ترے دل میں بھی ہیں کدورتیں ترے لب پہ بھی ہیں شکایتیں
مرے دوستوں کی نوازشیں مرے دشمنوں کی عنایتیں
یہ ہے طرفہ صورت دوستی کہ نگاہ دل ہمہ برف ہیں
نہ وہ بادہ ہے نہ وہ ظرف ہیں نہ وہ حرف ہیں نہ حکایتیں
یہی ربط و ضبط غم و الم تری رائے میں کبھی خوب تھے
وہ یہی تو میرے عیوب تھے جنہیں دی گئی تھیں...
محبت ناز ہے یہ ناز کب ہر دل سے اٹھتا ہے
یہ وہ سنگِ گراں ہے جو بڑی مشکل سے اٹھتا ہے
لگی میں عشق کی ، شعلہ کوئی مشکل سے اٹھتا ہے
جلن رہتی ہے آنکھوں میں ، دھواں سا دل میں اٹھتا ہے
تری نظروں سے گِر کر جب کوئی محفل سے اٹھتا ہے
بڑی دِقّت ، بڑی زحمت ، بڑی مشکل سے اٹھتا ہے
جو آ کر بیٹھتا ہے ، بیٹھ...
پوچھتے کیا ہو دل کی حالت کا؟
درد ہے، درد بھی قیامت کا
یار، نشتر تو سب کے ہاتھ میں ہے
کوئی ماہر بھی ہے جراحت کا؟
اک نظر کیا اٹھی، کہ اس دل پر
آج تک بوجھ ہے مروّت کا
دل نے کیا سوچ کر کیا آخر
فیصلہ عقل کی حمایت کا
کوئی مجھ سے مکالمہ بھی کرے
میں بھی کردار ہوں حکایت کا
آپ سے نبھ نہیں رہی اِس کی؟...
میری ایک چھوٹی جیہی پنجابی نظم
لمّی اُڈیک
دل دی سخت زمین اندر
خورے کنّے ورھیاں توں
کئی قسماں دیاں سدھراں دبیاں
اکّو سٹ اُڈیکن لگیاں
کتّھے وجّے، کجھ تے پُھٹّے
28 جنوری 2019
نیرنگ خیال
ہم عاشق فاسق تھے ہم صوفی صافی ہیں
پی لیں جو کہیں اب بھی در خورد معافی ہیں
بیگار بھی ململ بھی گرمی میں شب فرقت
کام آئیں گے جاڑے میں فردیں جو لحافی ہیں
عقلوں کو بنا دے گا، دیوانہ جمال ان کا
چھا جائیں گی ہوشوں پر آنکھیں وہ غلافی ہیں
ہم شکر ستم کرتے ، کیوں شکوہ کیا ان سے
آئین محبت کے شیوے یہ...
کوئی فقیر یہ اے کاشکے دعا کرتا
کہ مجھ کو اس کی گلی کا خدا گدا کرتا
کبھو جو آن کے ہم سے بھی تو ملا کرتا
تو تیرے جی میں مخالف نہ اتنی جا کرتا
چمن میں پھول گل اب کے ہزار رنگ کھلے
دماغ کاش کہ اپنا بھی ٹک وفا کرتا
فقیر بستی میں تھا تو ترا زیاں کیا تھا
کبھو جو آن نکلتا کوئی صدا کرتا
علاج عشق نے...
ظریفانہ غزل از حیوانِ ظریف
اُڑاتے روز تھے انڈے پراٹھے
پر اب کھاتے ہیں ہر سنڈے پراٹھے
یہاں ہم کھا رہے ہیں چائے روٹی
وہاں کھاتے ہیں مسٹنڈے پراٹھے
ترستے لقمہ ٴ تر کو ہیں اب تو
وہ کیا دن تھے کہ تھے فن ڈے، پراٹھے
کہا بیگم رعایت ایک دن کی
پکا لیجے گا اِس منڈے پراٹھے
کہا بیگم نے ہے پرہیز بہتر...
ٹھوکر لگی جو آیا کسی کی نگاہ میں
کنکر پڑا ہو تھا کہیں کوئی راہ میں
قتلِ انا کے راستے دشوار تھے مگر
ان سے بھی ہم گزر ہی گئے تیری چاہ میں
وہ اور ہی کسی کے ستم کی تھی داستاں
تم ہم سے ہوگئے ہو خفا خوامخواہ میں
سر تم نے اس کے در پہ جھکایا تھا کس لیے
ہے فرق قتل گاہ میں اور سجدہ گاہ میں
اس نے بھی...
سبب کھلا یہ ہمیں اُن کے منہ چھپانے کا
اڑا نہ لے کوئی انداز مسکرانے کا
طریق خوب ہے یہ عمر کے بڑھانے کا
کہ منتظر رہوں تا حشر اُن کے آنے کا
چڑھاؤ پھول میری قبر پر جو آئے ہو
کہ اب زمانہ گیا تیوری چڑھانے کا
وہ عذرِ جرم کو بدتر گناہ سے سمجھے
کوئی محل نہ رہا اب قسم کے کھانے کا
بہ تنگ آکے جو کی میں...
روز دل میں حسرتوں کو جلتا بجھتا دیکھ کر
تھک چکا ہوں زندگی کا یہ رویہ دیکھ کر
ریزہ ریزہ کر دیا جس نے مرے احساس کو
کس قدر حیران ہے وہ مجھ کو یکجا دیکھ کر
کیا یہی محدود پیکر ہی حقیقت ہے مری
سوچتا ہوں دن ڈھلے اب اپنا سایہ دیکھ کر
کچھ طلب میں بھی اضافہ کرتی ہیں محرومیاں
پیاس کا احساس بڑھ...
جس دل میں صبر، ضبط، اطاعت، وفا نہیں
وہ گھر ہے جو مکین کے لائق بنا نہیں
ایسا مرض نہیں کوئی جس کی شفا نہیں
درماں ہی وجہِ درد اگر ہو دوا نہیں
کہنے کو آدمی سے بڑے آدمی بہت
سوچو تو آدمی سے کوئی بھی بڑا نہیں
کس نے کہا کہ عشق ہے ہر درد کی دوا
آبِ بقا یہ ہو تو ہو آبِ شفا نہیں
مانا کہ مجھ میں بھی...
غزل
عادتاً دیکھو تو دیکھو ہر سویرے سبز باغ
بقعہء اُمید میں ڈالیں نہ ڈیرے سبز باغ
اے مرے ہمدم اُلجھتا کیوں ہے تو مجھ سے بھلا
مختلف ہیں بس ذرا سے تیرے میرے سبز باغ
ہاتھ نیچے کرفسوں گر، مت ہمیں پاگل بنا
ہم نے پہلے دیکھ رکھے ہیں یہ تیرے سبز باغ
میں بھی ہوں محوِ تغافل، تو بھی ہے غفلت گزیں
میرے...
بسم اللہ الرحمن الرحیم
بابا فرید کی منتخب پنجابی شاعری:
کوئی بن گیا رونق پکھیاں دی، کوئی چھوڑ کے شیش محل چلیا
کوئی پلیا ناز تے نخریاں وچ، کوئی ریت گرم تے تھل چلیا
کوئی بُھل گیا مقصد آون دا، کوئی کر کے مقصد حل چلیا
ایتھے ہر کوئی یار مسافر اے، کوئی اج چلیا کوئی کل چلیا
غزل
ہم یوں تمہارے پاؤں پہ اے جانِ جاں گرے
جیسے کسی غریب کا خستہ مکاں گرے
مانا کہ اے ہوا تُو نہیں گن سکی مگر
دیکھا تو ہوگا پات کہاں سے کہاں گرے
پہلے ہی زخم زخم ہے دھرتی کا انگ انگ
پھر کیا ضرور ہے کہ یہاں آسماں گرے
یُوں صحنِ تیرگی میں پڑی چاند کی کرن
جیسے خموش جھیل میں سنگِ گراں گرے
ہم قیسؔ ،...
غزل
(سدرشن فاخر)
اگر ہم کہیں اور وہ مسکرا دیں
ہم ان کے لیے زندگانی لٹا دیں
ہر اک موڑ پر ہم غموں کو سزا دیں
چلو زندگی کو محبت بنا دیں
اگر خود کو بھولے تو کچھ بھی نہ بھولے
کہ چاہت میں ان کی خدا کو بھلا دیں
کبھی غم کی آندھی جنہیں چھو نہ پائے
وفاؤں کے ہم وہ نشیمن بنا دیں
قیامت کے دیوانے...
فکر تعمیرِ آشیاں بھی ہے
خوفِ بے مہرئ خزاں بھی ہے
خاک بھی اڑ رہی ہے رستوں میں
آمدِ صبح کا سماں بھی ہے
رنگ بھی اڑ رہا ہے پھولوں کا
غنچہ غنچہ شرر فشاں بھی ہے
اوس بھی ہے کہیں کہیں لرزاں
بزمِ انجم دھواں دھواں بھی ہے
کچھ تو موسم بھی ہے خیال انگیز
کچھ طبیعت مری رواں بھی ہے
کچھ ترا حسن بھی ہے ہوش...
دیواریں چھوٹی ہوتی تھیں لیکن پردہ ہوتا تھا
تالے کی ایجاد سے پہلے صرف بھروسہ ہوتا تھا
کبھی کبھی آتی تھی پہلے وصل کی لذت اندر تک
بارش ترچھی پڑتی تھی تو کمرہ گیلا ہوتا تھا
شکر کرو تم اس بستی میں بھی اسکول کھلا ورنہ
مر جانے کے بعد کسی کا سپنا پورا ہوتا تھا
جب تک ماتھا چوم کے رخصت کرنے والی...