لطیفے پر۔ آپ پر بھلا میں کیوں ہنستا ؟جیہ نے کہا:ضبط ۔ بتانا تھا کہ آپ لطیفے کو پڑھ کر ہنس رہے ہیں یا مجھ پر
لطیفہ کم کہانی۔ پر اچھا تھا۔ دیگچی میں سونا بڑی بات ہے۔جیہ نے کہا:اس کا مطلب ہے۔ لطیفہ اچھا لگا ، شکریہ
پاکستانی نے کہا:ایک دیہاتی عورت اپنے شوہر سے لڑائی کرکے میکے میں آگئی اور ضد لگا بیٹھی کہ جب تک وہ خود چل کر اسے لینے نہیں آئیں گے، وہ سسرال نہیں جائے گی۔ بیٹھی دن گنتی رہی۔ ہفتے گزرے۔ مہینے گزرے اور جب سال گزرنے لگے تو پریشان ہوگئی۔ مسلسل لوگوں سے پوچھتی کہ سسرال سے کوئی آرہا ہے یا نہیں؟ ایک دن اسے پتہ چلا کہ سسرال گاؤں کا ایک کتا گلی سے گزر رہا ہے۔ اس نے جلدی سے کپڑوں کی گٹھڑی باندھی۔ کندھے پر رکھی اور بھاگ کر کتے کی دم پکڑ لی اور اس کے پیچھے پیچھے چلتے ہوئے کہنے لگی ”وے کتیا! میں کبھی واپس نہ جاتی۔ اب تو لینے آگیا ہے تو مجبوراً جا رہی ہوں“
حجاب نے کہا:دو بچے آپس میں ریڈیو پروگرام کا کھیل کھیل رہے تھے اور بحث اس بات پر ہو رہی تھی کہ اناؤنسر کون بنے گا اور پروگرام کون سنائے گا ۔آخر سکّہ اچھال کر فیصلہ کرلیا گیا۔ہارے ہوئے بچے کو اناؤنسر بننا تھا ،چناچہ اُس نے مندرجہ ذیل اناؤنسمنٹ کی ، سامعین رات کے بارہ بجے ہیں، اب ہماری نشریات اپنے اختتام کو پہنچتی ہیں ۔اللہ حافظ۔
شمشاد نے کہا:پپو اور بلو آپس میں جھگڑ رہے تھے، مقدمہ دادا جی کی عدالت میں پیش ہوا۔ جھگڑا ایک بچونگڑے (بلی کے بچے) پر تھا۔ شرط یہ تھی کہ جو بھی اچھا جھوٹ بولے گا، بچونگڑا اسی کو ملے گا۔
“ توبہ توبہ “ دادا جی کانوں کو ہاتھ لگاتے ہوئے بولے، مزید کہنے لگے “ میں جب تمہاری عمر کا تھا تو کبھی جھوٹ نہیں بولتا تھا۔“
یہ سن کر پپو بولا “ بلو بچونگڑا دادا جی کو دے دو۔“
پاکستانی نے کہا:‘بیگم صاحبہ‘ گداگر نے اس رحم دل کو مخاطب کرتے ہوئے کہا۔
‘اگر آپ نے مجھے ہانچ روپے نہ دئیے تو مجھے ایک ایسی بات کی طرف رجوع کرنا پڑے گا جس کے تصور سے ہی میرے رونگٹے کھڑے ہو جاتے ہیں اور میرا جسم کانپنے لگتا ہے۔
خاتوں نے پانچ روپے کا نوٹ اس کی طرف بڑھا دیا اور اس سے پوچھا۔
‘خدا تم پر رحم کرے کیا میں پوچھ سکتی ہوں کہ میں نے تمھیں کس حادثہ سے بچا لیا ہے‘۔
گداگر نے تشکر اور اطمینان کی نظر سے اس نیک دل خاتون کو دیکھا اور کہا۔
‘کام کرنے سے‘