یوسف بھائی آپ کی تحریر آنکھیں کھلی رکھنے کے لیے کافی ہے۔
میر اور جعفر ظاہر ہے باہر سے تو نہیں آتے۔ اندر سے ہی نکلتے ہیں۔
تحریر سامنے ہے، حوالے بھی دیئے ہیں۔ سب کو اس پر دلائل کے ساتھ جھٹلانے کی آزادی ہے۔
الزام تراشی اور بحث برائے بحث سے اجتناب کریں۔
تو کیا انہوں نے غلط حوالے دیئے ہیں؟
اللہ معاف کرے۔ ڈاکٹر منیر احمد نے تو اپنی ساری توانائی پاکستان کو ایٹمی ملک بننے سے روکنے پر لگا دی تھی۔ اسی لئے بھٹو نے انہیں کہوٹہ پروجیکٹس سے دور ہی رکھا تھا ۔۔۔ اور یہ احمدی ڈاکٹر عبدالسلام، جنہیں احمدی ہونے اور اسرائیل سے خوشگوار تعلقات کے انعام میں نوبل پرائز دیا۔ اسرائیل میں ان کی آؤ بھگت سے تو اک دنیا واقف ہے، سوائے چند معصوم محفلین کے۔
ہماری قوم واقعی میں طالبان deserve کرتی ہے!
عبدالسلام کا ذکر نہ کریں تو کس کا کریں؟ ایک ہی تو نامور سائنسدان پیدا کیا ہمارے ملک نے۔ شائد آپ چاہتے ہیں کہ مولانا فضل الرحمٰن، مولانا یوسف لدھیانوی یا پھر اسی طرح کے کسی اور مولانا کا ذکر ہو فزکس کی کتاب میں!
بھینس مَجھ کہیں اور جارہی ہے۔۔لہذا میں بحث کو جاری رکھتے ہوئے ڈاکٹر عبدالسلام جو کہ ایک عظیم پاکستانی تھے ان کے بارے میں اپنی رائے دینا چاہوں گا۔۔چلیں آپ انہیں متعصب کہتے ہیں، مان لیتے ہیں۔ لیکن جو چیز کاغذ پر لکھی ہوئی ہے اس کو آپ کیسے جھٹلائیں گے؟
ہے نا یہ لطیفہ؟ ایک طرف اسی لابی نے غیر یہودی ڈاکٹر عبدالسلام کو نوبل پرائز دلوا دیا جبکہ ان کا اپنا ہیرو "رُل" رہا ہے، اس کے لئے محض کوششیں کی جا رہی ہیں؟یہ بھی واضح رہے کہ امریکی کانگریس کی بہت بڑی لابی اس وقت یوول نیمان کے لیے نوبیل پرائز کے حصول کے لیے کوشاں ہے۔
یہ واقعی لطیفہ ہے کہ ڈاکٹر عبدالسلام عین اسی وقت ایک کمرے سے نکل کر دوسرے میں داخل ہو رہے تھے جب ان محترم راوی نے "غیر ارادی" طور پر پیچھے مڑ کر دیکھا۔ اللہ کے بندو یو ٹو نامی ایک جہاز جو روس کی خفیہ نگرانی کرنے جاتا تھا، کیا اس کے لئے مشکل تھا کہ وہ پاکستان میں کہوٹہ کے بھی چند فوٹو کھینچ لے اور اسی کی مدد سے سی آئی اے ایک ماڈل تیار کر لے؟ ان محترم نے تو یہ حوالہ تک دینا مناسب نہیں سمجھا کہ کس سن اور کس تاریخ کا یہ "واقعہ" ہے؟ مزے کی ایک بات یہ بھی دیکھ لیجیئے کہ صاحبزادہ یعقوب خان 11 نومبر 1996 سے 24 فروری 1997 تک وزیر خارجہ رہے تھے اور ڈاکٹر عبدالسلام 21 نومبر 1996 کو انتقال کر گئے۔ کیا یہ بات ماننے کی ہے کہ صاحبزادہ یعقوب خان 11 نومبر سے 21 نومبر کے دوران وزیر خارجہ بنتے ہی امریکہ "باہمی دلچسپی کے امور" پر گفتگو کر رہے ہوں گے اور طویل عرصے سے علیل ڈاکٹر عبدالسلام عین انہی دنوں اسی عمارت کا دورہ کر رہے ہوں گے اور عین اسی وقت ایک کمرے سے نکل کر دوسرے میں داخل ہوں گے جب "راوی" صاحب "غیر ارادی طور پر" مڑ کر دیکھیں گے؟ یار کون لوگ ہو تُسی؟’’اپنے ایک امریکی دورے کے دوران سٹیٹ ڈیپارٹمنٹ میں، میں بعض اعلیٰ امریکی افسران سے باہمی دلچسپی کے امور پر گفتگو کر رہا تھا کہ دوران گفتگو امریکیوں نے حسب معمول پاکستان کے ایٹمی پروگرام کا ذکر شروع کر دیا اور دھمکی دی کہ اگر پاکستان نے اس حوالے سے اپنی پیش رفت فوراً بند نہ کی تو امریکی انتظامیہ کے لیے پاکستان کی امداد جاری رکھنا مشکل ہو جائے گا۔ ایک سینئر یہودی افسر نے کہا ’’نہ صرف یہ بلکہ پاکستان کو اس کے سنگین تنائج بھگتنے کے لیے تیار رہنا چاہئے۔ جب ان کی گرم سرد باتیں اور دھمکیاں سننے کے بعد میں نے کہا کہ آپ کا یہ تاثر غلط ہے کہ پاکستانی ایٹمی توانائی کے حصول کے علاوہ کسی اور قسم کے ایٹمی پروگرام میں دلچسپی رکھتا ہے تو سی آئی اے کے ایک افسر نے جو اسی اجلاس میں موجود تھا، کہا کہ آپ ہمارے دعویٰ کو نہیں جھٹلا سکتے۔ ہمارے پاس آپ کے ایٹمی پروگرام کی تمام تر تفصیلات موجود ہیں بلکہ آپ کے اسلامی بم کا ماڈل بھی موجود ہے۔ یہ کہہ کر سی آئی اے کے افسر نے قدرے غصے بلکہ ناقابل برداشت بدتمیزی کے انداز میں کہا کہ آئیے میرے ساتھ بازو والے کمرے میں۔ میں آپ کو بتائوں آپ کا اسلامی بم کیا ہے؟ یہ کہہ کر وہ اٹھا۔ دوسرے امریکی افسر بھی اٹھ بیٹھے۔ میں بھی اٹھ بیٹھا۔ ہم سب اس کے پیچھے پیچھے کمرے سے باہر نکل گئے۔ میری سمجھ میں کچھ نہیں آ رہا تھا کہ سی آئی اے کا یہ افسر، ہمیں دوسرے کمرے میں کیوں لے کر جا رہا ہے اور وہاں جا کر یہ کیا کرنے والا ہے۔ اتنے میں ہم سب ایک ملحقہ کمرے میں داخل ہو گئے۔ سی آئی اے کا افسر تیزی سے قدم اٹھا رہا تھا۔ ہم اس کے پیچھے پیچھے چل رہے تھے۔ کمرے کے آخر میں جا کر اس نے بڑے غصے کے عالم میں اپنے ہاتھ سے ایک پردہ کو سرکایا تو سامنے میز پر کہوٹہ ایٹمی پلانٹ کا ماڈل رکھا ہوا تھا اور اس کے ساتھ ہی دوسری طرف ایک سٹینڈ پر فٹ بال نما کوئی گول سی چیز رکھی ہوئی تھی۔ سی آئی اے کے افسر نے کہا ’’یہ ہے آپ کا اسلامی بم۔ اب بولو تم کیا کہتے ہو۔ کیا تم اب بھی اسلامی بم کی موجودگی سے انکار کرتے ہو؟‘‘ میں نے کہا میں فنی اور تکینکی امور سے نابلد ہوں۔ میں یہ بتانے یا پہچان کرنے سے قاصر ہوں کہ یہ فٹ بال قسم کا گولہ کیا چیز ہے اور یہ کس چیز کا ماڈل ہے۔ لیکن اگر آپ لوگ بضد ہیں کہ یہ اسلامی بم ہے تو ہو گا، میں کچھ نہیں کہہ سکتا۔ سی آئی اے کے افسر نے کہا کہ آپ لوگ تردید نہیں کر سکتے۔ ہمارے پاس ناقابل تردید ثبوت موجود ہیں۔ آج کی میٹنگ ختم کی جاتی ہے۔ یہ کہہ کر وہ کمرے سے باہر کی طرف نکل گیا اور ہم بھی اس کے پیچھے پیچھے کمرے سے باہر نکل گئے۔ میرا سر چکرا رہا تھا کہ یہ کیا معاملہ ہے؟ جب ہم کا ریڈور سے ہوتے ہوئے آگے بڑھ رہے تھے تو میں نے غیر ارادی طور پر پیچھے مڑ کر دیکھا۔ میں نے دیکھا کہ ڈاکٹر عبدالسلام ایک دوسرے کمرے سے نکل کر اس کمرے میں داخل ہو رہے تھے، جس میں بقول سی آئی اے کے، اس کے اسلامی بم کا ماڈل پڑا ہوا تھا۔ میں نے اپنے دل میں کہا، اچھا! تو یہ بات ہے‘‘۔
اگر سارا لطیفہ ہی یہی ہے تو پھر یہ بتائیے کہ جو سامان سمگل ہو کر آتا تھا، وہ کس لئے تھا؟ ٹیکنالوجی تو ڈاکٹر صاحب کے پاس ہی تھی، میٹلرجی کے ماہر بھی تھے، خود یہ مشینیں کیوں نہیں بنا لیں؟شاید اپ کو اس بات کا علم نہیں ہے کہ اینرچمنٹ ہی اصل چیز ہے۔ بغیر انرچڈ یورینیم کے بنا کر دکھادی بم
بلاشبہ بہت سے لوگ اور انوالو ہونگے مگر اصل کنجی انریچمنٹ ہی ہے
چلیں آپ انہیں متعصب کہتے ہیں، مان لیتے ہیں۔ لیکن جو چیز کاغذ پر لکھی ہوئی ہے اس کو آپ کیسے جھٹلائیں گے؟
"یہ واقعہ نیاز اے نائیک سیکرٹری وزارت خارجہ نے مجھے ڈاکٹر عبدالقدیر کا ذاتی دوست سمجھتے ہوئے سنایا تھا۔ انہوں نے بتلایا کہ وزیر خارجہ صاحبزادہ یعقوب علی خاں نے انہیں یہ واقعہ ان الفاظ میں سنایا"
اگر سارا لطیفہ ہی یہی ہے تو پھر یہ بتائیے کہ جو سامان سمگل ہو کر آتا تھا، وہ کس لئے تھا؟ ٹیکنالوجی تو ڈاکٹر صاحب کے پاس ہی تھی، میٹلرجی کے ماہر بھی تھے، خود یہ مشینیں کیوں نہیں بنا لیں؟
ہاہاہاہاہہاہاہاہا کمرے میں ایٹم بم کا موڈل رکھا ہوا تھا ایٹم بم نہ ہوا ٹویوٹا کرولا 2013 ہوگئی جس کا موڈل بنا کر رکھا بھی جا سکے۔۔۔ اللہ کے بندو! ایٹم بم اپنی شکل سے نہیں اپنے کام اور ٹیکنولوجی سے پہچانا جاتا ہے۔۔۔
شمشاد بھائی آپ کی اس بات سے اتنا فائدہ ضرور ہوا ہے کہ یہ معلوم ہوگیا کہ آپ کے نزدیک تحقیق کا معیار کیا ہے۔یوسف بھائی آپ کی تحریر آنکھیں کھلی رکھنے کے لیے کافی ہے۔
میر اور جعفر ظاہر ہے باہر سے تو نہیں آتے۔ اندر سے ہی نکلتے ہیں۔
Tom and Jerry میں تو بم کے ماڈل بنے ہوتے ہیں۔ تو آپ یہ کہہ رہے ہیں کہ یہ کارٹون ایک دھوکہ اور غیر حقیقی ہے اور ابھی تک جو ہم سمجھ رہے تھے وہ غلط تھا؟
شمشاد بھائی آپ کی اس بات سے اتنا فائدہ ضرور ہوا ہے کہ یہ معلوم ہوگیا کہ آپ کے نزدیک تحقیق کا معیار کیا ہے۔
انسان کو بہرحال حقیقت کی دنیا میں رہنا چاہئے اور حقیقت کی دنیا یہ ہے کہ وقت بہت بے رحم ہوتا ہے اور وقت کی کتاب میں جو حقائق ایک بار لکھے جاتے ہیں انہیں پیچھے جاکر مٹانا ممکن نہیں ہوتا۔
آپ کو اپنے خیالات پر حکومت کی پوری آزادی ہے۔میراخیال ہے شمشاد بھائی درست کہہ رہے ہیں
آپ کو اپنے خیالات پر حکومت کی پوری آزادی ہے۔