غزل
(سید محمد میر سوز دہلوی)
مری جان جاتی ہے یارو سنبھالو
کلیجے میں کانٹا لگا ہے نکالو
نہ بھائی مجھے زندگانی نہ بھائی
مجھے مار ڈالو، مجھے مار ڈالو
خدا کے لیئے اے مرے ہم نشینو
یہ بانکا جو جاتا ہے اس کو بلالو
نہ آوے اگر وہ تمہارے کہے سے
تو منت کرو گھیرے گھیرے بلالو
اگر کچھ خفا ہو کے گالیاں دے...
غزل
(سید محمد میر سوز دہلوی)
آنکھ پھڑکی ہے یار آتا ہے
جان کو بھی قرار آتا ہے
دل بھی پھر آج کچھ دھڑکنے لگا
کوئی تو دل فگار آتا ہے
مجھ سے کہتا ہے سنیو او بدنام
تو یہاں بار بار آتا ہے
تیرے جو دل میں ہے سو کہہ دے صاف
مجھ سے کیا کچھ اُدھار آتا ہے
اب کے آیا تو سب سے کہہ دوں گا
لیجو میرا شکار آتا...
غزل
(سید محمد میر سوز دہلوی)
دل بتوں سے کوئی لگا دیکھے
اس خدائی کا تب مزا دیکھے
کس طرح مارتے ہیں عاشق کو
ایک دن کوئی مار کھا دیکھے
راہ میں کل جو اس نے گھیر لیا
یعنی آنکھیں ذرا ملا دیکھے
مجھ سے شرما کے بولتا ہے کیا
اور جو کوئی آشنا دیکھے
اپنی اس کو خبر نہیں واللہ
سوز کو کوئی جا کے کیا دیکھے
غزل
(سید محمد میر سوز دہلوی)
دل مرا مجھ سے جو ملا دیوے
اس کی سب آرزو خدا دیوے
میں تو قربان اس کے ہو جاؤں
صورت اس کی کوئی دکھا دیوے
پھر جو دل دوں تو مجھ سے لیجے قسم
پر کوئی دل کو اس سے لا دیوے
عشق نے جیسا غم لگایا ہے
عشق کو کوئی غم لگا دیوے
درد نے جیسا دکھ دیا ہے مجھے
اس کی فریاد مرتضیٰ دیوے...
غزل
(سید محمد میر سوز دہلوی)
ہزاروں مار ڈالے اور ہزاروں کو جلایا ہے
تری ان انکھڑیوں کو کس نے یہ جادو سکھایا ہے
مروں میں کس طرح مرنا کوئی مجھ کو سکھا دیوے
اجل شرما کے ٹل جاتی ہے جب سے وہ سمایا ہے
کوئی اب غم نہ کھاؤ خلق میں بےغم رہو یارو
کہ میں نے آپ اس سارے جہاں کے غم کو کھایا ہے
مجھے کیا عشق...
غزل
(سید محمد میر سوز دہلوی)
خدا کو کفر اور اسلام میں دیکھ
عجب جلوہ ہے خاص و عام میں دیکھ
جو کیفیت ہے نرگس کی چمن میں
وہ چشمِ ساقی گلفام میں دیکھ
نظر کر زلف کے حلقے میں اے دل
گل خورشید پھولا شام میں دیکھ
خبر مجھ کو نہیں کچھ مرغ دل کی
تو اے صیاد اپنے دام میں دیکھ
پیالا ہاتھ سے ساقی کے لے سوز...
غزل
(سید محمد میر سوز دہلوی)
ناصح تو کسی شوخ سے دل جا کے لگا دیکھ
میرا بھی کہا مان محبت کا مزا دیکھ
کچھ اور سوال اس کے سوا تجھ سے نہیں ہے
اے بادشہِ حُسن تو سوے فقرا دیکھ
ہر چند میں لائق تو نہیں تیرے کرم کے
لیکن نظرِ لطف سے ٹک آنکھ اُٹھا دیکھ
پچھتائے گا آخر کو مجھے مار کے اے یار
کہنے کو تو ہر...
غزل
(سید محمد میر سوز دہلوی)
سچ کہیو قاصد آتا ہے وہ ماہ
الحمدللہ ، الحمدللہ
ہے دل کو لگتی پر کیوں کے مانوں
کھا جا قسم تو میاں تجھ کو واللہ
بعضوں کا مجھ پر یہ بھی گماں ہے
یعنی بتاں سے چلتا ہے بد راہ
جھوٹے کے منہ پر آگے کہوں کیا
استغفراللہ، استغفراللہ
کل اس طرف سے گزرا ستم گر
میں نے کہا کیوں...
غزل
(سید محمد میر سوز دہلوی)
دل میں دیتا ہوں، تو شتاب نہ کر
جانِ من رحم کر، عتاب نہ کر
چاند سے مکھڑے کو مرے گل رو
غصّہ کھا کھا کے آفتاب نہ کر
ورنہ جل جائے گا جہان تمام
حق کی بستی ہے، بس خراب نہ کر
میں تو حاضر ہوں جو تو فرما دے
غیر کو لطف سے خطاب نہ کر
سوز کا دل میں چھین دیتا ہوں
مفت بر رہ تو...
غزل
(سید محمد میر سوز دہلوی)
جو ہم سے تو ملا کرے گا
بندہ تجھ کو دعا کرے گا
بوسہ تو دے کبھو مری جان
مولا تیرا بھلا کرے گا
ہم تم بیٹھیں گے پاس مل کر
وہ دن بھی کبھو خدا کرے گا
دل تیرے کام کا نہیں تو
بندہ پھر لے کے کیا کرے گا
پچھتائے گا مل کے سوز سے ہاں
ہم کہتے ہیں برا کرے گا
ہے شوخ مزاج سوز...
غزل
(ساغر نظامی)
راتوں کو تصوّر ہے اُن کا اور چُپکے چُپکے رونا ہے
اے صبح کے تارے توہی بتا، انجام مرا کیا ہونا ہے
ان نورس آنکھوں والوں کا کیا ہنسنا ہے، کیا رونا ہے
برسے ہوئے سچّے موتی ہیں، بہتا ہوا خالص سونا ہے
دل کو کھویا، خود بھی کھوئے، دنیا کھوئی، دین بھی کھویا
یہ گم شدگی ہے تو اک دن اے دوست...
غزل
(ڈاکٹر نزہت انجم)
آج دشمن ہے نگہبان، خدا خیر کرے
ہے ہتھیلی پہ مری جان، خدا خیر کرے
دیکھئے حق میرا ملتا ہے برابر کے نہیں
اُس کے ہاتھوں میں ہے میزان، خدا خیر کرے
جو زمانے کو کبھی لوٹ لیا کرتا تھا
وہ بنا بیٹھا ہے سلطان، خدا خیر کرے
سُرخ پھولوں کو مسل دینا ہے فطرت جس کی
ہے وہ گلشن کا نگہبان،...
غزل
(ڈاکٹر نزہت انجم)
جام ایسا تری آنکھوں سے عطا ہوجائے
ہوش موجود رہے اور نشہ ہوجائے
اس طرح میری طرف میرا مسیحا دیکھے
درد دل ہی میں رہے اور دوا ہوجائے
زندگانی کو ملے کوئی ہُنر ایسا بھی
سب میں موجود بھی ہو اور فنا ہوجائے
معجزہ کاش دیکھا دیں یہ نگاہیں میری
لفظ خاموش رہے، بات ادا ہوجائے
اس طرح...
غزل
(ڈاکٹر نزہت انجم)
رسمِ وفا نبھانا تو غیرت کی بات ہے
وہ مجھ کو بھول جائیں یہ حیرت کی بات ہے
سب مجھ کو چاہتے ہیں یہ شہرت کی بات ہے
میں اُس کو چاہتی ہوں یہ قسمت کی بات ہے
اظہارِ عشق کر ہی دیا مجھ سے آپ نے
یہ بھی جناب آپ کی ہمت کی بات ہے
تعریف کررہے ہیں سبھی آج کل میری
اس میں کوئی ضرور سیاست...
غزل
(ریحانہ نواب)
غزل جو میرؔ کی ہم گنگنانے لگتے ہیں
تو اور بھی وہ ہمیں یاد آنے لگتے ہیں
عجیب شوق ہے یہ کیسا ولولہ دل میں
نظر کے ملتے ہی ہم مُسکرانے لگتے ہیں
بہت قریب سے میں نے بھی اُن کو چاہا تھا
تو آج خواب میں آکر منانے لگتے ہیں
وفا کے پھول کی خوشبو ہے کوبکو پھیلی
تمہاری یاد کے موسم سہانے...
غزل
(ریحانہ نواب)
تم سے وابسطہ تھی زندگانی میری
تم گئے لُٹ گئی شادمانی میری
یہ کہاں آگئی ہے کہانی میری
اشک کرنے لگے ترجمانی میری
غم کا احساس بھی دل سے جاتا رہا
کس نے لوٹی ہے یوں شادمانی میری
اب نہ خواہش، نہ حسرت، نہ کوئی خلش
کتنی بےکیف ہے زندگانی میری
مطمئن ہوکے بیٹھیں نہ اہلِ جفا
رنگ لائے...
غزل
(ریحانہ نواب)
کسی سے بات کرنا بولنا اچھا نہیں لگتا
تجھے دیکھا ہے جب سے ، دوسرا اچھا نہیں لگتا
تیری آنکھوں میں جب سے میں نے اپنا عکس دیکھا ہے
میرے چہرے کو کوئی آئینہ اچھا نہیں لگتا
تیرے بارے میں دن بھر سوچتی رہتی ہوں میں لیکن
تیرے بارے میں سب سے پوچھنا اچھا نہیں لگتا
یہاں اہلِ محبت عمر...
غزل
(طارق سبزواری)
مجھ سے ممکن نہیں ایسی کوئی تحریر لکھوں
آنکھ کو قید لکھوں، پاؤں کو زنجیر لکھوں
ہاں یہ تپتا ہوا سورج، یہ پگھلتے ہوئے لوگ
مجھ سے کہتے ہیں کہ میں دھوپ کی تاثیر لکھوں
میں نے کل خواب میں اک پھول کے لب چومیں ہیں
ہو اجازت تو میں اس خواب کی تعبیر لکھوں
غزل
(طارق سبزواری)
ہجر کی آگ میں اک دن، دل یہ کاغذ کا جل جائے گا
اتنی شدّت سے مت یاد آ، ورنہ دم ہی نکل جائے گا
دھوپ کی شدّتوں کا سما، کیا ہمیشہ رہے گا یہاں
کوئی بادل اِدھر آئے گا اور موسم بدل جائے گا
عہدِ نو کی یہ بےچہرگی ختم ہوگی نہ طارق کبھی
اک تیرے بدل جانے سے کیا زمانہ بدل جائے گا
غزل
(ممتاز نسیم ، ہندوستان)
جسے میں نے صبح سمجھ لیا، کہیں یہ بھی شامِ الم نہ ہو
میرے سر کی آپ نے کھائی جو کہیں یہ بھی جھوٹی قسم نہ ہو
وہ جو مسکرائے ہیں بےسبب، یہ کرم بھی اُن کا ستم نہ ہو
میں نے پیار جس کو سمجھ لیا، کہیں یہ بھی میرا بھرم نہ ہو
تو جو حسبِ وعدہ نہ آسکا، تو بہانا بنا ایسا نیا...