شیزان

  1. شیزان

    سلیم احمد میرا چہرہ۔ سلیم احمد

    میرا چہرہ ایک قیافے کےماہر نے مجھ سےکہا گہری چالیں چلنا اور دنیاکو دھوکے میں رکھنا آسان نہیں ہے لیکن تو چاہے تو یہ کر سکتا ہے تیرا چہرہ اک ہنس مُکھ احمق کا چہرہ ہے سلیم احمد
  2. شیزان

    سلیم احمد گراموفون۔ سلیم احمد

    گراموفون میرےگھر میں ایک پُرانا گراموفون ہے بچّےاس سے کھیلا کرتے ہیں میں کبھی بیکاری کے لمحوں میں اس کو بجایا کرتا ہوں اکثراس کی سوئی اٹک جاتی ہے اور وہ ایک لفظ پر رک کر "میں" ہی "میں" دہرایا کرتا ہے سلیم احمد
  3. شیزان

    JUST A MINUTE۔ وصی شاہ

    JUST A MINUTE ذرا سا تو ٹھہر اے دل۔۔۔۔۔۔۔! ابھی کچھ کام باقی ہیں ابھی آنگن میں مجھ کو موتیے کے کچھ نئے پودے لگانے ہیں ابھی ان شوخ ہونٹوں کے کئی انداز ہیں جن کو مرے ہونٹوں پہ کھلنا ہے ابھی اس جسم نے مجھ سے بہت سی بات کرنی ہے ابھی اس دل کے جانے کتنے ہی غم ایسے ہیں جن کو مجھے اپنے بدن میں، روح...
  4. شیزان

    خُدا کو اور بھی کچھ کام کرنے ہیں۔ فاخرہ بتول

    خُدا کو اور بھی کچھ کام کرنے ہیں جو اپنے ہاتھ سے کچھ کر نہیں سکتے وہی کہتے ہیں اکثر یہ خُدا یہ کام کر دے گا ۔۔۔ خُدا وہ کام کر دے گا گِریں کے جب سنبھالے گا گلے سے وہ لگا لے گا ہمیں منزل کی جانب لے کے جائے گا ہمیں رستے کی ہر مشکل سے وہ خود ہی بچائے گا ہمیں‌ خود کچھ نہیں کرنا جو اس نے کر دیا...
  5. شیزان

    جون ایلیا عیش ِ اُمید ہی سے خطرہ ہے۔ جون ایلیا

    عیش ِ اُمید ہی سے خطرہ ہے دِل کو اب دِلدہی سے خطرہ ہے ہے کچھ ایسا کہ اُس کی جلوت میں ہمیں اپنی کمی سے خطرہ ہے جس کی آغوش کا ہوں دیوانہ اُس کی آغوش ہی سے خطرہ ہے یاد کی دُھوپ تو ہے روز کی بات ہاں مجھے چاندنی سے خطرہ ہے ہے عجب کچھ معاملہ درپیش عقل کو آگہی سے خطرہ ہے شہرِ ِ غدار !جان لے کہ...
  6. شیزان

    خودکشی۔ فاخرہ بتول

    خودکُشی کوئی مثال زمانے میں ایسی دیکھی ہے؟ میں جی رہی ہوں مگر دل نے خودکُشی کر لی فاخرہ بتول
  7. شیزان

    ذرا سی بات پہ کوئی خفا نہیں ہوتا۔ فاخرہ بتول

    ذرا سی بات پہ کوئی خفا نہیں ہوتا یوں اِک گھڑی میں تو رستہ جُدا نہیں ہوتا ہمارے ساتھ ہوا ہے تو رو پڑے ہیں مگر محبتوں میں کہاں حادثہ نہیں ہوتا ؟ یہ دل کا دشت بسے بھی تو کِس طرح آخر؟ یہاں سُنا ہے کوئی باوفا نہیں ہوتا یہ دل ہے، بِھیڑ کا امکان بھی تلاش نہ کر اِس آئینے میں کوئی دوسرا نہیں ہوتا...
  8. شیزان

    ہم ماٹی میں سو جائیں گے۔ فاخرہ بتول

    ہم ماٹی میں سو جائیں گے ہم آج بہت بے نام سہی گمنام سہی تھوڑے تھوڑے بدنام سہی یہ شعر بہت بے قیمت ہیں جو لکھتے ہیں یہ خواب ہمارے جھوٹے ہیں جو تکتے ہیں ہم لفظوں، مصرعوں کے بیلی ہم تنہائی کے مارے ہیں ہم پنچھی ہیں، بنجارے ہیں اِک بات مگر سچ کہتے ہیں ہم جیتی بازی ہارے ہیں کل یاد کرو گے تم، ہم کو سب...
  9. شیزان

    زندگی کا نصاب اچھا ہے۔ فاخرہ بتول

    زِندگی کا نِصاب اچھا ہے عِشق کا اِنتخاب اچھا ہے جو کیا ہے ، بُرا سوال نہیں؟ آپ کا یہ جواب اچھا ہے یہ حقیقت ہے تو خدا کی قسم اِس سے تو وہ سراب اچھا ہے عِشق کا روگ یہ بُرا ہی سہی آپ سے تو جناب اچھا ہے چاند بدلی کی اوڑھنی میں نہیں حُسن ، زیرِ نقاب اچھا ہے پہلے آنکھوں کے آ بھنور میں اُتر! پھر...
  10. شیزان

    زندگی خوابِ پریشاں سے زیادہ تو نہیں۔ فاخرہ بتول

    زندگی خوابِ پریشاں سے زیادہ تو نہیں اِس میں تعبیر بھی مل جائے یہ وعدہ تو نہیں بات بے بات اُلجھنے کی یہ خُو کیسی ہے یہ بتا، تیرا بچھڑنے کا ارادہ تو نہیں ؟ کون خوشبو کے تعاقب میں گیا دُور تلک ؟ لوگ سادہ ہیں مگر اتنے بھی سادہ تو نہیں آپ جائیں گے تو ہم حد سے گُزر جائیں گے شہسوار آپ سہی ، ہم بھی...
  11. شیزان

    کون جانے کہ کیا ضروری ہے۔ فاخرہ بتول

    کون جانے کہ کیا ضرُوری ہے عِشق میں تجربہ ضرُوری ہے کہہ رہا ہے وفا کرئے گا ضرُور اُس کے حق میں دُعا ضروری ہے اُس نے کہہ تو دیا، دِیا نہ جلا ہم نے بھی کہہ دیا ، ضرُوری ہے ساری دنیا وفا کرئے نہ کرئے بس وہ اِک بےوفا ضرُوری ہے؟ تُم کو پا کرخُوشی ملی ہے مگر اب کوئی سانحہ ضرُوری ہے یاد رکھنا چلو...
  12. شیزان

    منیر نیازی ہے میرے گرد کثرتِ شہر جفا پرست۔ منیر نیازی

    ہے میرے گرد کثرتِ شہر جفا پرست تنہا ہوں، اس لیے ہوں میں اِتنا انا پرست صحنِ بہار گل میں کفِ گل فروش ہے شامِ وصالِ یار میں دستِ حِنا پرست تھا ابتدائے شوق میں آرامِ جاں بہت پر ہم تھے اپنی دُھن میں بہت اِنتہا پرست بامِ بلند یار پہ خاموشیاں سی ہیں اِس وقت وہ کہاں ہے، وہ یارِ ہوا پرست گمراہیوں...
  13. شیزان

    اعتبار ساجد ہم اپنے آپ سے اتنی مروّ ت کر ہی لیتے ہیں

    ہم اپنے آپ سے اتنی مروّ ت کر ہی لیتے ہیں کبھی تنہائی میں خود کو ملامت کرہی لیتے ہیں انہیں الزام کیا دیں جن کے زہر آلود ہیں لہجے کہیں تھوڑی بہت ہم بھی غیبت کر ہی لیتے ہیں کبھی تیشہ بہ کف ہو کر، کبھی خامہ بہ کف ہو کر جو کرنا ہو ہمیں حسب ضرورت کر ہی لیتے ہیں کوئی ٹوٹا ہوا دل جوڑ دیتے ہیں محبت سے...
  14. شیزان

    اعتبار ساجد لو ، خدا حافظ تمہیں کہنے کی ساعت آ گئی

    لو ، خدا حافظ تمہیں کہنے کی ساعت آ گئی دل کو تھا جس بات کا دھڑکا، وہ نوبت آ گئی ٹوٹ کر برسی گھٹا تجھ سے جدا ہوتے ہوئے آسماں رونے لگا، بادل کو غیرت آ گئی اتفاقا جب کوئی تیرے حوالے سے ملا سامنے نظروں کے یکدم تیری صورت آ گئی گھر کے بام و در سمٹ کر مثلِ زنداں ہو گئے شام کیا آئی کہ جیسے مجھ میں...
  15. شیزان

    اعتبار ساجد اُس نے کہا کہ مجھ سے تمہیں کتِنا پیار ہے۔ اعتبار ساجد

    اُس نے کہا کہ مجھ سے تمہیں کتِنا پیار ہے میں نے کہا! ستاروں کا کوئی شُمار ہے اُس نے کہا کہ کون تمہیں ہے بہت عزیز! میں نے کہا کہ دِل پہ جِسے اِختیار ہے اُس نے کہا کہ کون سا تحفہ ہے من پسند میں نے کہا وہ شام، جو اب تک اُدھار ہے اُس نے کہا ! خزاں میں ملاقات کا جواز؟ میں نے کہا کہ قُرب کا مطلب...
  16. شیزان

    اعتبار ساجد نادم ہوں میں نے کوئی بھی راحت نہ دی تجھے۔ اعتبار ساجد

    نادم ہوں میں نے کوئی بھی راحت نہ دی تجھے تُو جس کا مستحق تھا، وہ چاہت نہ دی تجھے اپنے ہی روز و شب کے جھمیلوں میں گم رہا جس پر تِرا تھا حق، وہ رفاقت نہ دی تجھے تُو پاس تھا تو میری اَنا کے غرُور نے پتھر کے ایک بت کی بھی وقعت نہ دی تجھے دریا تھا میں خلُوص کا ہر شخص کے لیے پر بُوند بھر بھی میں...
  17. شیزان

    اعتبار ساجد کہا: تخلیق فن؟ بولے: بہت دشوار ہو گی۔ اعتبار ساجد

    کہا: تخلیق فن؟ بولے: بہت دُشوار تو ہو گی کہا: مخلُوق؟ بولے: باعثِ آزار تو ہو گی کہا: ہم کیا کریں اِس عہد ِناپُرساں میں، کچھ کہیے وہ بولے: کوئی آخر صُورت ِاظہار تو ہو گی کہا: ہم اپنی مرضی سے سفر بھی کر نہیں سکتے وہ بولے: ہر قدم پر اِک نئی دیوار تو ہو گی کہا: آنکھیں نہیں! اِس غم میں بینائی...
  18. شیزان

    چہرے کی دھوپ، زُلف کے سائے سمٹ گئے۔ اختر ضیائی

    چہرے کی دھوپ، زُلف کے سائے سمٹ گئے پل کی جھپک میں وصل کے ایام کٹ گئے اور مصلحت شناس تیرا کُھل گیا بھرم! لے ہم ہی تیرے پیار کے رستے سے ہٹ گئے پاسِ ادب کہ پاسِ مرّوت کہیں اسے اکثر لبوں تک آئے گِلے اور پلٹ گئے پائی نہ پھر بتوں نے وہ یکسانی الست رنگوں میں بٹ گئے کبھی شکلوں میں بٹ گئے گلشن میں چل...
  19. شیزان

    رنگوں کو، خوشبوؤں کو ترا نام بخش دوں۔ اختر ضیائی

    رنگوں کو، خوشبوؤں کو ترا نام بخش دوں جی چاہتا ہے زیست کو انعام بخش دوں ڈسنے لگی ہے تلخ حقائق کی تیز دھوپ چاہو اگر تو سایۂ اوہام بخش دوں الجھے تخیلات کی ترسیل کے لئے اظہار کو سہولتِ ابہام بخش دوں بہتر ہے ہمرہی میں مصائب کا تجزیہ! آغاز کو نہ تہمتِ انجام بخش دوں ایسا نہ ہو کہیں دلِ بےچین ایک دن...
  20. شیزان

    جدائیوں میں لذت نہ رفاقتوں میں ہے۔ ثمن شاہ

    جُدائیوں میں لذت نہ رفاقتوں میں ہے بس اِک درد کا عالم محبتوں میں ہے ملی ہمیں جو بے چینیاں تو یہ جانا مزہ فقط دلِ ناداں کی وحشتوں میں ہے کروں میں تا بہ سحر چاند سے تیری باتیں یہی تو مشغلہ میری فراغتوں میں ہے مجھے یقین ہے واپس اُسے بلائے گی وہ بے قراری جو اِس دل کی چاہتوں میں ہے سفرحیات کا بے...
Top