کی کال آ رہی تھی۔ ماں کی پریشانی کی ہلکی سی جھلک جو ذہن میں آئی وہ اس نظم کی صورت میں اصلاح کے لئے پیش کر رہا ہوں۔ اگرچہ یہ نظم ماں کے کرب کا عشرِ عشیر بیان کرنے...
  3. محمد تابش صدیقی

    نظر لکھنوی ملی نغمہ

    یومِ پاکستان کی مناسبت سے پیشِ خدمت ہے دادا مرحوم کا لکھا ہوا ایک ملی نغمہ ملّی نغمہ نظر نواز طرب آفریں جمیل و حسیں خوشا اے مملکتِ پاک رشکِ خلدِ بریں سلام تجھ کو کریں جھک کے مہر و ماہِ مبیں تو دینِ مصطفویؐ کا ہے پاسبان و امیں ترے وجود پہ نازاں ہیں آسمان و زمیں ستارہ اوجِ مقدر کا زینتِ پرچم...
  4. چوہدری لیاقت علی

    احمد مشتاق نئی کتاب اوراق خزانی سے ایک نظم

    گھاس پر تتلیاں ٹوٹے ہوئے پتوں کی طرح بکھری ہیں
  5. فرخ منظور

    مصطفیٰ زیدی عدالت (نظم)۔ مصطفیٰ زیدی

    عدالت خدائے قُدّوس کی بُزرگ اور عظیم پلکیں زمیں کے چہرے پہ جُھک گئی ہَیں زمین کی دُخترِ سعید اپنے آنسوؤں اور ہچکیوں میں شفیق ، ہمدرد باپ کی بارگاہ کا اک ستُون تھامے گُنہ کا اقرار کر رہی ہے ترے فرشتے ۔۔۔۔۔۔۔ ترے فرشتے کہ جن کی قسمت میں محض تسبیح و نَے نوازی نہ سوزِ فطرت نہ دل گُدازی یہ وُہ ہیں...
  6. فہد اشرف

    علی سردار جعفری کرشمہ

    کرشمہ مرے لہو میں جو توریت کا ترنم ہے مری رگوں میں جو یہ زمزمہ زبور کا ہے یہ سب یہود و نصاریٰ کے خوں کی لہریں ہیں مچل رہی ہیں جو میرے لہو کی گنگا میں میں سانس لیتا ہوں جن پھیپھڑوں کی جنبش سے کسی مغنئ آتش نفس نے بخشے ہیں جواں ہے مصحفِ یزداں کا لحن داؤدی کسی کی نرگسی آنکھوں کا نرگسی پردہ...
  7. محمد تابش صدیقی

    نظر لکھنوی نظم: تلاش ٭ نظرؔ لکھنوی

    دادا مرحوم کی ایک نظم احباب کے ذوق کی نذر: تلاش بندۂ حق نگر و مردِ مسلماں کی تلاش پھر زمانہ کو ہوئی جراتِ ایماں کی تلاش صبحِ خاموش کو ہے مہرِ درخشاں کی تلاش شامِ تاریک کو ہے شمعِ فروزاں کی تلاش ہے عزائم کو بلا خیزئ طوفاں کی تلاش ہے مقدر کو ابھی گردشِ دوراں کی تلاش سینہ و دل کو ابھی گرمئ...
  8. فرخ منظور

    مصطفیٰ زیدی احسان فراموش ۔ مصطفیٰ زیدی

    احسان فراموش جب منڈیروں پہ چاند کے ہمراہ بجھتی جاتی تھیں آخری شمعیں کیا ترے واسطے نہیں ترسا اُس کا مجبور مضمحل چہرا؟ کیا ترے واسطے نہیں جاگیں؟ اُس کی بیمار رحم دل آنکھیں کیا تجھے یہ خیال ہے کہ اُسے اپنے لٹنے کا کوئی رنج نہیں اُس نے دیکھی ہے دن کی خونخواری اس پہ گزری ہے شب کی عیّاری پھر بھی...
  9. راحیل فاروق

    ماں جی سے

    تقریباً سات سال پرانی ایک نظم۔ حالات کچھ بدلے نہیں اب تک! کیوں جھگڑتی ہیں بے سبب، ماں جی؟ میں بڑا ہو گیا ہوں اب، ماں جی! بھلے وقتوں کی آپ کی ہے سوچ اب بھلا وقت ہے ہی کب، ماں جی؟ وہ زمانہ نہیں رہا، مانیں! ہے یہی زندگی کا ڈھب، ماں جی میں تو پھر آپ سے ہوا باغی لوگ بھولے ہوئے ہیں رب، ماں جی...
  10. محمد تابش صدیقی

    نظم: والد کی وفات پر - - - ندا فاضلی

    تمہاری قبر پر میں فاتحہ پڑھنے نہیں آیا مجھے معلوم تھا تم مَر نہیں سکتے تمہاری موت کی سچی خبر جس نے اڑائی تھی وہ جھوٹا تھا وہ تم کب تھے. کوئی سوکھا ہُوا پتا ہوا سے ہِل کے ٹُوٹا تھا میری آنکھیں تمہارے منظروں میں قید ہیں اب تک میں جو بھی دیکھا ہوں سوچتا ہوں ، وہ وہی ہے جو تمہاری نیک نامی اور بدنامی...
  11. نور وجدان

    تو جلتا اک چراغ روشنی کی خود مثال ہے

    تو جلتا اک چراغ روشنی کی خود مثال ہے جِلو میں تیرے رہنا زندگی کا بھی سوال ہے مرا وجود تیرے عشق کی جو خانقاہ ہے ہوں آئنہ جمال ،تیرے ُحسن کا کمال ہے مقامِ طُور پر یہ جلوے نے کِیا ہے فاش راز کہ اَز فنائے ہست سے ہی چلنا کیوں محال ہے ِفشار میں َرواں تُو جان سے قرین یار ہے جو...
  12. چوہدری لیاقت علی

    سعود عثمانی جانا انجانا ۔ سعود عثمانی

    بعض پرانی نظمیں پرانے لباس کی طرح ہوجاتی ہیں .پہنا بھی نہیں جاسکتا اور دیرینہ محبت کو چھوڑا بھی نہیں جاسکتا. آج ایک پرانی ڈائری میں سے یونی ورسٹی کے دور کی وہ نظم نکل آئی جو نہ میری کسی کتاب میں موجود ہے نہ شاید کسی رسالے میں چھپی ہے .پتہ نہیں اب اس کا کیا بنے گا.ممکن ہے یہ کبھی منہ زور ہوکر خود...
  13. محمد تابش صدیقی

    نظر لکھنوی رخصتی

    یہ نظم دادا مرحوم نے اپنی بیٹی (میری پھوپھی مرحومہ) کی رخصتی کے موقع پر لکھی۔ احبابِ محفل کے ذوق کی نذر: رخصتی نورِ عینی لختِ دل پاکیزہ سیرت نیک نام بنتِ خوش اختر مری ہوتا ہوں تجھ سے ہم کلام عقد تیرا کر دیا بر سنتِ خیر الانامؐ آج تو ہم سے جدا ہو جائے گی تا وقتِ شام دل میں اک طوفانِ غم ہے روح...
  14. محمد تابش صدیقی

    احسان دانش جشنِ بےچارگی

    جشنِ بےچارگی ہے داغِ دل اک شام سیہ پوش کا منظر تھا ظلمتِ خاموش میں شہزادۂ خاور عالم میں مچلنے ہی کو تھے رات کے گیسو انوار کے شانوں پہ تھے ظلمات کے گیسو یہ وقت اور اک دخترِ مزدور کی رخصت واللہ قیامت تھی قیامت تھی قیامت نوشاہ کہ جو سر پہ تھا باندھے ہوئے سہرا بھرپور جوانی میں تھا اترا ہوا چہرا...
  15. محمد تابش صدیقی

    مری ہندی بھی اتم ہے مری اردو بھی اعلیٰ ہے - - - لتا حیا۔۔

    لتا حیا صاحبہ کی ایک خوبصورت نظم غالباً مکمل نہیں ہے اور مجھے ملی بھی نہیں اگر کسی دوست کو ملے تو ضرور شئر کریں۔
  16. Umair Maqsood

    احمد ندیم قاسمی کون سُنے

    کون سُنے فراز دار سے تا پستیِ حفاظت ذات کوئی نہیں جو احساس کی صدا سُن لے اسی لیے تو ہر انسان کے لب پہ ہے یہ دعا خُدا کرے میری بپتا مرا خدا سُن لے مطالبہ ہے یہ ہم عصر حق پرستوں کا فضا میں چیخ سُنائی بھی دے، دکھائی بھی دے یقیں سے کون کہے نغمے ہیں کہ فریادیں افق افق اگر اک شور سا سُنائی بھی دے...
  17. Umair Maqsood

    احمد ندیم قاسمی سونا

    سونا تم کہتے ہو آفتاب ابھرا میں کہتا ہوں جل رہا ہے سونا پیڑوں سے گزر رہی ہیں کرنیں ہاتھوں سے نکل رہا ہے سونا مشرق کی تمازتِ اَنا سے مغرب میں پگھل رہا ہے سونا
  18. Umair Maqsood

    احمد ندیم قاسمی دشتِ وفا

    دشتِ وفا دوست کہتے ہیں ترے دشتِ وفا میں کیسے اتنی خوشبو ہے، مہکتا ہو گلستاں جیسے گو بڑی چیز ہے غم خواریِ اربابِ وفا کتنے بیگانۂ آئینِ وفا ہیں یہ لوگ زخم در زخم محبت کے چمن زار میں بھی فقط اک غنچۂ منطق کے گدا ہیں یہ لوگ میں اُنھیں گلشنِ احساس دکھاؤں کیسے جن کی پروازِ بصیرت پرِ بلبل تک ہے وہ نہ...
  19. Umair Maqsood

    احمد ندیم قاسمی روایت

    روایت قدموں کے نقوش ہوں کے چہرے قبروں کے گلاب ہوں کہ سہرے تاریخ کے بولتے نشاں ہیں تہذیب کے سلسلے رواں ہیں یہ رسمِ جہاں قدیم سے ہے آدم کا بھرم ندیم سے ہے
  20. Umair Maqsood

    احمد ندیم قاسمی دعوت

    دعوت اے میری پرستشوں کے حقدار آ، میں تیرے حسن کو نکھاروں چہرے سے اُڑا کے گردِ ایام آ، میں تیری آرتی اُتاروں! تُو میری زباں بھی، آسماں بھی میں تجھ کو کہاں کہاں پکاروں
Top