اس کو حماقت ہی کہیں گےشمشاد نے کہا:اس کو کیا کہیں گے
ایک بندے نے ترس کھاتے ہوئے ایک بیوہ، جس نے بتایا کہ اس کے پہلے خاوند سے دو بچے ہیں، اس سے شادی کر لی۔
شادی سے پہلے دو بتائے بعد میں نو نکلے اوپر سے یہ الزام کہ نو کو دو کیوں سُنا۔
شمشاد نے کہا:ایک صاحب بذریعہ بحری جہاز حج پر روانہ ہو رہے تھے۔ اور بھی بہت سارے حجاج کرام اسی جہاز سے سفر کر رہے تھے۔ اور سبھی کے عزیز و اقارب انہیں رخصت کرنے آئے ہوئے تھے۔
جب حجاج کرام امیگریشن سے فارغ ہو کر بحری جہاز کی جانب روانہ ہوئے تو ان صاحب کو کوئی بات یاد آئی جو وہ اپنے بیٹے کو کہنا چاہتے تھے۔ بیٹے کا نام اسلام تھا۔ انہوں نے دور ہی سے اپنے بیٹے کو زور سے آواز دی۔ اسلام
ان کے بیٹے نے تو پتہ نہیں سنا کہ نہیں، البتہ مجمع نے “ زندہ باد “ کا نعرہ لگا دیا۔ اب جوں جوں وہ اسلام اسلام کہہ کر اپنے بیٹے کو پکار رہے ہیں، مجمع اور زیادہ جوش و خروش سے “ زندہ باد “ سے جواب دے رہا تھا اور ان کی بات بیچ میں ہی رہ گئی۔
راحیل حسین نے کہا:ضبط صاحب کے نام سے ایک شعر یاد آرہا ھے
کہ عرض کیا ھے
تو نے میری بے تابی ھی دیکھی ھے اب میرا ضبط بھی دیکھ
اتنا خاموش رہوں گا کہ چلا اٹھے گا تو۔۔
فیضان الحسن نے کہا:سردار ایئر پورٹ پر پیرا شوٹ بیچ رہے ہوتے ہیں ایک صاحب ان سے خرید لیتے ہیں اور کہتے ہیں اگر یہ جھلانگ لگانے کے بعد نہ کھلا تو ۔۔۔۔۔۔۔
سردار جی بڑی شوق سے جناب کدی اے نہ نہ کھلایا تسی اپنے پیسے لے جانا
سارہ خان نے کہا:سردار جی لندن کے مشہور کافی ہاؤس میں گئے اور کافی کا آرڈر دینے کے لیے ویٹر کو بلایا۔
“ سر ! آپ بلیک کافی پسند کریں گے یا۔۔۔۔۔ “ ویٹر نے پوچھا
“ اچھا یہ بتاؤ “ سردار نے ویٹر کی بات کاٹتے ہوئے پوچھا
“ تمہارے پاس اور کون کون سے رنگ دستیاب ہیں“؟؟؟
اچھا شعر ہے۔ خوب۔راحیل حسین نے کہا:ضبط صاحب کے نام سے ایک شعر یاد آرہا ھے
کہ عرض کیا ھے
تو نے میری بے تابی ہی دیکھی ہے اب میرا ضبط بھی دیکھ
اتنا خاموش رہوں گا کہ چلا اٹھے گا تو ۔۔
ھاھاھاشمشاد نے کہا:ماوراء “ ہمارے گاؤں میں سو سال پہلے بھی فون کی سہولت موجود تھی۔“
سارہ “ تمہیں کیسے پتہ؟“
ماوراء “ وہ ایسے کہ کھدائی کے دوران وہاں زمیں میں تاریں ملی ہیں۔“
سارہ “ اچھا، اور تمہیں پتہ ہے ہمارے گاؤں میں سو سال پہلے موبائیل فون کی سہولت موجود تھی۔“
ماوراء “ تمہیں کیسے پتہ؟“
سارہ “ وہ ایسے کہ ہمارے ہاں کھدائی کے دوران کچھ بھی نہیں ملا۔“
شمشاد نے کہا:ماوراء “ ہمارے گاؤں میں سو سال پہلے بھی فون کی سہولت موجود تھی۔“
سارہ “ تمہیں کیسے پتہ؟“
ماوراء “ وہ ایسے کہ کھدائی کے دوران وہاں زمیں میں تاریں ملی ہیں۔“
سارہ “ اچھا، اور تمہیں پتہ ہے ہمارے گاؤں میں سو سال پہلے موبائیل فون کی سہولت موجود تھی۔“
ماوراء “ تمہیں کیسے پتہ؟“
سارہ “ وہ ایسے کہ ہمارے ہاں کھدائی کے دوران کچھ بھی نہیں ملا۔“
fahim نے کہا:شمشاد نے کہا:ماوراء “ ہمارے گاؤں میں سو سال پہلے بھی فون کی سہولت موجود تھی۔“
سارہ “ تمہیں کیسے پتہ؟“
ماوراء “ وہ ایسے کہ کھدائی کے دوران وہاں زمیں میں تاریں ملی ہیں۔“
سارہ “ اچھا، اور تمہیں پتہ ہے ہمارے گاؤں میں سو سال پہلے موبائیل فون کی سہولت موجود تھی۔“
ماوراء “ تمہیں کیسے پتہ؟“
سارہ “ وہ ایسے کہ ہمارے ہاں کھدائی کے دوران کچھ بھی نہیں ملا۔“
یہ تیسرا ہوگیا شمشاد بھائی