تم آ گئے ہو تو کیوں اِنتظارِ شام کریں
کہو تو کیوں نہ ابھی سے کچھ اہتمام کریں
خلوص و مہر و وفا لوگ کر چکے ہیں بہت
مرے خیال میں اب اور کوئی کام کریں
یہ خاص وعام کی بیکار گفتگو کب تک!
قبوُل کیجیے، جو فیصلہ عوام کریں
ہر آدمی نہیں شائستۂ رموزِ سُخن
وہ کم سُخن ہو مخاطب تو ہم کلام کریں
جُدا ہوئے...
جسے خوُد سے ہی نہیں فرُصتیں، جسے دھیان اپنے جمال کا
اُسے کیا خبر مرے شوق کی، اُسے کیا پتا مرے حال کا
مرے کوچہ گرد نے لوٹ کر مرے دل پہ اشک گرا دیا
اُسے ایک پل نے مٹا دیا ، جو حساب تھا مہ و سال کا
تجھے شوقِ دیدِ غروب ہے،مری آنکھ دیکھ بھری ہوئی
کہیں تیرے ہجر کی تیرگی، کہیں رنگ میرے ملال کا
شبِ...
سب نے خود سے ہی اِک حکایت کی
کچھ حقیقت نہیں محبت کی
بھیڑ میں راستہ بناتے ہوئے
لہر اُٹّھی بدن میں لذّت کی
دیکھ کر بھی اُسے نہیں دیکھا
آج ہم نے کمال غفلت کی
اب کوئی کیسے اختلاف کرے
اپنی ہر بات تونے آیت کی
خوُن کو دیکھ کر یہ سوچتا ہوں
کیا ضرُورت تھی اِس وراثت کی
اب محبت میں دل نہیں لگتا
اب...
اُس کی آنکھیں نہ پا سکا میں بھی
وہ بھی دُنیا میں کھو گیا، میں بھی
میری تصویر چوُمنے والی
سامنے ہوں کھڑا ہوا میں بھی
وہ بھی اُلجھی رہی سوالوں میں
ایک رش میں پھنسا رہا میں بھی
وہ اچانک لپٹ گئی مجھ سے
کتنا نادانِ عشق تھا میں بھی
لَمس کی لو میں تَپ رہی تھی وہ
جسم کے جل میں جل بجھا میں بھی...
ہم زبان میرے تھے ، اُن کے دل مگر اچھے نہ تھے
منزلیں اچھی تھیں، میرے ہم سفر اچھے نہ تھے
جو خبر پہنچی یہاں تک اصل صورت میں نہ تھی
تھی خبر اچھی مگر اہل خبر اچھے نہ تھے
بستیوں کی زندگی میں بے زری کا ظلم تھا
لوگ اچھے تھے ، وہاں کے اہلِ زر اچھے نہ تھے
ہم کو خوُباں میں نظر آتی تھیں کتنی خوُبیاں
جس...
سنگلاخ چٹانوں کی گھٹا دیکھ رَہا ہُوں
دَھرتی پہ غضب ناک خدا دیکھ رَہا ہُوں
یہ زَلزلے کا جھٹکا ہے یا رَبّ نے کہا ہے
اِس شہر میں جو کچھ بھی ہُوا ، دیکھ رَہا ہُوں
اِقرا کے مُبَلّغِ نے سَرِ عرش یہ سوچا
اَب تک میں جہالت کی فَضا دیکھ رَہا ہُوں
اِکراہ نہیں دین میں ، نہ جبر رَوا ہے
تلواروں پہ یہ صاف...
نیاز عاشقی کو ناز کے قابل سمجھتے ہیں
ہم اپنے دل کو بھی اب آپ ہی کا دل سمجھتے ہیں
عدم کی راہ میں رکھا ہی ہے پہلا قدم میں نے
مگر احباب اس کو آخری منزل سمجھتے ہیں
قریب آ آ کے منزل تک پلٹ جاتے ہیں منزل سے
نہ جانے دل میں کیا آوارہء منزل سمجھتے ہیں
الٰہی ایک دل ہے، تُو ہی اس کا فیصلہ کردے
وہ اپنا...
اَبر کے چاروں طرف باڑ لگا دی جائے
مفت بارِش میں نہانے پہ سزا دی جائے
سانس لینے کا بھی تاوان کیا جائے وُصول
سب سِڈی دُھوپ پہ کچھ اور گھٹا دی جائے
رُوح گر ہے تو اُسے بیچا ، خریدا جائے
وَرنہ گودام سے یہ جنس ہٹا دی جائے
قہقہہ جو بھی لگائے اُسے بِل بھیجیں گے
پیار سے دیکھنے پہ پرچی تھما دی جائے...
تلخ و شیریں
از
سید منیف اشعر
سے منتخب کلام
۔۔۔۔۔۔۔۔
دعا ۔ اپنے جگر پاروں کے نام
مری دعا ہے دعا مستجاب دوں بچو
تمہیں حیات سے بھر پور خواب دوں بچو
تمہارے بیچ اندھیروں کے سامنے آکر
تمہیں دمکتا ہوا آفتاب دوں بچو
غزل
شاعر: راحت نسیم ملک
گھر پہنچ کر دُور جاتے راستوں کی سوچنا
تم سے ہو پائے تو میرے فاصلوں کی سوچنا
رسمی لفظوں سے چکُا کر کاغذوں کے قرض کو
جو کبھی لکھے نہیں ،ایسے خطوں کی سوچنا
اجنبی بانہوں میں اپنا ہم بدن پا کر کبھی
جن پہ اپنا نام تھا ان دھڑکنوں کی سوچنا
سوئی جھیلوں کے بدن میں لہر بن کر...
تھک کے ہونے لگے نڈھال تو پھر؟
بڑھ گیا عشق کا وبال تو پھر!
جسم کیا روح تک ہوئی گھائل
ہو سکا گر نہ اندمال تو پھر؟
جس کو رکھا ہے شوق سے مہماں
کر گیا گھر ہی پائمال تو پھر!
ہجر تو مستقل اذیت ہے
اس نے جینا کیا محال تو پھر!
بھول جانا تو کیا عجب اس کا
روز آنے لگا خیال تو پھر!
رازداں ہی تو ہے بھروسا...
درد و درمان خوبصورت ہے
کل کا پیمان خوبصورت ہے
جس کے ملنے کی اب نہیں اُمید
اس کا ارمان خوبصورت ہے
ساتھ دیتا ہے وحشتِ دل کا
چاکِ دامان خوبصورت ہے
حُسن کردار سے ہے ناواقف
کتنا نادان خوبصورت ہے
جھوٹ گو مصلحت نواز سہی
سچ کی پہچان خوبصورت ہے
کاش گھر بھی اسی طرح ہوتا
جیسا مہمان خوبصورت ہے
اک غزل...
جُنوں پسند ہوں شوریدگی سے مطلب ہے
نہ غم سے کام، نہ مجھ کو خوشی سے مطلب ہے
مشاہدات کی تلخی سے رو بھی دیتا ہوں
میں گل نہیں جسے خندہ بہی سے مطلب ہے
کچھ ایسے لوگ ہیں جن کو ہے سرخوشی کی تلاش
ہمیں علاجِ غمِ زندگی سے مطلب ہے
وہ اور ہوں گے جنہیں تیری ذات سے ہے غرض
مجھے تو دوست تیری دوستی سے مطلب ہے...
ظلمتوں کے پروردہ روشنی سے ڈرتے ہیں
موت کے یہ سوداگر زندگی سے ڈرتے ہیں
علم ہی وہ طاقت ہے، خوف کی جو دشمن ہے
مصلحت کے خوشہ چیں آگہی سے ڈرتے ہیں
دشمنوں کی نیت تو ہم پہ خوب ظاہر تھی
پر قریب لوگوں کی دوستی سے ڈرتے ہیں
جن کو فرض کی خاطر راستی پہ مرنا ہو
کچھ بھی کر گزرنا ہو، کب کسی سے ڈرتے ہیں ...
بےکلی میں بھی سدا روپ سلونا چاہے
دل وہ بگڑا ہوا بالک جو کھلونا چاہے
حسن معصوم ہے پر خواب خزانوں کے بنے
کبھی ہیرے، کبھی موتی، کبھی سونا چاہے
تجھ سے بچھڑا ہے تو گھائل کی عجب حالت ہے
بیٹھے بیٹھے کبھی ہنسنا، کبھی رونا چاہے
لاکھ بہلاؤ بھلے وقت کے گلدستوں سے
تلخ ماضی تو سدا خار چبھونا چاہے
کھلی...
کھلا مہتاب بھی ٹوٹے ہوئے در کے حوالے سے
سمجھتا ہوں میں اشیاء کو فقط گھر کے حوالے سے
مرے مایوس ہونے سے ذرا پہلے ہی لوٹ آنا
کہ میں بھی سوچتا ہوں اب مقدر کے حوالے سے
اگر سوچا کبھی میں نے تری قامت نگاری کا
حوالہ مختلف دوں گا صنوبر کے حوالے سے
کہ تجھ پر ختم تھا روئے سخن اپنی طرف کرنا
بتا کیا گفتگو...
اِسی لیے مرا سایہ مجھے گوارا نہیں
یہ میرا دوست ہے لیکن مرا سہارا نہیں
یہ مہر و ماہ بھی آخر کو ڈوب جاتے ہیں
ہمارے ساتھ کِسی کا یہاں گذارا نہیں
ہر ایک لفظ نہیں تیرے نام میں شامل
ہر ایک لفظ محبت کا استعارہ نہیں
تمہی سے چلتے ہیں سب سلسلے تعلق کے
وہ اپنا کیسے بنے گا کہ جو ہمارا نہیں
اور اب برہنگی...
قہوہ خانے میں دھواں بن کےسمائےہوئے لوگ
جانے کس دھن میں سلگتے ہیں بجھائےہوئےلوگ
تُو بھی چاہے تو نہ چھوڑیں گے حکومت دل کی
ہم ہیں مسند پہ ترے غم کو بٹھائے ہوئے لوگ
اپنا مقسوم ہے گلیوں کی ہوا ہو جانا
یار،ہم ہیں کسی محفل سےاٹھائےہوئے لوگ
نام تو نام مجھے شکل بھی اب یاد نہیں
ہائے وہ لوگ،وہ اعصاب پہ...
آزما کر عالمِ ابلیس کے حربے جدید
ہوگئے قابض مری صدیوں پہ کچھ لمحے جدید
ننھا کمپیوٹر، قلم، کاغذ، کتابوں کی جگہ
اس قدر سوچا نہ تھا ہو جائیں گے بچے جدید
دفن کر دیتا تھا پیدا ہوتے ہی عہدِقدیم
رحم ہی میں مار دیتا ہے اسے دورِ جدید
ہو گیا محروم بینائی سے بھی اب آخرش
دیکھتا تھا رات دن وہ آدمی سپنے...