آؤ ہنسیں

کیفیت
مزید جوابات کے لیے دستیاب نہیں

شمشاد

لائبریرین
استاد نے شاگرد سے پوچھا “ ایک باڑے میں 30 بھیڑیں ہیں۔ ان میں سے دو باہر نکل گئیں۔ باقی کتنی رہ گئیں؟“

شاگرد “ کوئی بھی نہیں“

استاد “ باقی 28 رہ گئیں، تم حساب کے متعلق کچھ نہیں جانتے۔“

شاگرد “ باڑہ خالی ہو گیا۔ آپ بھیڑوں کے متعلق کچھ نہیں جانتے۔“
 

شمشاد

لائبریرین
ایک فلسفی کا ایک گاؤں سے گزر ہوا۔ ایک دیوار پر اُ پھلے تھپے ہوئے تھے۔ وہ بڑی دیر تک ان کو غور سے دیکھتا رہا۔ آخر ایک آدمی نے اسے پوچھ ہی لیا کہ آپ کیا سوچ رہے ہیں۔

کہنے لگا میں یہ سوچ رہا ہوں کہ بھینس دیوار پر چڑھی کیسے ہو گی؟
 
ایک لڑکا اپنے پاپ سردار جی سے

پاپا 5 تے 5 کنے ہوندے نے

سردار جی : اوئے نالائقا اوئے نکھٹو

اوئے کھوٹے

اوئے تینو تے کج وی نئی اوندا

جا اندر جا کے کیلکولیٹر لی کے آ
 

شمشاد

لائبریرین
پنڈ کے چوہدری نے میراثی سے پوچھا : “اوئے اگر تم یہ بتا دو کہ میری کون سی آنکھ نقلی ہے تو میں تمہیں انعام دوں گا۔“

میراثی کچھ دیر چوہدری کی دونوں آنکھوں کو غور سے دیکھتا رہا پھر بولا “ چوہدری جی آپ کی دائیں آنکھ نقلی ہے۔“

“ واہ بھئی، تم نے کیسے پہچان لیا کہ یہ نقلی ہے۔“ چوہدری نے پوچھا

“ وہ جی مجھے اس میں تھوڑی سی شرم نظر آئی ہے۔“ میراثی نے جواب دیا۔
 

شمشاد

لائبریرین
محب نے قیصرانی سے کہا “ میں اپنی آنکھ کو دندی کاٹ سکتا ہوں۔“

قیصرانی نے کہا “ ایسا نہیں ہو سکتا۔“

محب “ شرط لگاؤ 100، 100 کی۔“

قیصرانی “ لگ گئی۔“

محب نے اپنی نقلی آنکھ نکالی، اسے دندی کاٹی، پھر واپس لگا لی۔ اور 100 روپے قیصرانی سے ہتھیا لیئے۔

تھوڑی دیر بعد محب کہنے لگا، میں چاہتا ہوں تم اپنے پیسے واپس جیت لو۔ ایک اور شرط لگاؤ اور وہ یہ کہ میں اپنی دوسری آنکھ کو بھی دندی کاٹ سکتا ہوں۔

قیصرانی نے سوچا کہ یہ کیسے ہو سکتا ہے کہ اس کی دونوں آنکھیں نقلی ہوں اور جھٹ سے 100 روپے کی شرط لگا لی کہ میرے پیسے واپس مل جائیں گے۔

محب نے نقلی بتیسی نکالی، دوسری آنکھ کو دندی کاٹی اور بتیسی واپس لگا کر قیصرانی سے مزید 100 روپے ہتھیا لیئے۔ :cry:
 

قیصرانی

لائبریرین
شمشاد نے کہا:
پنڈ کے چوہدری نے میراثی سے پوچھا : “اوئے اگر تم یہ بتا دو کہ میری کون سی آنکھ نقلی ہے تو میں تمہیں انعام دوں گا۔“

میراثی کچھ دیر چوہدری کی دونوں آنکھوں کو غور سے دیکھتا رہا پھر بولا “ چوہدری جی آپ کی دائیں آنکھ نقلی ہے۔“

“ واہ بھئی، تم نے کیسے پہچان لیا کہ یہ نقلی ہے۔“ چوہدری نے پوچھا

“ وہ جی مجھے اس میں تھوڑی سی شرم نظر آئی ہے۔“ میراثی نے جواب دیا۔
قکککک، زبردست شمشاد بھائی
 

قیصرانی

لائبریرین
شمشاد نے کہا:
محب نے قیصرانی سے کہا “ میں اپنی آنکھ کو دندی کاٹ سکتا ہوں۔“

قیصرانی نے کہا “ ایسا نہیں ہو سکتا۔“

محب “ شرط لگاؤ 100، 100 کی۔“

قیصرانی “ لگ گئی۔“

محب نے اپنی نقلی آنکھ نکالی، اسے دندی کاٹی، پھر واپس لگا لی۔ اور 100 روپے قیصرانی سے ہتھیا لیئے۔

تھوڑی دیر بعد محب کہنے لگا، میں چاہتا ہوں تم اپنے پیسے واپس جیت لو۔ ایک اور شرط لگاؤ اور وہ یہ کہ میں اپنی دوسری آنکھ کو بھی دندی کاٹ سکتا ہوں۔

قیصرانی نے سوچا کہ یہ کیسے ہو سکتا ہے کہ اس کی دونوں آنکھیں نقلی ہوں اور جھٹ سے 100 روپے کی شرط لگا لی کہ میرے پیسے واپس مل جائیں گے۔

محب نے نقلی بتیسی نکالی، دوسری آنکھ کو دندی کاٹی اور بتیسی واپس لگا کر قیصرانی سے مزید 100 روپے ہتھیا لیئے۔ :cry:
بیچارہ قیصرانی، دو سو گئے :?
 

عمر سیف

محفلین
شمشاد نے کہا:
پنڈ کے چوہدری نے میراثی سے پوچھا : “اوئے اگر تم یہ بتا دو کہ میری کون سی آنکھ نقلی ہے تو میں تمہیں انعام دوں گا۔“

میراثی کچھ دیر چوہدری کی دونوں آنکھوں کو غور سے دیکھتا رہا پھر بولا “ چوہدری جی آپ کی دائیں آنکھ نقلی ہے۔“

“ واہ بھئی، تم نے کیسے پہچان لیا کہ یہ نقلی ہے۔“ چوہدری نے پوچھا

“ وہ جی مجھے اس میں تھوڑی سی شرم نظر آئی ہے۔“ میراثی نے جواب دیا۔
:)
 

عمر سیف

محفلین
ٹرین اپنی پوری رفتار سے اپنی منزل کی جانب رواں دواں تھی، کافی رات بیت گئی تھی لیکن سیکنڈ کلاس کمپارٹمنٹ کے مسافر سو نہیں پا رہے تھے، اس کی وجہ ایک نیا شادی شدہ جوڑا تھا۔
دُلہن اپنے گوٹے لگے کپڑوں میں ملبوس مسلسل بولے جا رہی تھی۔
' ارشد مجھے یقین نہیں آ رہا کہ ہم ایک ہوگئے ہیں، ارشد یہ کہیں کوئی
خواب تو نہیں۔ خیال تو نہیں!! '۔
اور اس کی ان بلند سرگوشیوں کی وجہ سے مسافر بہت ڈسٹرب ہو رہے تھے۔
تبھی ایک پٹھان مسافر خونخوار لہجے اور ڈراؤنے آواز میں دھاڑ کے بولا۔
' اوئے خوچہ، تم اس یقین کی بچی کو یقین دلا دے تاکہ یہ بک بک بند کرے اور آم سب سو سکے، خانہ خراب کا بچہ '۔
 

شمشاد

لائبریرین
0023.gif
 
اسلامُ علیکم جناب

یہ کوئی لطیفہ تو نہیں لیکن شاید پڑھ کر آپ کو مزا ضرور آئے گا

دراصل میرے ایک دوست ھیں یہاں دبئی جنھوں نے یہ واقعہ بیان کیا اور میں اس مزاح پر بہت لطف اندوز ھوا
اصل میں‌ ان کا تعلق ہندوستان میں لکھنؤ سے ھے، اور ان کے بھی ایک دوست ھیں‌ محلے کے جو علی گڑھ مسلم یونی ورسٹی سے پڑھے ھیں

ایک مرتبہ یونی ورسٹی میں شاعری کا مقابلہ ھوا
اور وہ کچھ اس طرح تھا کہ ھر مقابلہ کرنے والے کو ایک مصرعہ پہلے ھی بھیج دیا گیا

اور مقابلے کے دن اس کو اس کا دوسرا مصرعہ بنا کر لانا تھا

مصرعہ کچھ یوں تھا

“لام کے مانند زلفیں ھیں میرے گھنشیا م کی“

مطلب یہ کہ پرانے زمانے میں عورتیں اپنے بالوں کی ایک لٹھ گراتی تھیں جو کہ لام کی طرح دکھائی دیتی تھی

بہر حال مقابلے والے دن وہ صاحب گئے اور انہوں نے قافیہ ملا دیا اور با آسانی پہلا انعام جیت گئے

مصرعہ کچھ یوں تھا

“اس لام کو جو نہ مانے ۔ وہ مسلماں نہیں وہ کافر ھے“

اب آپ اس شعر کی تشریح کریں اور خود ہی سمجھ لیں

اگر کسی کو یہ پسند نہ آیا ھو تو میری طرف سے معزرت

دعا گو ؛ راحیل
 

شمشاد

لائبریرین
ایک صاحب بذریعہ بحری جہاز حج پر روانہ ہو رہے تھے۔ اور بھی بہت سارے حجاج کرام اسی جہاز سے سفر کر رہے تھے۔ اور سبھی کے عزیز و اقارب انہیں رخصت کرنے آئے ہوئے تھے۔

جب حجاج کرام امیگریشن سے فارغ ہو کر بحری جہاز کی جانب روانہ ہوئے تو ان صاحب کو کوئی بات یاد آئی جو وہ اپنے بیٹے کو کہنا چاہتے تھے۔ بیٹے کا نام اسلام تھا۔ انہوں نے دور ہی سے اپنے بیٹے کو زور سے آواز دی۔ اسلام

ان کے بیٹے نے تو پتہ نہیں سنا کہ نہیں، البتہ مجمع نے “ زندہ باد “ کا نعرہ لگا دیا۔ اب جوں جوں وہ اسلام اسلام کہہ کر اپنے بیٹے کو پکار رہے ہیں، مجمع اور زیادہ جوش و خروش سے “ زندہ باد “ سے جواب دے رہا تھا اور ان کی بات بیچ میں ہی رہ گئی۔
 
کیفیت
مزید جوابات کے لیے دستیاب نہیں
Top