محفل کی خاموشی ہے یا اظہار کی تنہائی
ہر سرگوشی میں پنہاں ہے اک پندارکی تنہائی
ایک بہار کے آجانے سے کیسے کم ہو جائے گی
ایک طویل خزاں میں لپٹے اک گلزار کی تنہائی
ہجر کی دھوپ سے ڈرنے والا اک سائے میں جا بیٹھا
لیکن جس کو سایہ سمجھا ،تھی دیوار کی تنہائی
آگے جانے کی خواہش بھی کتنا آگے لے آئی
اک...
آگ ہو تو جلنے میں دیر کتنی لگتی ہے
برف کے پگھلنے میں دیر کتنی لگتی ہے
چاہے کوئی رک جائے، چاہے کوئی رہ جائے
قافلوں کو چلنے میں دیر کتنی لگتی ہے
چاہے کوئی جیسا بھی ہمسفر ہو صدیوں سے
راستہ بدلنے میں دیر کتنی لگتی ہے
یہ تو وقت کے بس میں ہے کہ کتنی مہلت دے
ورنہ بخت ڈھلنے میں دیر کتنی لگتی ہے
موم...
خون کی ہولی بند کرو تم۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔!
گُلشن کے چہرے پردیکھو
موت کی زردی چھائی ہوئی ہے
اورگُلوں کی بھینی خُوشبو
خوف سے اب مُرجھائی ہوئی ہے
کلیوں کی اِس کوملتا کو
کب تک پیروں سے روندو گے؟
کب تک پھولوں کو نوچو گے؟
ھوا کے آنچل پر پرسوں سے،
دیکھو کِس نے موت لکٌھی ہے؟
دیکھو تو معصوم پرندوں کی آنکھوں...
پیار وہ بھی تو کرے، وہ بھی تو چاہے گاہے
آہ وہ بھی تو بھرے، وہ بھی کراہے گاہے
عدل تھوڑا سا تو اے عادلِ وعدہ شکناں
عہد وہ روز کرے اور نبھاہے گاہے
لے حوالے ترے کر دی ہے تعلق کی کلید
یاد کر روز اسے، مل اسے گاہے گاہے
نرم سا نور بھی ہو، گرم سی تاریکی میں
آ شبِ ہجر میں بھی صورتِ ماہے گاہے
پیار دریا...
جمہوریت
جنگل کا قانون ہوا ہے شہر میں نافذ
غیرت لِیر و لِیر ہوئی ہے
رہن دھرے ہیں خواب گُلوں کے
شب نے موت سے سازش کر کے،
بانٹ لیا سارا سنٌاٹا
آدھا۔۔۔۔۔۔ آدھا
فاخرہ بتول
نکلے تیری تلاش میں پھر در بدر رہے
ہم خانہ بدوش لوگ تھے ،دریوزہ گر رہے
اُلجھے ہیں کچھ اِس طرح غم ِروزگار میں
گردشِ ماہ وسال سے بھی بے خبر رہے
ہر شام کے نصیب میں اِک سفاک رات ہے
ہر شام یہ سوچ کر ہم اپنے گھر رہے
پچھلے برس سائبان صرصر تھی لے اڑی
اب کے برس شاید نا دیوار اور در رہے
کبھی...
پشیمانِ آرزو
علاجِ درد دلِ بے قرار کر لیتے
تلافیء غم لیل و نہار کر لیتے
"ستم شعار کو جی بھر کے پیار کر لیتے"
فسانہ غمِ فُرقت اُنہیں سناتے ہم
جو ہم پہ گزری ہے حالت اُنہیں دکھاتے ہم
اور اپنے ساتھ اُنہیں اشکبار کر لیتے
یہ کہتے”چاک گریباں کو دیکھئے تو سہی
ہمارے حالِ پریشاں کو دیکھئے تو سہی
اور...
پیاری چلی جاؤ گی کیا؟
مجھ کو تڑپتا چھوڑ کر پیاری چلی جاؤ گی کیا؟
میری نگاہِ شوق کو فُرقت میں ترساؤ گی کیا؟
اُف حشرتک یہ چاندسی صورت نہ دِکھلاؤ گی کیا؟
اور پھر نہیں آؤ گی کیا؟
پیاری چلی جاؤ گی کیا؟
کیا جنّتِ دیدار سے محروم ہو جاؤں گا میں؟
اِس محشرِ انوار سے محروم ہو جاؤں گا میں؟
ہاں کیا...
میں کہ مل جاتا ہوں ابھی تنہا
کاٹتا نہ تھا اک گھڑی تنہا
یاد سے یاد کا تعلق ہے
درد اٹھتا نہیں کبھی تنہا
انگلیوں سے زیادہ یار نہ رکھ
بھیڑ میں ہوتے ہیں سبھی تنہا
سائے سے ہاتھ جب ملانے لگا
کر گئی مجھ کو روشنی تنہا
محفلوں میں اُداس تر ہو گا
رات جس شخص کی کٹی تنہا
موت تنہا ترین محرم ہے
پائیں گے سب...
طُوفانِ غم شدید تھا ، دِل ننّھا سا دِیا
جو کرنا تھا ہواؤں نے ، دِل کھول کر کیا
بنجر ترین ذات پہ ، کچھ ترس آ گیا
اُس نے مرے وُجود کو ، اشکوں سے بھر دیا
جس شخص کے ، میں نام سے لا علم تھا ابھی
گھر میں بٹھا لیا اُسے ، یہ دل نے کیا کِیا
محشر سے بھی طویل تھی ، شامِ فراق دوست!
گویا تمہارا نام قیامت...
وعدہ
اِس سے پہلے کہ تیری چشمِ کرم
معذرت کی نِگاہ بن جائے
اِس سے پہلے کہ تیرے بام کا حُسن
رفعت ِ مہر و ماہ بن جائے
پیار ڈھل جائے میرے اشکوں میں
آرزو ایک آہ بن جائے
مجھ پہ آ جائے عشق کا الزام
اور تو بے گناہ بن جائے
میں ترا شہر چھوڑ جاؤں گا
اِس سے پہلے کے سادگی تیری
لبِ خاموش کو گِلہ کہہ دے
میں...
مسجد و منبر کہاں،میخوار و میخانے کہاں
کیسے کیسے لوگ آ جاتے ہیں سمجھانے کہاں
یہ کہاں تک پھیلتی جاتی ہیں دل کی وسعتیں
حسرتو! دیکھو سمٹ آئے ہیں ویرانے کہاں
میں بہت بچ بچ کے گزرا ہوں غمِ ایام سے
لُٹ گئے تیرے تصور سے پری خانے کہاں
یہ بھی تیرے غم کا اِک بدلا ہوا انداز ہے
میں کہاں ورنہ غم ِ دوراں...
باقی رہی نہ خاک بھی میری زمانے میں
اور برق ڈھونڈتی ہے مجھے آشیانے میں
اب کِس سے دوستی کی تمنا کریں گے ہم
اِک تم جو مل گئے ہو سارے زمانے میں
اے حسن! میرے شوق کو الزام تو نہ دے
تیرا تو نام تک نہیں میرے فسانے میں
روئے لپٹ لپٹ کے غمِ دو جہاں سے ہم
وہ لذتیں ملیں ہمیں آنسو بہانے میں
ہر سانس کھنچ...
کوئی نہیں آتا سمجھانے
اب آرام سے ہیں دیوانے
طے نہ ہوئے دل کے ویرانے
تھک کر بیٹھ گئے دیوانے
مجبُوری سب کو ہوتی ہے
ملنا ہو تو لاکھ بہانے
بن نہ سکی احباب سے اپنی
وہ دانا تھے، ہم دیوانے
نئی نئی اُمیدیں آ کر
چھیڑ رہی ہیں زخم پرانے
جلوہء جاناں کی تفسیریں
ایک حقیقت، لاکھ فسانے
دنیا بھر کا درد سہا...
تمہاری یاد کہیں رکھ کر بھول گیا ہوں
سوچا تھا پہلے کر لوں وہ کام جو مجھ کو کرنے ہیں
پھر تو سارے ماہ و سال اُسی کے ساتھ گزرنے ہیں
جب یہ فرض ادا کر لوں گا، جب یہ قرض اُتاروں گا
عمر کا باقی حصہ تیری یاد کے ساتھ گزاروں گا
آج فراغت پاتے ہی ماضی کا دفتر کھولا ہے
تنہائی میں بیٹھ کے اپنا اِک اِک زخم...
جب تصور میں نہ پائیں گے تمہیں
پھر کہاں ڈھونڈنے جائیں گے تمہیں
تم نے دیوانہ بنایا مجھ کو
لوگ افسانہ بنائیں گے تمہیں
حسرتو ! دیکھو یہ ویرانہ دل
اِس نئے گھر میں بسائیں گے تمہیں
میری وحشت، مرے غم کے قصے
لوگ کیا کیا نہ سنائیں گے تمہیں
آہ میں کتنا اثر ہوتا ہے
یہ تماشا بھی دکھائیں گے تمہیں
آج کیا...
نہ پوچھو مصریو! کیا چاہیے ہے
میں یُوسف ہوں، زُلیخا چاہیے ہے
مُسافر کو جو جنگل سے نِکالے
وہ پگڈنڈی، وہ رستہ چاہیے ہے
قلم یا مو قلم سے کیا بتاؤں
جو صُورت ، جو سراپا چاہیے ہے
نظر آتا ہے کم کم گل رُخوں میں
مجھے جو ناک نقشہ چاہیے ہے
تمنا آپ ہی کی تھی مگر، اب
کوئی بھی آپ جیسا چاہیے ہے
تمہارا...
جو منحرف تھے، انہی کو گواہ میں نے کِیا
سلیم سب سے بڑا یہ گناہ میں نے کِیا
جو میرے رنگ تھے ، سب مو قلم کی نذر کیے
نہ کچھ بھی فرق سپید وسیاہ میں نے کِیا
یہیں سے خواب زلیخا کی راہ جاتی ہے
سو اپنی راہ میں تعمیر چاہ میں نے کِیا
کُھلا نہ عصمت و عصیاں راز سر بستہ
اُسے نہ جان کر کیسا گناہ میں نے...
پرسشِ التفات سے اور قلق سوا ہُوا
حرفِ تپاکِ حسن میں زہر سا تھا ملا ہُوا
یوں بھی ہزار خواہشیں باعثِ اضطراب تھیں
اور تری جدائی کا زخم بھی تھا لگا ہُوا
موت کی طرح دفعتاً ساعتِ ہجر آئی تھی
جیسے چراغ جل بجھ،ے مجھ سے وہ یوں جُدا ہُوا
میرا ملال بے سبب تجھ پہ کہیں گراں نہ ہو
آج نہ مِل کہ آج تو دل ہے...
فضا لیتی ہے ہر شے کا حساب آہستہ آہستہ
اُترتے ہیں زمینوں پر عذاب آہستہ آہستہ
سبب یا مصلحت کُھلتی نہیں لیکن یہ حیرت ہے
جرائم تیز تر اور احتساب آہستہ آہستہ
کسی کو کیا ،دلوں کو بھی خبرہونے نہیں پاتی
بدل جاتی ہے چشمِ انتخاب آہستہ آہستہ
تُو اے محوِ نظریہ رازِ خدوخال کیا جانے
کہ بن جاتا ہے ہر چہرہ...