غزل
کہو تو ہم سے کہ آخر ہمارے کون ہو تم
دل و دماغ ہیں تابع تمھارے، کون ہو تم
جو آکے بیٹھ گئے ہو مکین و مالک سا
دل و جگر میں محبت اُتارے کون ہو تم
خیال و خواب میں خوش کن جمالِ خُوب لیے
بسے ہو زیست کے بن کر سہارے کون ہو تم
تمھاری ذات سے منسُوب و منسلک سے رہیں
اُمید و بِیم کے سارے اِشارے کون ہو...
غزل
چمن دہل گیا موسم پہ کچھ اثر بھی نہ تھا
کٹے وہ شاخ سے، جن کو شعورِ پر بھی نہ تھا
نمودِ ضُو کو ہی، گر زندگی کہا جائے !
تو بے چراغ تو بستی میں ایک گھر بھی نہ تھا
یہ قافلے تو یہیں منسلک ہُوئے ہم سے
چلے تھے موج میں، تو ایک ہمسفر بھی نہ تھا
سوادِ شہر سے ہم دشت میں بھی ہو آئے
سلامتی کا...
غزل
(آزاد گلاٹی)
ڈوب کر خود میں کبھی یوں بے کراں ہو جاؤں گا
ایک دن میں بھی زمیں پر آسماں ہو جاؤں گا
ریزہ ریزہ ڈھلتا جاتا ہوں میں حرف و صوت میں
رفتہ رفتہ اک نہ اک دن میں بیاں ہو جاؤں گا
تم بلاؤ گے تو آئے گی صدائے بازگشت
وہ بھی دن آئے گا جب سونا مکاں ہو جاؤں گا
تم ہٹا لو اپنے احسانات کی...
غزل
(آزاد گلاٹی)
ایک ہنگامہ بپا ہے مجھ میں
کوئی تو مجھ سے بڑا ہے مجھ میں
انکساری مرا شیوہ ہے مگر
اک ذرا زعم انا ہے مجھ میں
مجھ سے وہ کیسے بڑا ہے کہیے
جب خدا میرا چھپا ہے مجھ میں
میں نہیں ہوں تو مرا کون ہے یہ
اتنے جنموں جو رہا ہے مجھ میں
وہی لمحے تو غزل چھیڑتے ہیں
جن کی گم گشتہ صدا...
غزل
(کمار پاشی)
ایک کہانی ختم ہوئی ہے ایک کہانی باقی ہے
میں بے شک مسمار ہوں لیکن میرا ثانی باقی ہے
دشت جنوں کی خاک اڑانے والوں کی ہمت دیکھو
ٹوٹ چکے ہیں اندر سے لیکن من مانی باقی ہے
ہاتھ مرے پتوار بنے ہیں اور لہریں کشتی میری
زور ہوا کا قائم ہے دریا کی روانی باقی ہے
گاہے گاہے اب بھی چلے...
غزل
اِک بھی الزام بدگماں پہ نہیں
بس کرم رب کا بے اماں پہ نہیں
ذکر لانا ہی اب زباں پہ نہیں
فیصلہ سُود اور زیاں پہ نہیں
دسترس یوُں بھی داستاں پہ نہیں
اِختیار اُن کے رازداں پہ نہیں
کیا جوانی تھی شہر بھر سے لئے
اِک ہجوم اب جو آستاں پہ نہیں
کچھ تو دِل اپنا فیصلوں کا مجاز !
کچھ بھروسہ بھی آسماں...
غزل
تقابل کسی کا ہو کیا نازبُو سے
نہیں اِک مشابہ مری خُوبرُو سے
کہاں باز آئے ہم اِک آرزو سے !
نکھرتے مہکتے ترے رنگ و بُو سے
ہُوا کچھ نہ حاصل تری جستجو سے
رہے پیرہن تر ہم اپنے لہو سے
اِطاعت، بغاوت میں ڈھل جائے اکثر
نتیجہ نہ حاصل ہو جب گفتگو سے
پیامِ بہم روشنی کی کرن ہے!
ہٹے نا اُمیدی بھی...
غزل
(سید عارف)
لغزشوں سے ماورا تو بھی نہیں میں بھی نہیں
دونوں انساں ہیں خدا تو بھی نہیں میں بھی نہیں
تو مجھے اور میں تجھے الزام دیتا ہوں مگر
اپنے اندر جھانکتا تو بھی نہیں میں بھی نہیں
مصلحت نے کر دیا دونوں میں پیدا اختلاف
ورنہ فطرت کا برا تو بھی نہیں میں بھی نہیں
چاہتے دونوں بہت اک...
غزل
(جگر مُراد آبادی)
نظر ملا کے مرے پاس آ کے لوٹ لیا
نظر ہٹی تھی کہ پھر مسکرا کے لوٹ لیا
شکست حسن کا جلوہ دکھا کے لوٹ لیا
نگاہ نیچی کئے سر جھکا کے لوٹ لیا
دہائی ہے مرے اللہ کی دہائی ہے
کسی نے مجھ سے بھی مجھ کو چھپا کے لوٹ لیا
سلام اس پہ کہ جس نے اٹھا کے پردۂ دل
مجھی میں رہ کے مجھی میں...
غزل
(عبد الحمید عدم)
مطلب معاملات کا کچھ پا گیا ہوں میں
ہنس کر فریب چشم کرم کھا گیا ہوں میں
بس انتہا ہے چھوڑیئے بس رہنے دیجئے
خود اپنے اعتماد سے شرما گیا ہوں میں
ساقی ذرا نگاہ ملا کر تو دیکھنا
کمبخت ہوش میں تو نہیں آ گیا ہوں میں
شاید مجھے نکال کے پچھتا رہے ہوں آپ
محفل میں اس خیال سے پھر آ...
غزل
(وسیم بریلوی)
اپنے ہر ہر لفظ کا خود آئینہ ہو جاؤں گا
اس کو چھوٹا کہہ کے میں کیسے بڑا ہو جاؤں گا
تم گرانے میں لگے تھے تم نے سوچا ہی نہیں
میں گرا تو مسئلہ بن کر کھڑا ہو جاؤں گا
مجھ کو چلنے دو اکیلا ہے ابھی میرا سفر
راستہ روکا گیا تو قافلہ ہو جاؤں گا
ساری دنیا کی نظر میں ہے مرا عہد وفا...
پیدا ہوں حُسن ہی سے سب اجزائے زندگی
دھڑکیں دِلوں میں شوق و تمنائے زندگی
مشکل ہی میں پڑی رہے ہر جائے زندگی
جدوجہد میں ڈر ہے نہ کٹ جائے زندگی
پیری میں حل ہو خاک کہ طاقت نہیں رہی!
ٹھہرا نہ سہل مجھ پہ مُعمّائے زندگی
فرطِ خوشی کا جن سے کہ احساس دِل کو ہو
ایسے تمام چہرے ہیں گُلہائے زندگی
وہ حُسن...
غزل
کم سِتم اُن پہ جب شباب آیا
ذوق و شوق اپنے پر عتاب آیا
کیا کہیں کم نہ کچھ عذاب آیا
درمیاں جب سے ہے حجاب آیا
تب سِتم اُن کے کب شمُار میں تھے
پیار جب اُن پہ بے حساب آیا
منتظر ہم تھے گفتگو کے ، مگر
ساتھ لے کر وہ اجتناب آیا
خُونِ دل سے لکھا جو مَیں نے اُسے!
مثبت اُس کا کہاں...
غزل
(انور شعور)
فرشتوں سے بھی اچھا میں برا ہونے سے پہلے تھا
وہ مجھ سے انتہائی خوش خفا ہونے سے پہلے تھا
کیا کرتے تھے باتیں زندگی بھر ساتھ دینے کی
مگر یہ حوصلہ ہم میں جدا ہونے سے پہلے تھا
حقیقت سے خیال اچھا ہے بیداری سے خواب اچھا
تصور میں وہ کیسا سامنا ہونے سے پہلے تھا
اگر معدوم کو موجود...
سلام
تا حشر ہوگئی وہ عبادت حُسیؑن کی
بے مثل راہ ِ حق میں شہادت حُسیؑن کی
برکت غمِ حُسیؑن میں روزافزوں یوُں نہیں
مقصد سے کی خُدا نے وِلادت حُسیؑن کی
تقلِید پروَرِش میں تھی ماؤں کی کُچھ نہ کم
آئی کہاں کسی میں سعادت حُسیؑن کی
عباسؑ جاں نِثار، نہ آئے َپلٹ کے جب!
ناناؐ نے غم میں کی تھی عیادت...
غزل
(ندا فاضلی)
اس کے دشمن ہیں بہت آدمی اچھا ہوگا
وہ بھی میری ہی طرح شہر میں تنہا ہوگا
اتنا سچ بول کہ ہونٹوں کا تبسم نہ بجھے
روشنی ختم نہ کر آگے اندھیرا ہوگا
پیاس جس نہر سے ٹکرائی وہ بنجر نکلی
جس کو پیچھے کہیں چھوڑ آئے وہ دریا ہوگا
مرے بارے میں کوئی رائے تو ہوگی اس کی
اس نے مجھ کو بھی...
غزل
شیوۂ یار ہے اب دِل کو ستائے رکھنا
چاند چہرہ مِری نظروں سے چھپائے رکھنا
اُس کی تصوِیر کو سینے سے لگائے رکھنا
غمزدہ دِل کو کسی طور لُبھائے رکھنا
چاندنی راتوں میں یاد آئے ضرُور اب اُن کا
اِک قیامت سی، سرِ بام اُٹھائے رکھنا
ولوَلے ہیں، نہ کِرن ہی کوئی اُمّید کی ہے !
اِس بُجھے دِل میں...
غزل
(جلیلؔ مانک پوری)
سخت نازک مزاج دلبر تھا
خیر گزری کہ دل بھی پتھر تھا
مختصر حال زندگی یہ ہے
لاکھ سودا تھا اور اک سر تھا
ان کی رخصت کا دن تو یاد نہیں
یہ سمجھئے کہ روز محشر تھا
خاک نبھتی مری ترے دل میں
ایک شیشہ تھا ایک پتھر تھا
تم مرے گھر جو آنے والے تھے
کھولے آغوش صبح تک در تھا...
عِشق کی دُھول میں جو اَٹ جائے
دو جہاں میں وہ جیسے بٹ جائے
ہو زباں کو بس ایک نام کا وِرد
یوں کسی کو نہ کوئی رٹ جا ئے
رات کب عافیت سے ٹلتی ہے
مُضطرب دِن جو ہم سے کٹ جائے
خوش خیالی کہَیں وہ ساتھ اپنا
ابرِ اُمِّید اب تو چَھٹ جائے
پائی مُدّت سے ہےنہ خیر و خبر
ذہنِ مرکوُز کُچھ تو بٹ جائے
تب...