غزل
آشنا دست بر دُعا نہ ہُوا
دِل سے میرے ذرا جُدا نہ ہُوا
ذکرِ عِشق اُن سے برمَلا نہ ہُوا
پیار بڑھنے کا سِلسِلہ نہ ہُوا
کیا کہُوں اُن کے عَزْم و وَعدوں کا!
کُچھ بھی قَسموں پہ دَیرپا نہ ہُوا
بَن کے راحت رہے خیالوں میں
بس مِلَن کا ہی راستہ نہ ہُوا
شے مِلی اِس سے، اَور کرنے کی!
ظُلم پر جب بھی...
غزلِ
عبد الحمید عدمؔ
خیرات صِرف اِتنی ملی ہے حَیات سے
پانی کی بُوند جیسے عطا ہو فرات سے
شبنم اِسی جنُوں میں ازل سے ہے سِینہ کوب
خورشید کِس مقام پہ مِلتا ہے رات سے
ناگاہ عِشق وقت سے آگے نکل گیا
اندازہ کر رہی ہے خِرد واقعات سے
سُوئے ادب نہ ٹھہرے تو دیں کوئی مشورہ
ہم مطمئن نہیں ہیں تِری کائنات...
غزل
ضرُور پُہنچیں گے منزل پہ کوئی راہ تو ہو
جَتن کو اپنی نظر میں ذرا سی چاہ تو ہو
قیاس و خوف کی تادِیب و گوشمالی کو
شُنِید و گُفت نہ جو روز، گاہ گاہ تو ہو
یُوں مُعتَبر نہیں اِلزامِ بیوفائی کُچھ
دِل و نَظر میں تسلّی کو اِک گواہ تو ہو
سِسک کے جینے سے بہتر مُفارقت ہونَصِیب!
سِتم سے اپنوں کے...
غزل
اِدریس آزاد
یُوں بظاہر تو پَسِ پُشت نہ ڈالو گے ہَمَیں
جانتے ہیں، بڑی عِزّت سے نِکالوگے ہَمَیں
اپنا گھر بار ہے ابعادِ مکانی سے بُلند
وقت کو ڈُھونڈنے نِکلوگے تو پالوگے ہَمَیں
اِتنے ظالم نہ بَنو کُچھ تو مروّت سِیکھو
تم پہ مرتے ہیں تو کیا مار ہی ڈالوگے ہَمَیں
تم نہیں آئے، نہیں آئے، مگر سوچا...
غزل
عندلؔیب شادانی
کوئی اَدا شناسِ محبّت ہَمَیں بتائے
جو ہم کو بُھول جائے ، وہ کیوں ہم کو یاد آئے
اِک دِلنشیں نِگاہ میں، اللہ یہ خلش
نشتر کی نوک جیسے کلیجے میں ٹُوٹ جائے
کہتے تھے تُم سے چُھوٹ کر، کیونکر جئیں گے ہم
جیتے ہیں تُم سے چُھوٹ کے، تقدِیر جو دِکھائے
کُچھ ہم سے بے خُودی میں ہُوئیں بے...
غزل
صبؔا اکبر آبادی
جو دیکھیے، تو کرم عِشق پر ذرا بھی نہیں
جو سوچیے کہ خَفا ہیں، تو وہ خَفا بھی نہیں
وہ اور ہوں گے، جِنھیں مُقدِرت ہے نالوں کی!
ہَمَیں تو حوصلۂ آہِ نارَسا بھی نہیں
حدِ طَلب سے ہے آگے، جنُوں کا استغنا
لَبوں پہ آپ سے مِلنے کی اب دُعا بھی نہیں
حصُول ہو ہَمَیں کیا مُدّعا محبّت...
غزل
اخترؔ شیرانی
آشنا ہوکر، تغافُل آشنا کیوں ہوگئے
باوَفا تھے تُم تو، آخر بیوَفا کیوں ہو گئے
اُن وَفاداری کے وعدوں کو، الٰہی! کیا ہُوا
وہ وَفائیں کرنے والے، بیوِفا کیوں ہوگئے
تُم تو کہتے تھے کہ، ہم تُجھ کو نہ بُھولیں گے کبھی
بُھول کر ہم کو، تغافُل آشنا کیوں ہوگئے
کِس طرح، دِل سے بُھلا بیٹھے...
غزل
اکبرؔ الہٰ آبادی
بَوسۂ زُلفِ سِیاہ فام مِلے گا کہ نہیں
دِل کا سودا ہے، مُجھے دام مِلے گا کہ نہیں
خط میں کیا لکِھّا ہے، قاصد کو خبر کیا اِس کی
پُوچھتا ہے، مُجھے اِنعام مِلے گا کہ نہیں
مَیں تِری مست نَظر کا ہُوں دُعاگو، ساقی
صدقہ آنکھوں کا کوئی جام مِلے گا کہ نہیں
قبر پر فاتحہ پڑھنے کو نہ...
غزل
بیخودؔ دہلوی
ہو کے مجبُور آہ کرتا ہُوں
تھام کر دِل گُناہ کرتا ہُوں
ابرِ رحمت اُمنڈتا آتا ہے
جب خیالِ گُناہ کرتا ہُوں
میرے کِس کام کی ہے یہ اکسِیر
خاکِ دل، وقفِ راہ کرتا ہُوں
دِل سے خوفِ جَزا نہیں مِٹتا
ڈرتے ڈرتے گُناہ کرتا ہُوں
دِل میں ہوتے ہو تم، تو اپنے پر
غیر کا اشتباہ کرتا ہُوں...
غزل
فراقؔ گورکھپُوری
یُوں تو نہ چارہ کار تھا جان دِیے بغیر بھی
عُہدہ بَرا نہ ہوسکا عِشق جیے بغیر بھی
دیکھ یہ شامِ ہجر ہے، دیکھ یہ ہے سکُونِ یاس
کاٹتے ہیں شَبِ فِراق صُبح کیے بغیر بھی
گو کہ زباں نہیں رُکی، پِھر بھی نہ کُچھ کہا گیا
دیکھ سکُوتِ عِشق آج، ہونٹ سیے بغیر بھی
تیرے نِثار ساقیا...
غزل
مجرُوح سُلطان پُوری
خنجر کی طرح بُوئے سَمن تیز بہت ہے
مَوسم کی ہَوا، اب کے جُنوں خیز بہت ہے
راس آئے تو ، ہر سر پہ بہت چھاؤں گھنی ہے
ہاتھ آئے ، تو ہر شاخ ثمر بیز بہت ہے
لوگو مِری گُل کارئ وحشت کا صِلہ کیا
دِیوانے کو اِک حرفِ دِلآویز بہت ہے
مُنعَم کی طرح ، پیرِ حَرَم پیتے ہیں وہ جام ...
جوشؔ ملیح آبادی
مَیں غُرفۂ شب، وقتَِ سَحر کھول رہا ہُوں
ہنگامِ سفر، زادِ سفر کھول رہا ہُوں
اِس منزلِ آسودَگئ شب نَم و یَخ میں
آغوش، سُوئے برق و شرر کھول رہا ہُوں
اُس وقت، کہ جب یاس مُسلّط ہے فَضا پر
مَیں، طائرِ اُمید کے پَر کھول رہا ہُوں
جب آیۂ والشمس سے جُنباں ہے لَبِ صُبح
مَیں، بابِ...
غزل
وہ سُکُوت، اپنے میں جو شور دَبا دیتے ہیں
جُوں ہی موقع مِلے طُوفان اُٹھا دیتے ہیں
خواہِشیں دِل کی اِسی ڈر سے دَبا دیتے ہیں
پیار کرنے پہ یہاں لوگ سَزا دیتے ہیں
چارَہ گر طبع کی بِدعَت کو جِلا دیتے ہیں
ٹوٹکا روز کوئی لا کے نیا دیتے ہیں
آشنا کم لَطِیف اِحساسِ محبّت سے نہیں
لیکن اسباب تماشہ...
غزل
غلام ہمدانی مصحفیؔ
جی میں سمجھے تھے کہ دُکھ درد یہ سب دُور ہُوئے
ہم تو اِس کُوچے میں آ، اور بھی مجبُور ہُوئے
کل جو ہم اشک فشاں اُ س کی گلی سے گُزرے
سینکڑوں نقشِ قدم خانۂ زنبُور ہُوئے
پُھول بادام کے پیارے مُجھے لگتے ہیں، مگر
تیری آنکھوں کے تئیں دیکھ کے مخمُور ہُوئے
دِل پہ از بس کہ...
غزل
غلام ہمدانی مُصحفیؔ امروہوی
ہم تو سمجھے تھے کہ ناسورِ کُہن دُور ہُوئے
تازہ اِس فصل میں زخموں کے پِھر انگُور ہُوئے
سَدِّ رہ اِتنا ہُوا ضُعف، کہ ہم آخرکار!
آنے جانے سے بھی اُس کُوچے کے معذُور ہُوئے
رشک ہے حالِ زُلیخا پہ، کہ ہم سے کم بخت
خواب میں بھی نہ کبھی وصل سے مسرُور ہُوئے
بیچ سے اُٹھ...
غزل
گوپال متل
رنگینئ ِ ہَوَس کا وَفا نام رکھ دِیا
خوددَاریِ وَفا کا جَفا نام رکھ دِیا
اِنسان کی ، جو بات سمجھ میں نہ آسکی!
اِنساں نے اُس کا ، حق کی رضا، نام رکھ دِیا
خود غرضِیوں کے سائے میں پاتی ہے پروَرِش
اُلفت، کہ جِس کا صِدق و صَفانام رکھ دِیا
بے مہرئِ حَبِیب کا مُشکِل تھا اعتراف
یاروں...
غزل
مِرزا اسدؔاللہ خاں غالبؔ
نُصرَتُ المُلک بَہادُر ! مُجھے بتلا ،کہ مُجھے
تُجھ سے جو اِتنی اِرادت ہے، تو کِس بات سے ہے؟
گرچہ تُو وہ ہے کہ، ہنگامہ اگر گرم کرے
رونَق ِبزٗمِ مَہ و مہر تِری ذات سے ہے
اور مَیں وہ ہُوں کہ، گر جی میں کبھی غَور کرُوں
غیر کیا، خُود مُجھے نفرت مِری اَوقات سے ہے...
غزل
مِرزا اسدؔاللہ خاں غالبؔ
دیوانگی سے دَوش پہ زنّار بھی نہیں
یعنی ہمارے جَیب میں اِک تار بھی نہیں
دِل کو نیازِ حسرتِ دِیدار کر چُکے
دیکھا تو، ہم میں طاقتِ دِیدار بھی نہیں
مِلنا تِرا اگر نہیں آساں، تو سہل ہے !
دُشوار تو یہی ہے کہ، دُشوار بھی نہیں
بے عِشق عُمر کٹ نہیں سکتی ہے، اور یاں
طاقت...
غزل
لالا کے چشمِ نم میں مِرے خواب تھک گئے
جُھوٹے دِلاسے دے کےسب احباب تھک گئے
یادیں تھیں سَیلِ غم سے وہ پُرآب تھک گئے
رَو رَو کے اُن کے ہجر میں اعصاب تھک گئے
خوش فہمیوں کےڈھوکے ہم اسباب تھک گئے
آنکھوں میں بُن کے روز نئے خواب تھک گئے
جی جاں سے یُوں تھے وصل کو بیتاب تھک گئے
رکھ کر خیالِ خاطر و...