تیرہویں سالگرہ آئیے آئیے - گرہ لگائیے

جہاں غربتوں میں نہ عصمت دری ہو
تحفظ کی ایسی ردا چاہتا ہوں
کوئی جس میں بے روزگاری سے ڈاکو
نہ بن پائے ایسی فضا چاہتا ہوں
وطن میرا انصاف سے پر ہو یارب
یہی تجھ سے میرے خدا چاہتا ہوں
یہاں صرف تیری عبادت ہو یارب
مری سادگی دیکھ کیا چاہتا ہوں​
 
اگلا مصرع
پر طبیعت ادھر نہیں آتی

مسلمانی کی راہ کی گزرن
زندگی بھر نظر نہیں آتی
مسجدوں کی ہو جس میں بے تابی
ایسی حالت اثر نہیں آتی
ملک عربوں کے لٹ گئے سارے
پھر بھی ان کو قدر نہیں آتی
ایک ہوجائیں بھول نفرت کو
خواب تعبیر بر نہیں آتی
ہم بھی کہتے ہیں آج توبہ کریں
پر طبیعت ادھر نہیں آتی

 
کیا محفل کو چھوڑ چلا جاوں آج
پر طبیعت ادھر نہیں آتی
اپنی محفل میں دھمکیاں دینا
مجھ کو اچھی نظر نہیں آتی
چھوڑنے کا اگر ارادہ کیا
تیری خریت نظر نہیں آتی
زلف کاٹی ہے آج زلفی نے
پر طبیعت ادھر نہیں آتی
 
اپنی محفل میں دھمکیاں دینا
مجھ کو اچھی نظر نہیں آتی
چھوڑنے کا اگر ارادہ کیا
تیری خریت نظر نہیں آتی
زلف کاٹی ہے آج زلفی نے
پر طبیعت ادھر نہیں آتی

یوں عظیم شعر کہتا تھا وہ شخص
اس میں ہنر کی عجب کیفیت نظر آتی

جب بھی کہتا لاجواب کہتا
کبھی زلف کبھی مستقبل کی کریدنی نظر آتی

شعر کہنا سیکھ ہی لوں کیا فیصل
پر طبیعت ادھر نہیں آتی
 
مسکرانا تو آپ کو ہوگا
اور کوئی مفر نہیں آتی
مان جانا ہے آپ کو زلفی
اور وہ مان کر نہیں آتی
ہم تو کہتے آپ آجائیں
پر طبیعت ادھر نہیں آتی

مسکرانا تو اک ادا ہے اسکی
مسکرا کر ہر دفعہ لوٹ جاتی ہے

منانے کی ریت سے ہے ناواقف
وہ یونہی مسکرا کر بھول جاتی ہے

اور بھی کچھ کہہ ڈالوں عظیم
پر طبیعت ادھر نہیں آتی
 
میری بیگم ہے روٹھ کر بیٹھی
اور اب لوٹ کر نہیں آتی
ہم نے سوچا تھا جا منائیں گے
مجھ کو خریت نظر نہیں آتی
آپ کی بندہ پروری زلفی
ہم کو اپنی خبر نہیں آتی
شاعری اور ہم کہاں ممکن
سچ ہے ہم کو نظر نہیں آتی
ہم بھی رانجھے بنیں اگر پھرسے
پر طبیعت ادھر نہیں آتی
 
Top