شمشاد نے کہا:ایکدن سارہ کپڑے استری کرنے لگی تو دیکھا کہ استری تو خراب ہے۔ اس نے سوچا ہمسائے میں جیہ سے استری لے آتی ہوں۔
جیہ کے گھر جا کر اس سے استری مانگی تو وہ بولی جس نے بھی استری کرنا ہو ادھر ہی کر لے۔ سارہ کو غصہ تو بہت آیا لیکن یہ سوچ کر کہ چلو اس طرح بجلی کی بھی بچت ہو جائے گی وہ اپنے گھر سے کپڑے لائی اور جیہ کے گھر میں ہی استری کیئے۔
دو دن کے بعد خوب آندھی آئی۔ آندھی کے بعد جیہ کے گھر میں کافی کوڑا اکٹھا ہو گیا۔ اب جو جیہ صفائی کرنے لگی تو لاکھ کوشش کے بعد بھی جھاڑو نہیں ملی تو اس نے سوچا کہ ہمسائے میں سارہ سے مانگ لیتی ہوں۔
جیہ نے جا کر سارہ سے جھاڑو مانگی تو سارہ کو دو دن پہلے والی بات یاد آ گئی۔ اس پر وہ بولی جس نے بھی جھاڑو دینی ہے ادھر ہی دے لے۔
شمشاد نے کہا:ایکدن سارہ کپڑے استری کرنے لگی تو دیکھا کہ استری تو خراب ہے۔ اس نے سوچا ہمسائے میں جیہ سے استری لے آتی ہوں۔
جیہ کے گھر جا کر اس سے استری مانگی تو وہ بولی جس نے بھی استری کرنا ہو ادھر ہی کر لے۔ سارہ کو غصہ تو بہت آیا لیکن یہ سوچ کر کہ چلو اس طرح بجلی کی بھی بچت ہو جائے گی وہ اپنے گھر سے کپڑے لائی اور جیہ کے گھر میں ہی استری کیئے۔
دو دن کے بعد خوب آندھی آئی۔ آندھی کے بعد جیہ کے گھر میں کافی کوڑا اکٹھا ہو گیا۔ اب جو جیہ صفائی کرنے لگی تو لاکھ کوشش کے بعد بھی جھاڑو نہیں ملی تو اس نے سوچا کہ ہمسائے میں سارہ سے مانگ لیتی ہوں۔
جیہ نے جا کر سارہ سے جھاڑو مانگی تو سارہ کو دو دن پہلے والی بات یاد آ گئی۔ اس پر وہ بولی جس نے بھی جھاڑو دینی ہے ادھر ہی دے لے۔
جیہ نے کہا:لطیفہ تو اچھا ہے مگر ترمیم شدہ
اصل لطیفے میں جیہ کی جگہ مارک ٹوین ، سارہ کی جگہ پڑوسی اور استری کی جگہ کتاب ہے۔ جھاڑو کی جگہ گھاس کاٹنے کی مشین
ہاہاہا۔شمشاد نے کہا:جیہ اپنے بابا کے ساتھ اپنی کار میں سفر پر تھی۔ گرمی کا موسم، لمبا سفر لیکن بابا کو کار کے شیشے اتارنے نہیں دے رہی۔
بابا بولے بیٹا اب تو شیشہ نیچے کر لوں، گرمی سے برا حال ہو گیا ہے۔ سر سے پاؤں تک پسینہ ہی پسینہ ہے۔ جیہ نے شیشے میں پیچھے دیکھا اور بولی نہیں ابھی نہیں۔
بابا بولے آخر ایسی کیا بات ہے جو تم مجھے شیشہ نیچے نہیں کرنے دے رہی۔
“ پیچھے سارہ کی کار آ رہی ہے“ جیہ بولی، “ اگر ہم نے شیشے کھولے تو وہ سمجھ جائے گی کہ ہماری کار میں اے سی نہیں ہے۔“
جیہ نے کہا:ایک آدمی رات گیے گھر آتا۔ لات مار کر دروازہ کھولتا۔ پھر ایک جوتی اتار کر زور سے دیوار پر مارتا۔ پھر دوسری جوتی اتار کر دیوار پر زور سے مارتا اور دھڑام سے بستر پر گر کر سوجاتا۔
اس کا ایک پڑوسی جس کی خواب گاہ کا دیوار اس آدمی کے خواب گاہ سے منسلک تھا، اس آدمی کے اس عادت سے بڑا تنگ تھا۔ آخر تنگ آکر ایک روز اس کے پاس چلاگیا اور کہا کہ تم روز رات گیے زور سے میرے دیوار پر جوتے مارتے ہو ۔ اس سے میری نیند ڈسٹرب ہو جاتی ہے۔ براہ کرم تم ایسا نہ کرو۔
وہ آدمی بڑا نادم ہوا۔ پڑوسی سے معافی مانگ کر آئیندہ ایسی حرکت نہ کرنے کا وعدہ کیا۔
اگلی رات کو وہ پھر رات گیے آیا لات مار کر دروازہ کھولا۔ پھر خواب گاہ میں جاکر جوتی اتار دیوار پر دے ماری۔ اچانک اسے اپنا وعدہ یاد آگیا۔ دوسری جوتی آرام سے اتار کر فرش پر رکھی اور بستر پر جاکر کر سو گیا۔
کوئ دو گھنٹے بعد اس کے دروازے پر دستک ہوئ۔ دروازے پر جاکر دیکھا تو وہی پڑوسی سوجھے ہوئے اور سرخ آنکھوں کے ساتھ دروازے پر کھڑا تھا۔ اسے دیکھتے ہوئے بولا:
“ خدا کے لیے دوسری جوتی بھی دے مارو دیوار پر۔ میں دو گھنٹے سے انتظار میں ہوں کہ اب دوسری جوتی دیوار پر پڑے گی کہ تب پڑے گی۔ خدا را دوسری جوتی جلدی سے مار دو تاکہ میں آرام سے سو سکوں“
پسند آیا۔جیہ نے کہا:ایک آدمی رات گیے گھر آتا۔ لات مار کر دروازہ کھولتا۔ پھر ایک جوتی اتار کر زور سے دیوار پر مارتا۔ پھر دوسری جوتی اتار کر دیوار پر زور سے مارتا اور دھڑام سے بستر پر گر کر سوجاتا۔
اس کا ایک پڑوسی جس کی خواب گاہ کا دیوار اس آدمی کے خواب گاہ سے منسلک تھا، اس آدمی کے اس عادت سے بڑا تنگ تھا۔ آخر تنگ آکر ایک روز اس کے پاس چلاگیا اور کہا کہ تم روز رات گیے زور سے میرے دیوار پر جوتے مارتے ہو ۔ اس سے میری نیند ڈسٹرب ہو جاتی ہے۔ براہ کرم تم ایسا نہ کرو۔
وہ آدمی بڑا نادم ہوا۔ پڑوسی سے معافی مانگ کر آئیندہ ایسی حرکت نہ کرنے کا وعدہ کیا۔
اگلی رات کو وہ پھر رات گیے آیا لات مار کر دروازہ کھولا۔ پھر خواب گاہ میں جاکر جوتی اتار دیوار پر دے ماری۔ اچانک اسے اپنا وعدہ یاد آگیا۔ دوسری جوتی آرام سے اتار کر فرش پر رکھی اور بستر پر جاکر کر سو گیا۔
کوئ دو گھنٹے بعد اس کے دروازے پر دستک ہوئ۔ دروازے پر جاکر دیکھا تو وہی پڑوسی سوجھے ہوئے اور سرخ آنکھوں کے ساتھ دروازے پر کھڑا تھا۔ اسے دیکھتے ہوئے بولا:
“ خدا کے لیے دوسری جوتی بھی دے مارو دیوار پر۔ میں دو گھنٹے سے انتظار میں ہوں کہ اب دوسری جوتی دیوار پر پڑے گی کہ تب پڑے گی۔ خدا را دوسری جوتی جلدی سے مار دو تاکہ میں آرام سے سو سکوں“
جیہ نے کہا:ستم ظریفی
حمید کے گھر 5 چور گھس آئے ۔ آتے ہی حمید کو پیٹنے لگے۔
بیگم حمید نے مدد کے لیے پڑوسی وحید کو آواز لگائی۔ “ بھیا ذرا دوڑ کر آنا میرے شوہر کو 5 چور پیٹ رہے ہیں“
وحید نے جوابی ہانک لگائ“ محترمہ 5 آدمی کیا کم ہیں جو مجھے بلا رہی ہوں