غزل
ہمقدم پھر جو یار ہو جائے
ہر فِضا سازگار ہو جائے
گُل کے دیکھے پہ یاد سے اُس کی!
جی عجب بےقرار ہو جائے
اب بھی خواہش، کہ وہ کسی قیمت
ہم خیال ایک بار ہو جائے
حاصلِ دِید سے حصُول کا ایک
بُھوت سر پر سوار ہو جائے
ایسے چہرے نقاب میں ہی بَھلے
جِن کو دیکھو تو پیار ہوجائے
خامشی خُوب یُوں...
غزل
آشنا دست بر دُعا نہ ہُوا
دِل سے میرے ذرا جُدا نہ ہُوا
ذکرِ عِشق اُن سے برمَلا نہ ہُوا
پیار بڑھنے کا سِلسِلہ نہ ہُوا
کیا کہُوں اُن کے عَزْم و وَعدوں کا!
کُچھ بھی قَسموں پہ دَیرپا نہ ہُوا
بَن کے راحت رہے خیالوں میں
بس مِلَن کا ہی راستہ نہ ہُوا
شے مِلی اِس سے، اَور کرنے کی!
ظُلم پر جب بھی...
وزارت برائے ماحولیاتی تبدیلی کی جانب سے ملکی دارالحکومت میں پلاسٹک کی تھیلیوں کی تیاری، تجارت اور فروخت پر عائد حالیہ پابندی جشنِ آزادی کا ایک بڑا ہی خوش آئند تحفہ ہے۔ پابندی کے لفظی و عملی نفاذ سے اسلام آباد میں پلاسٹک آلودگی میں کمی لانے میں زبردست حد تک مدد ملے گی۔
1960ء کی دہائی میں...
ہنسیے کہ کراچی کا مذاق اڑایا گیا ہے!
کراچی والے اکثر اس بات پر افسردہ ہوجاتے ہیں کہ ان کے پاس ساحلِ سمندر کے سوا گھومنے پھرنے کی کوئی قابلِ ذکر جگہیں ہی نہیں ہیں۔ لیکن اس افسردگی کی اصل وجہ یہ ہے کہ یہ شب گرفتہ لوگ اس خفیہ تفریحی مقام سے اب تک بے خبر ہیں جسے جام چکرو کہتے ہیں۔
500 ایکڑ پر محیط...
غزل
ضرُور پُہنچیں گے منزل پہ کوئی راہ تو ہو
جَتن کو اپنی نظر میں ذرا سی چاہ تو ہو
قیاس و خوف کی تادِیب و گوشمالی کو
شُنِید و گُفت نہ جو روز، گاہ گاہ تو ہو
یُوں مُعتَبر نہیں اِلزامِ بیوفائی کُچھ
دِل و نَظر میں تسلّی کو اِک گواہ تو ہو
سِسک کے جینے سے بہتر مُفارقت ہونَصِیب!
سِتم سے اپنوں کے...
غزل
وہ سُکُوت، اپنے میں جو شور دَبا دیتے ہیں
جُوں ہی موقع مِلے طُوفان اُٹھا دیتے ہیں
خواہِشیں دِل کی اِسی ڈر سے دَبا دیتے ہیں
پیار کرنے پہ یہاں لوگ سَزا دیتے ہیں
چارَہ گر طبع کی بِدعَت کو جِلا دیتے ہیں
ٹوٹکا روز کوئی لا کے نیا دیتے ہیں
آشنا کم لَطِیف اِحساسِ محبّت سے نہیں
لیکن اسباب تماشہ...
غزل
لالا کے چشمِ نم میں مِرے خواب تھک گئے
جُھوٹے دِلاسے دے کےسب احباب تھک گئے
یادیں تھیں سَیلِ غم سے وہ پُرآب تھک گئے
رَو رَو کے اُن کے ہجر میں اعصاب تھک گئے
خوش فہمیوں کےڈھوکے ہم اسباب تھک گئے
آنکھوں میں بُن کے روز نئے خواب تھک گئے
جی جاں سے یُوں تھے وصل کو بیتاب تھک گئے
رکھ کر خیالِ خاطر و...
غزل
ہو خیال ایسا جس میں دَم خَم ہو
شاید اُس محوِیّت سے غم کم ہو
پھر بہار آئے میرے کانوں پر!
پھر سے پائل کی اِن میں چھم چھم ہو
اب میسّر کہاں سہولت وہ !
اُن کو دیکھا اور اپنا غم کم ہو
ہاتھ چھوڑے بھی اِک زمانہ ہُوا
اُس کی دُوری کا کچھ تو کم غم ہو
مِلنےآتے بھی ہیں، تو ایسے خلشؔ!
جیسے، دِل اُن...
غزل
شفیق خلشؔ
کُھلے بھی کُچھ، جو تجاہُل سے آشکار کرو!
زمانے بھر کو تجسّس سے بیقرار کرو
لکھا ہے رب نے ہمارے نصیب میں ہی تمھیں
قبول کرکے، محبّت میں تاجدار کرو
نہ ہوگی رغبتِ دِل کم ذرا بھی اِس سے کبھی!
بُرائی ہم سے تُم اُن کی، ہزار بار کرو
یُوں اُن کے کہنے نے چھوڑا نہیں کہیں کا ہَمَیں
مَیں لَوٹ...
غزل
خواہش،حصُولِ یار کا اِک زِینہ ہی تو ہے
سُود و زیاں کا زِیست میں تخمینہ ہی تو ہے
حاصل ہو حُسنِ نسواں کو جس سے غضب وقار
ملبُوس سردیوں کا وہ پشمینہ ہی تو ہے
ایسا نہیں کہ آج ہی آیا ہَمَیں خیال
پانا اُنھیں ہی خواہشِ دیرینہ ہی تو ہے
بڑھ چڑھ کے ہے دباؤ غمِ ہجر کے شُموُل
ڈر ہے کہ پھٹ نہ جائے...
سردی بڑے طمطراق سے آئی تھی، کیسی رعونت سے حکم دیا تھا: خبردار! جو ٹھنڈے پانی کو ہاتھ لگایا۔:terror: جو حکم عالی جاہ۔:tremble:
مجال نہیں تھی ٹھنڈے پانی کی طرف کوئی آنکھ ہی اٹھالے۔ ہر عروج کو زوال ہے، ”سردی کا سورج:coins1:“ بھی ڈھلنے لگا، کل دیکھا پیٹھ پھیرے جارہی تھی۔ اونہہ! یار اب تو گرم پانی کی...
غزل
رغبت ِ دِل کوزمانے سے چُھپایا تھا بہت
لیکن اُس ضبطِ محبّت نے رُلایا تھا بہت
دسترس نے بھی تو مٹّی میں مِلایا تھا بہت
جب تماشا دِلی خواہش نے بنایا تھا بہت
بے بسی نے بھی شب و روز رُلایا تھا بہت
خواہشِ ماہ میں جی اپنا جلایا تھا بہت
کُچھ تو کم مایَگی رکھّے رہی آزردہ ہَمَیں!
کُچھ ہَمَیں اُس کی...
غزل
سبھی سوالوں کے ہم سے جواب ہو نہ سکے
کرم تھے اِتنے زیادہ ، حساب ہو نہ سکے
عَمل سب باعثِ اجر و ثَواب ہو نہ سکے
دَوائے درد و دِلی اِضطراب، ہو نہ سکے
رہے گراں بہت ایّام ِہجر جاں پہ مگر!
اُمیدِ وصل سے حتمی عذاب ہو نہ سکے
بَدل مہک کا تِری، اے ہماری نازوجِگر !
کسی وَسِیلہ سُمن اور گُلاب ہو نہ...
غزل
خواہشِ دل دبائے رکّھا ہے
اُن سے کیا کیا چُھپائے رکّھا ہے
ڈر نے ہَوّا بنائے رکّھا ہے
کہنا کل پر اُٹھائے رکھا ہے
مُضطرب دِل نے آج پہلے سے
کُچھ زیادہ ستائے رکّھا ہے
مِل کے یادوں سے تیری، دِل نے مِرے
اِک قیامت اُٹھائے رکّھا ہے
تیری آمد کے اِشتیاق نے پِھر
دِیدۂ دِل بچھائے رکّھا ہے
از سَرِ...
غزل
دِیدہ دلیری سب سے، کہ اُس کو بُھلادِیا
اَوروں نے جب کہا کبھی، مجھ کو رُلا دِیا
کُچھ روز بڑھ رہا تھا مُقابل جو لانے کو!
جذبہ وہ دِل کا مَیں نے تَھپک کر سُلادِیا
تصدیقِ بدگمانی کو باقی رہا نہ کُچھ
ہر بات کا جواب جب اُس نے تُلا دِیا
تشہیر میں کسر کوئی قاصِد نے چھوڑی کب
خط میرے نام لکھ کے جب...
غزل
تیری نظروں سے اُلجھ جانے کو جی چاہتا ہے
پِھر وہ اُلفت بھرے پیمانے کو جی چاہتا ہے
تیرے پہلُو میں دَبک جانے کو جی چاہتا ہے
غم سے کُچھ دیر نِکل آنے کو جی چاہتا ہے
دِل میں ڈر سے دَبی اِک پیار کی چنگاری کو
دے ہَوا، شعلہ سا بھڑکانے کو جی چاہتا ہے
جاں بچانے ہی ہم محفوظ مقام آئے تھے!
پھر مُصیبت...
غزل
اگر نِکلا کبھی گھر سے، تو اپنے ہونٹ سی نِکلا
بُرا دیکھے پہ کہنا کیا مَیں غصّہ اپنا پی نِکلا
بڑھانا عِشق میں اُس کے قدم بھی پَس رَوِی نِکلا
کہ دل برعکس میرے، پیار سے اُس کا بَری نِکلا
محبّت وصل کی خواہش سے ہٹ کر کُچھ نہ تھی ہر گز
معزّز ہم جسے سمجھے، وہ ادنٰی آدمی نِکلا
تصوّر نے...
غزل
(افروژ رضوی)
عشق ہو جاؤں پیار ہو جاؤں
میں جو خوشبوئے یار ہو جاؤں
جب بھی نکلوں میں ڈھونڈ نے اس کو
دھول مٹی غبار ہو جاؤں
اس کے وعدے کا اعتبار کروں
پھر شب انتظار ہو جاؤں
اوڑھ لوں اس کی یاد کی چادر
اور خود پر نثار ہو جاؤں
میں ترا موسم خزاں پہنوں
اور فصل بہار ہو جاؤں
ایک شب اس کو...
غزل
دِل بھی بَلیَوں اُچھال سکتا ہے
جو تحیّر میں ڈال سکتا ہے
کیا تخیّل نہ ڈھال سکتا ہے
مفت آزار پال سکتا ہے
خود کو بانہوں میں ڈال کر میرے
اب بھی غم سارے ٹال سکتا ہے
کب گُماں تھا کسی بھی بات پہ یُوں
اپنی عزّت اُچھال سکتا ہے
جب ہو لِکّھا یُوں ہی مُقدّر کا!
تب اُسے کون ٹال سکتا ہے
ذہن، غم دِل...