ماہرؔ القادری
غزل
حُسن کے ناز و ادا کی شرح فرماتا ہُوں میں
شعر کیا کہتا ہُوں ماہرؔ! پُھول برساتا ہُوں میں
تشنگی اِس حد پہ لے آئی ہے، شرماتا ہُوں میں
آج پہلی بار، ساقی! ہاتھ پھیلاتا ہُوں میں
شوق و مستی میں کہاں کا ضبط، کیسی احتیاط
اِن حدوں سے تو بہت آگے نِکل جاتا ہُوں میں
عاشقی سب سے بڑا ہے...
میئر کراچی وسیم اختر نے کہا ہے کہ کراچی کو دوکروڑ درختوں کی کمی کا سامنا ہے، کے ایم سی کے زیراہتمام شجر کاری مہم شروع کی گئی ہے تاکہ شہرکو ایک اچھا ماحول فراہم کیا جاسکے، ہر ہفتے مختلف علاقوں میں جا کر خود شجر کاری مہم میں حصہ لے رہے ہیں اور شہریوں سے بھی درخواست کرتے ہیں کہ وہ کم از کم ایک پودا...
سندھ حکومت کی دس لاکھ تمر کے درخت کاشت کر کے نیا عالمی ریکارڈ بنانے کی کوشش
پاکستان کے صوبہ سندھ کی حکومت کی جانب سے ایک روز میں زیادہ سے زیادہ تمر (یعنی مینگروو) کے پودے لگانے کے لیے ساحلی علاقے کھارو چاھن میں شجر کاری جاری ہے جہاں وہ دس لاکھ پودے لگا کر گنیز بک آف ریکارڈ میں اپنا ہی ریکارڈ...
غزل
تھکتے نہیں ہو آنکھوں کی آبِ رَواں سے تم
مر کھپ چُکو بھی، ذات میں درد ِنہاں سے تم
وابستہ اورہوگے غمِ بے کراں سے تم
خود میں دبائے درد اور آہ وفُغاں سے تم
آیا خیال جب بھی، مُسلسل ہی آیا ہے!
کب کم رہے ہو یاد میں اِک کارواں سے تم
جب ہٹ سکے نہ راہ سے، رستہ بدل چَلو
کیونکر...
غزل
ہَوا چلی تھی کُچھ ایسی، بِکھر گئے ہوتے
رَگوں میں خُون نہ ہوتا تو مر گئے ہوتے
یہ سرد رات، یہ آوارگی، یہ نیند کا بَوجھ
ہم اپنے شہر میں ہوتے، تو گھر گئے ہوتے
نئے شعوُر کو جِن کا شِکار ہونا تھا
وہ حادثے بھی ہَمَیں پر گُزر گئے ہوتے
ہمی نے رَوک لِئے سر یہ تیشۂ اِلزام
وگرنہ شہر میں کِس کِس کے سر...
غزل
(سُرُور بارہ بنکوی)
اے جنوں کچھ تو کُھلے آخر میں کس منزل میں ہوں
ہوں جوارِ یار میں یا کوچۂ قاتل میں ہوں
پا بہ جولاں اپنے شانوں پر لیے اپنی صلیب
میں سفیرِ حق ہوں لیکن نرغۂ باطل میں ہوں
جشنِ فردا کے تصور سے لہو گردش میں ہے
حال میں ہوں اور زندہ اپنے مستقبل میں ہوں
دم بخود ہوں اب سرِ...
غزل
(سُرُور بارہ بنکوی)
تو عُروسِ شامِ خیال بھی تو جمالِ روئے سحر بھی ہے
یہ ضرور ہے کہ بہ ایں ہمہ مرا اہتمام نظر بھی ہے
نہ ہو مضمحل مرے ہم سفر تجھے شاید اس کی نہیں خبر
انہیں ظلمتوں ہی کے دوش پر ابھی کاروان سحر بھی ہے
یہ مرا نصیب ہے ہم نشیں سر راہ بھی نہ ملے کہیں
وہی مرا جادۂ جستجو وہی ان کی...
غزل
(سُرُور بارہ بنکوی)
فصلِ گُل کیا کر گئی آشفتہ سامانوں کے ساتھ
ہاتھ ہیں الجھے ہوئے اب تک گریبانوں کے ساتھ
تیرے مے خانوں کی اک لغزش کا حاصل کچھ نہ پوچھ
زندگی ہے آج تک گردش میں پیمانوں کے ساتھ
دیکھنا ہے تا بہ منزل ہم سفر رہتا ہے کون
یوں تو عالم چل پڑا ہے آج دیوانوں کے ساتھ
ان حسیں...
غزل
(محبوب خزاں)
جنوں سے کھیلتے ہیں آگہی سے کھیلتے ہیں
یہاں تو اہل سخن آدمی سے کھیلتے ہیں
نگار مے کدہ سب سے زیادہ قابل رحم
وہ تشنہ کام ہیں جو تشنگی سے کھیلتے ہیں
تمام عمر یہ افسردگان محفل گل
کلی کو چھیڑتے ہیں بے کلی سے کھیلتے ہیں
فراز عشق نشیب جہاں سے پہلے تھا
کسی سے کھیل چکے ہیں کسی...
غزل
(شہریار)
دیارِ دل نہ رہا بزمِ دوستاں نہ رہی
اماں کی کوئی جگہ زیرِ آسماں نہ رہی
رواں ہیں آج بھی رگ رگ میں خون کی موجیں
مگر وہ ایک خلش وہ متاعِ جاں نہ رہی
لڑیں غموں کے اندھیروں سے کس کی خاطر ہم
کوئی کرن بھی تو اس دل میں ضو فشاں نہ رہی
میں اس کو دیکھ کے آنکھوں کا نور کھو بیٹھا
یہ...
غزل
(شہریار)
جہاں میں ہونے کو اے دوست یوں تو سب ہوگا
ترے لبوں پہ مرے لب ہوں ایسا کب ہوگا
اسی امید پہ کب سے دھڑک رہا ہے دل
ترے حضور کسی روز یہ طلب ہوگا
مکاں تو ہوں گے مکینوں سے سب مگر خالی
یہاں بھی دیکھوں تماشا یہ ایک شب ہوگا
کوئی نہیں ہے جو بتلائے میرے لوگوں کو
ہوا کے رخ کے بدلنے سے...
غزل
(کفیل آزر امروہوی)
یہ حادثہ تو ہوا ہی نہیں ہے تیرے بعد
غزل کسی کو کہا ہی نہیں ہے تیرے بعد
ہے پر سکون سمندر کچھ اس طرح دل کا
کہ جیسے چاند کھلا ہی نہیں ہے تیرے بعد
مہکتی رات سے دل سے قلم سے کاغذ سے
کسی سے ربط رکھا ہی نہیں ہے تیرے بعد
خیال خواب فسانے کہانیاں تھیں مگر
وہ خط تجھے بھی...
غزل
(کفیل آزر امروہوی)
اس کی آنکھوں میں اتر جانے کو جی چاہتا ہے
شام ہوتی ہے تو گھر جانے کو جی چاہتا ہے
کسی کم ظرف کو با ظرف اگر کہنا پڑے
ایسے جینے سے تو مر جانے کو جی چاہتا ہے
ایک اک بات میں سچائی ہے اس کی لیکن
اپنے وعدوں سے مکر جانے کو جی چاہتا ہے
قرض ٹوٹے ہوئے خوابوں کا ادا ہو جائے...
پاکستان اور ویسٹ انڈیز کے درمیان تین میچز پر مشتمل ٹی ٹوئنٹی سیریز یکم اپریل سے نیشنل اسٹیڈیم کراچی میں ہوگی-
سیریز کے اسکواڈ کا اعلان کر دیا گیا ہے-
میچز 1،2،3 اپریل کو کھیلے جائیں گے-
غزل
دِل میں میرے نہ جھانکتی تھی کوئی
تھا سبب کچھ، کہ جھانپتی تھی کوئی
خواہشِ دِل جو بھانپتی تھی کوئی
ڈر سے لغزِش کے کانپتی تھی کوئی
دِل کی ہر بات پر مجھے اکثر
تیز لہجے میں ڈانٹتی تھی کوئی
لمبی چُٹیا کا شوق تھا اِتنا
بال ہر روز ناپتی تھی کوئی
یاد اُن آنکھوں سے میکشی بھی رہی
جن کو ہاتھوں سے...
غزل
دِل کی کہہ د ُوں مجال بھی تو نہیں
اس پہ حاصل کمال بھی تو نہیں
جس سے دِل اُس کا رام ہوجائے
ہم میں ایسا کمال بھی تو نہیں
خاطرِ ماہ و سال ہو کیونکر
کوئی پُرسانِ حال بھی تو نہیں
جس سے سجتے تھے خواب آنکھوں میں
اب وہ دِل کا کمال بھی تو نہیں
کیسے مایوسیاں نہ گھر کرلیں
دِل کا وہ اِستِعمال بھی...
غزل
حیات و ذات پر فُرقت کے غم برباد بھی ہونگے
کبھی حاصل رہی قُربت سے ہم پِھر شاد بھی ہونگے
ذرا بھی اِحتِمال اِس کا نہ تھا پردیس آنے تک!
کہ دُوری سے تِری، ہم اِس قدر ناشاد بھی ہونگے
بظاہر جو، نظر آئیں نہ ہم سے آشنا بالکل
ضرُور اُن کو کئی قصّے پُرانے یاد بھی ہونگے
شُبہ تک تھا نہیں ترکِ...
غزل
نظر سے پل بھر اُتر وہ جائے تو نیند آئے
شبِ قیامت نہ آزمائے تو نیند آئے
چّھٹیں جو سر سے دُکھوں کے سائے تو نیند آئے
خبر کہِیں سے جو اُن کی آئے تو نیند آئے
دماغ و دِل کو کبھی میسّر سکون ہو جب !
جُدائی اُس کی نہ کُچھ ستائے تو نیند آئے
خیال اُس کا، ہو کروَٹوں کا سبب اگرچہ
اُمید ملنے کی جب بھی...
غزل
(کمار پاشی)
گھیرا ڈالے ہوئے ہے دشمن بچنے کے آثار کہاں
خالی ہاتھ کھڑے ہو پاشیؔ رکھ آئے تلوار کہاں
کیوں لوگوں سے مہر و وفا کی آس لگائے بیٹھے ہو
جھوٹ کے اس مکروہ نگر میں لوگوں کا کردار کہاں
کیا حسرت سے دیکھ رہے ہیں ہمیں یہ جگ مگ سے ساحل
ہائے ہمارے ہاتھوں سے بھی چھوٹے ہیں پتوار کہاں
ختم...
غزل
کب زیست منحرف تھی یوُں اپنے مدار سے
وابستہ اِک اُمید نہ جانِ بہار سے
بھاگ آئے دُور دیس ہم اپنے دِیار سے
باقی نہ کچھ کسی پہ رہے اعتبار سے
مطلق ہماری ذات پہ راغب ہی جو نہ ہوں!
کیوں مانگتے ہیں ہم اُنھیں پروردگار سے
خواہش ہماری کوئی بھی پُوری نہیں ہُوئی
یہ تک کہ کاش مر بھی چُکیں ایک بار سے...