آب حیات - مولانا محمد حسین آزاد (مرحوم)

کیفیت
مزید جوابات کے لیے دستیاب نہیں

شمشاد

لائبریرین
صفحہ ۲۲

ورق ورق برباد کئے گئے اور ہزاروں کتابیں فلسفہ الٰہی اور علوم و فنون کی تھیں کہ نابود ہو گئیں، جبکہ یونانیوں نے ملک پر غلبہ پایا تو زبان نے زبانوں پر بھی زور دکھایا ہو گا۔ تھوڑے ہی دنوں میں پارتھیا والوں کا عمل دخل ہو گیا، وہ ایران جسے ہزاروں برس سے ملک گیری کے نشان سلامی اُتارتے تھے اور تہذیب و شائستگی اُس کے دربار میں سر جھکاتے تھے۔ پانچ سو برس تک ظفریابوں کے قبصہ میں دبا رہا، اور ژند کی کتب مقدسہ ڈھونڈھ ڈھونڈھ کر فنا کی گئیں۔

۲۰۰ عیسوی میں پھر تنِ بے جان میں سانس آیا۔ اور ساسانیوں کی تلواروں میں قدیمی اقبال نے چمک دکھائی، ان بادشاہوں نے ملک و مملکت کی قدامت کے ساتھ بُجھتے ہوئے مذہب کو بھی روشن کیا۔ گرے ہوئے آتش خانوں کو پھر اُٹھایا اور جہاں جہاں سے پھٹے پُرانے اوراقِ پریشاں ہاتھ آئے، بہم پہنچائے۔ اُن ہی کی کوششوں کی کمائی تھی جو پھر ساڑھے چار سو برس بعد علم اسلام کے قربان ہوئی۔ اس معاملہ میں ہمیں نیک نیت پارسیوں کا شکریہ نہ بھولنا چاہیے، کیونکہ باوجود تباہی اور خانہ بربادی کے جو پُرانا کاغذ کسی بااعتقاد کے ہاتھ آیا وہ جان کے ساتھ ایمان کو بھی لیتا آیا۔ بندر سورت، گجرات وغیرہ ملکوں میں آج تک اسی نور سے آتش خانے روشن ہیں، جو کچھ ان کے پاس ہے وہ اُن تصنیفات کا بقیہ ہے جو ساسانیوں کے عہد میں ہوئی، کتبِ مذکورہ و دونوں زبانوں کا لفظی اتفاق ہی نہیں ثابت کرتیں بلکہ اُن کے اتحاد و اعتقاد پر بھی شہادت دیتی ہیں جو چار برن ہندوؤں میں، وہی ایران میں تھے، اجرام آسمانی کی عظمت واجب تھی، حیوانات بے آزار کا مارنا گناہِ عظیم تھا، تناسخ کا مسئلہ دونوں میں یکساں تھا، آتش، آب، خاک، باد، ابر، بجلی، گرج، ہوا، وغیرہ وغیرہ اشیاء کے لئے ایک ایک دیوتا مانا ہوا تھا، جس کے
 

شمشاد

لائبریرین
صفحہ ۲۳

اظہار عظمت کے لئے خاص خاص طریقے تھے۔ یاد الٰہی کے زمزمے تھے، جس کو وہ اپنی اصطلاح میں گاتھا کہتے تھے، یہ وہی لفظ ہے جس کے نام پر یہاں گیتا کتاب ہے۔ کیوں کہ اس میں بھی یادِ الٰہی کے گیت ہیں۔ فارسی مروجہ کے چند الفاظ تمثیلاً لکھتا ہوں کہ سنسکرت سے ملتے ہوئے معلوم ہوتے ہیں :

فارسی|سنسکرت||فارسی|سنسکرت

پدر|پتر||برادر|بھراتر
پور|پُتر||دختر|دوہتر
مادر|ماتر||انگشت|انگشٹ
زانو|جانو||پا|پاؤ
بار|بھار||بیم|بھئے
بوم|بھوم||خاشاک|کُشیا
اسپ|اشو||کر|کھر

ایرانی بہن پر ایران میں پہلے اسلام کے ہاتھ سے وہ صدمہ گزرا تھا جو کہ یہاں دو سو برس کے بعد گزرا اور اس سے اس کی حیثیت بالکل بدل گئی تھی۔ بہر حال یہاں دو ایسی حالت کے ساتھ پہنچی کہ عربی اور ترکی الفاظ اور بہت سی ترکیبی تبدیلیوں کے سبب سے اس کی صورت نہ پہچانی جاتی تھی، یہاں جو مسلمان آئے وہ آپس میں وہی رائج الوقت فارسی بولتے تھے اور ہندوؤں سے ہندی کے الفاظ مِلا جُلا کر گزارہ کر لیتے تھے۔

اِدھر سنسکرت تو دیوبانی یعنی زبانِ آسمانی تھی، اس میں ملکشوں کو دخل کہاں؟ البتہ برج بھاشا نے اس بِن بلائے مہمان کو جگہ دی۔ دھرم وان ہندو سالہا سال تک
 

شمشاد

لائبریرین
صفحہ 24

میکش بھاشا سمجھ کر غیر زبان سے متنفر رہے، مگر زبان کا قانون دھرم اور حکومت کے قانون سے بھی سخت ہے کیونکہ اسے گھڑی گھڑی اور پَل پَل کی ضرورتیں مدد دیتی ہیں جو کسی طرح بند نہیں ہوتیں۔ غرض آٹھ پہر ایک جگہ کا رہنا سہنا لین دین کرنا تھا۔ لفظوں کے بولے بٖغیر گذارہ نہ کر سکے، دو قوموں کے ارتباط پر ایسا اختلاط ضرور ہوتا ہے اور اس کے کئی سبب ہیں، اول تو یہ کہ اکثر نئی چیزیں ایسی آئی ہیں جو اپنے نام اپنے ساتھ لائی ہیں (۲) اکثر معانی ایسے ہوتے ہیں کہ انہیں انہی کی زبان میں کہیں تو ایک لفظ میں ادا ہو جاتے ہیں۔ ترجمہ کریں تو ایک فقرہ بنتا ہے۔ پھر بھی وہ نہ مزہ آتا ہے، نہ مطلب کا حق ادا ہوتا ہے۔ اس صورت میں گویا قانونِ زبان اور آئینِ بیان مجبور کرتا ہے کہ یہاں وہی لفظ بولنا چاہیے، دوسرا لفظ بولنا جائز نہیں، (۳) جو لوگ اکثر غیر ملکوں میں سفر کرتے ہیں وہ اس لطف کو جانتے ہیں کہ جب دو غیر زبان والے ایک جگہ رہتے سہتے ہیں تو کبھی کام کاج کی شدتِ مصروفیت میں، کبھی اُس عالم میں ضروری بات جلدی کہہ دینے کی غرض سے کبھی آسانی سے مطلب سمجھانے کو ایک دوسرے کے لفظ خواہ مخواہ اس طرح بول جانے پڑتے ہیں کہ بے اس کے گزارہ نہیں ہوتا۔ (۴) پھر جب ایک رہ کر شیر و شکر ہوتے ہیں تو اکثر پیار اور محبت سے کبھی آپس کی دل لگی کے لئے ایک دوسرے کے لفظ بول کر جی خوش ہوتا ہے، جس طرح دوست کو دوست پیارا ہوتا ہے، اسی طرح اس کے لفظ بھی پیارے معلوم ہوتے ہیں۔ یا یوں سمجھو کہ جس طرح وطن دار اپنے مہمانوں کے رہنے کو جگہ دیتے ہیں، اسی طرح ان کی زبان مہمان لفظوں کو جگہ دیتی ہے۔ (۵) بڑی بات یہ ہے کہ فتحیابوں کے اقبال کی چمک اِن کی بات بات کو بلکہ لباس، دستار، رفتار، گفتار کو بھی ایسی آب و تاب سے جلوہ دیتی ہے کہ وہی سب کی آنکھوں میں بھلے معلوم ہوتے ہیں
 

شمشاد

لائبریرین
صفحہ ۲۵

اور لوگ اسے فقط اِختیاری ہی نہیں کرتے بلکہ اُس پر فخر بھی کرتے ہیں۔ پھر اس میں بہت سے فوائد بھی عقلی دلائل سے پیدا کرتے ہیں۔

اُس زمانہ کی عہد بعہد کی ہندی تصنیفیں آج نہیں ملتیں، جن سے وقت بوقت اس کی تبدیلیوں کا حال معلوم ہو۔ البتہ جب 1193 عیسوی میں شہاب الدین غوری نے رائے پتھورا پر فتح پائی تو چند کوئی ایک نامی شاعر نے پرتھی راج راسا لکھا۔ اسے دیکھ کر حیرت ہوتی ہے کہ زبانِ مذکور نے کتنا جلد عربی، فارسی کے اثر کو قبول کر لیا۔ ہر صفحہ میں کئی کئی لفظ نظر آتے ہیں۔ ساتھ ہی یہ بھی معلوم ہوتا ہے کہ اس وقت میں یہاں کی بھاشا بھی کچھ اور بھاشا تھی، میں نمونہ تصنیف مذکور کا دکھاتا ہوں۔

(حاشیہ : اسلام نے آتے ہی اختلاط الفاظ کی بنیاد ڈال دی تھی۔)

یہ اگرچہ مکتلف جگہ کے ٹکڑے ہیں، مطلب ان کا اسل کتاب دیکھنے سے کُھلتا ہے مگر حرف شناس آدمی بھی جان سکتا ہے کہ یہ لفظ عربی فارسی کے اس میں موجود ہیں۔ محل، پروردگار، پگام (پیغام)، کریم، سرطان (یعنے سلطان) بات شاہ (بادشاہ) دیوان، خلک (خلق) عالم، حجرت (حضرت) ملک، پھرمان (فرمان)، سلام۔

ترجمہ اور تصنیف کے تجربہ کار جانتے ہیں کہ ان کی عبارت میں کسی زبان کا اصل لفظ جو اپنا مطلب بتا جاتا ہے، سطر سطر بھر عبارت میں ترجمہ کریں تو بھی وہ بات حاصل نہیں ہوتی جو مجموعہ خیالات کا اور اِس کے صفات و لوازمات کا اُس ایک لفظ سے سُننے والے کے سامنے آئینہ ہو جاتا ہے وہ ہمارے سطر بھر سے پُورا نہیں ہوتا۔ مثلاً چند کوی اپنی نظم میں سلطان کی جگہ اگر راجہ بلکہ مہاراجہ لکھ دیتا تو بھی جو صفات اور اس کے لوازمات نیک یا بد، رحم یا عدل، زور یا طلم یہ الفاظ اُس کی نظم میں دکھا رہا ہے، وہ بات راجہ مہاراجہ سے ممکن نہیں، اسی طرح لفظ سلام کہ اِس کے مطلب کا حق خواہ ڈنڈوت خواہ پرنام
 

شمشاد

لائبریرین
صفحہ ۲۶

کوئی لفظ ادا نہیں کر سکتا۔ نظیر اس کی آج انگریزی کے سینکڑوں لفظ ہیں۔ اگر ترجمہ کریں تو سطروں میں بھی مطلب پورا نہیں ہو سکتا، مثلاً ایک ہندستانی شخص اپنے دوست سے کہتا ہے۔ "لاٹ صاحب چھ بجے اسٹیشن پر پہنچیں گے۔ پروگرام کے بموجب شہر کی سیر کریں گے۔ ۵ بجے آنا، وہیں چل کر تماشا دیکھیں گے، اب خواہ صحیح خواہ بگڑے، مگر جو اصلی لفظ آپ نے اپنے معنے سننے والے کو سمجھا رہے ہیں، کئی کئی سطروں میں ترجمہ کئے جائیں تو بھی حقِ مطلب بجا نہ لا سکیں گے، آخر پندرہ صدی عیسوی میں سکندر لودی کا زمانہ تھا، اتنا ہوا کہ اول کایتھ فارسی پڑھ کر شاہی دفتر میں داخل ہوئے اور اب ان لفظوں کو اُن کی زبانوں پر انے کا زیادہ موقع ملا، رفتہ رفتہ اکبر کے عہد سے کہ مسلمان شیر و شکر ہو گئے۔ یہ نوبت ہوئی کہ اِدھر بادشاہ اور اس کے اعلٰی درجہ کے اہل دربار نے جبہ و دستار کے ساتھ داڑھیوں کو خدا حافظ کہا، اور جامے پہن کر کھڑکی دار پگڑیاں باندھ بیٹھے، اِدھر ہندو شرفا بلکہ راجہ مہاراجہ ایرانی لباس پہننے اور فارسی بول کر فخر کرنے لگے، بلکہ مراز کے خطاب کو بڑے شوق سے لینے لگے۔

اب جس قدر ممکن ہے عہد بعہد کی زبانوں کےنمونے دکھاتا ہوں۔ امیر خسرو جو کہ 725ھ (1325 ء) میں فوت ہوئے، ان کی ایک غزل نظم اُردو کی تاریخ میں دیکھو، جس کا پہلا مصرعہ ہے "زحال سکین مکن تغافل درائے نیناں بنائے بتیاں " الخ اس سے تمہیں کچھ کچھ حال اُس وقت کی زبان کا بھی معلوم ہو گا۔ خالق باری بھی انہیں کی مخلوقات فکر سے ہے، باریک ہیں اشخاص اس سے بھی بہت سے الفاظ اور فقرے دیکھ کر یہ نکتے سمجھ سکتے ہیں :

بیا بر اور آدرے بھائی
بنشین ماور بیٹھ رے مائی​
 

شمشاد

لائبریرین
صفحہ ۲۷

ایک مجرب نسخہ آنکھوں کا دوہروں کی بحر میں کہتے ہیں :

لودھ پھٹکری مردہ سنگ
ہلدی زیرہ ایک ایک ٹنگ

افیون چنا بھر مرچیں چار
اُرد برابر تھوتھا ڈار

پوست کے پانی پوٹلی کرے
ترت پیر نینوں کی ہرے​

نظم اُردو کی تاریخ میں اِن کی عمہد پہلیاں، مکرنیاں، دوسخنے، انمل میں نے لکھ دیئے ہیں، انہیں دیکھو اور خیال کرو کہ بحریں دوہروں کی ہیں مگر فارسیت کس قدر اپنا زور دکھا رہی ہے۔

ہندو شاعروں کے دوہرے برج بھاشا میں ہیں مگر عہد بعہد کی زبان کا پتہ بتاتے ہیہں، چنانچہ سکندر لودی کے زمانے میں کبیر شاعر بنارس کے رہنے والے عِلم میں اَن پرھ تھے، گرو رامانند کے چیلے ہو کر ایسے ہوئے کہ خود کبیر پنتھیوں کا مت نکالا۔ تصنیفات اگر جمع ہوں تو کئی جلدیں ہوں، اُن کے دوہروں میں فارسی عربی کے لفظوں کو دیکھو :

دین گر ایودُنی سے دُنی نہ آئیو ہاتھ
پیر کہاڑی ماریو گا پھل اپنے ہاتھ

کبیر سریر سرائے ہے کیوں سئے سکھ چین
کوچ نگارا سانس کا باجت ہے دن رین​

گرونانک صاحب کی تصنیفات بہت کچھ ہے، اگرچہ خاص قطعہ پنجاب کی زبان ہے مگر جس بہتات سے ان کے کلام میں عربی فارسی کے لفظ ہیں اتنے کسی کے کلام میں نہیں اور چونکہ ۹۰۰ عیسوی کے بعد فوت ہوئے، تو اس سے چار سو برس پہلے کی پنجابی کا نمونہ بھی معلوم ہو سکتا ہے۔ دوہرا :

سانس مانس سب جیو تمہارا
تو ہے کھرا پیارا​
 

شمشاد

لائبریرین
صفحہ 28

نانک شاعر ایو کہت ہے
سچے پروردگارا​

بلکہ اکثر چیزیں وظیفہ عبادت کے طور پر ہیں۔ ان میں بھی الفاظِ مذکورہ اسی کثرت سے نظر آتے ہیں۔ جپ جی کے دو فقرے دیکھو :

وارن جاؤں اَن ایک بار
تو سدا سلامت جی نرنکار​

مسلمان بھی اس زمانہ میں یہاں کی زبان سے محبت رکھتے تھے، چنانہ سولھویں صدی عیسوی شیر شاہی عہد میں ملک محمد جائسی ایک شاعر ہوا ۔ اس نے پدماوت کی داستان نظم کی۔ اس سے عہد مذکور کی زبان ہی نہیں معلوم ہوتی، بلکہ ثابت ہوتا ہے کہ مسلمان اس ملک میں رہ کر یہاں کی زبان کو کس پیار سے بولنے لگے تھے، اس کی بحر بھی ہندی رکھی ہے، اور ورق کے ورق اُلٹتے چلے جاؤ، فارسی عربی کی لفظ نہیں ملتا۔ مطلب اس کا آج مسلمان بلکہ ہندو بھی نہیں سمجھتا، کتابِ مذکور چھپ گئی ہے اور ہر جگہ مل سکتی ہے، اس لئے نمونہ نہیں لکھتا۔

ہمایوں نے جب گجرات دکن پر فوج کشی کی تو سلطان بہادر وہاں کا بادشاہ تھا اور جاپانیر کا قلعہ بڑا مستحکم تھا کہ سلطان خود بھی وہاں رہتا تھا اور تمام خزائن و دفائن وہیں رکھتا تھا۔ محاصرے کے وقت رومی خاں میر آتش (باوجودیکہ کمال معتبر اور مصاحبِ منظور نظر سلطان کا تھا) ہمایوں سے مل گیا، اور قلعہ (تمام نصائس اموال اور خزائن بے حساب سمیت) ہمایوں کے قبضہ میں آیا۔ سلطان بہادر کے پاس ایک طوطا تھا کہ آدمی کی طرح باتیں کرتا تھا اور سمجھ کر بات کا جواب دیتا تھا، سلطان اُسے ایسا چاہتا تھا کہ سونے کے پنجرے میں رکھتا تھا اور ایک دم جدا نہ کرتا تھا، وہ بھی لوٹ میں آیا۔ جب دربار میں لائے، رومی خان بھی موجود تھا، طوطے نے دیکھ کر پہچانا اور کہا۔ "پھٹ پاپی
 

شمشاد

لائبریرین
صفحہ 29

رومی خاں نمک حرام۔" سب کو تعجب ہوا اور ہمایوں نے کہا، رومی خاں چکنم کہ جانور است ورنہ زبانش می بریدم۔ اُس نے شرما کر آنکھیں نیچی کر لیں۔ غرض اس نقل سے یہ ہے کہ اس وقت بھی لوگوں کی زبان پر عربی فارسی کے لفظ چڑھے ہوئے تھے، جب ہی طوطے کی زبان سے نمک حرام کا لفظ نکلا، جانور جو سُنتا ہو گا وہی بولتا ہو گا۔

سترھویں صدی عیسوی میں بابا تلسی داس برہمن ضلع باندہ کے رہنے والے کہ پنڈت بھی تھے، شاعر بھی تھے، فقیر بھی تھے، اُنہوں نے رامائن کو بھاشا میں اس طرح ترجمہ کیا کہ وہ لاثانی کتاب مطبوعِ خاص و عام ہوئی، ان کے دہروں میں بہت اور کتابِ مذکور میں کہیں کہیں لفظ فارسی عربی کے موجود ہیں۔ دُہرا رامائن :

سنکارے سیوک سکل چلے سوامی رکھ پائے
گھر تر وتر و بن و پاگ و بر ڈیرو دیو لگائے

گھر بسواس بچن ہٹ بولے
کتنی بھنگ کلہ بھی کھولے

رام اینک گریب نواجے
لوگ بید بربرو براجے

گنی گریب گرام نرناگر
پنڈت موٹے ملیں اوجاگر

مایا کو مایا ملے کر کر لمبے ہاتھ
تلسی داس گریب کو کوئی نہ پوچھے بات​

انہی دنوں میں سورداس جی نے سری کرشن جی کے ذکر سے اپنے کلام کو مقبول خاص و عام کیا۔ اِن کی تصنیف میں شاید کوئی شعر ہو گا، کہ فارسی عربی لفظ سے خالی ہو گا۔

مایا دھام دھن ونتا
باندھیوں ہوں اس ساج (یعنی ساز)

سنت سبھی جانت ہوں
تو نہ آئیو باج (یعنی باز نہ آیا)​
 

شمشاد

لائبریرین
ؤصفحہ 30

کھیت بہت کاہے تم تانے
سبن سنی آواج (یعنی آواز)

دیو نہ جات پار اُتر آئے
چاہت چڑھیں جہاج (یعنی جہاز)

لیجے پار اُتار سور کوں
مہاراج برج راج

تئیں کرت کہت پربھو تم سوں
سدا غریب نواج (غریب نواز)​

خیال کرو کہ جب یہ بزرگانِ مذہب اپنے دُہروں میں فارسی لفظ بول جاتے تھے تو گفتگو میں عام ہندو لوگ کیا اس سے کچھ زیادہ نہ بولتے ہوں گے۔

اخیر میں حسن و خوبی برج بھاشا کی راجہ جے سنگھ سوانی کی قدردانی سے ظاہر ہوئی، انہوں نے ایک ایک اشرفی دہرہ کوئی اور گنوان پنڈتوں کو انعام دے کر دہلی اور نواحِ دہلی میں شوق پھیلایا۔

اس عہد میں مسلمانوں کی زبان کا کیا حال ہو گا؟ ظاہر ہے کہ کئی سو برس سے اسلام آیا تھا، جن کے باپ دادا کئی کئی پشت یہیں کی خاک سے اُٹھے اور یہیں پیوند زمین ہوئے، انھیں آپس کے رشتوں اور معاملات کے سررشتوں سے ضرور یہاں کی زبان یعنی برج بھاشا بولنی ہوتی ہو گی، تازہ ولایت، آدھی اپنی آدھی ان کی ملا کر ٹوٹی پھوٹی بولتے ہوں گے، اِن زبانوں کی کوئی نثر تصنیف نہیں۔ وہی امیر خسرو کی ایک غزل اور پہلییاں اور مکرنیاں اور گیت پتہ بتاتے ہیں کہ ۷۰۰ھ میں یہاں کے مسلمان خاصی بھاشا بولتے ہوں گے بلکہ یہی کلام یہ بھی خبر دیتے ہیں کہ مسلمان بھی اب یہیں کی زبان کو اپنی زبان سمجھنے لگے تھے۔ اور اُس زبان کو کس شوق اور محبت سے بولتے تھے، شاید بہ نسبت ہندوؤں کے فارسی عربی لفظ اُن کی زبان پر زیادہ آ جاتے ہوں گے اور جتنا یہاں رہنا سہنا اور استقلال زیادہ ہوتا گیا اتنا ہی روز بروز فارسی ترکی
 

شمشاد

لائبریرین
صفحہ ۳۱

نے ضعف اور یہاں کی زبانوں نے زور پکڑا ہو گا۔ رفتہ رفتہ شاہجہاں کے زمانے میں کہ اقبال تیموری کا آفتاب عین اوج پر تھا، شہر اور شہر پناہ تعمیر ہو کر نئی دلی دارالخلافہ ہوئی۔ بادشاہ اور ارکانِ دولت زیادہ تر وہاں رہنے لگے۔ اہلِ سیف، اہلِ قلم، اہلِ حرفہ اور تجار وغیرہ ملک ملک اور شہر شہر کے آدمی ایک جگہ جمع ہوئے۔ ترکی میں اُردو بازار لشکر کو کہتے ہیں، اُردوئے شاہی اور دربار میں ملے جُلے الفاظ زیادہ بولتے تھے، وہاں کی بولی کا نام اُردو ہو گیا۔ اسے فقط شاہجہاں کا اقبال کہنا چاہیے کہ یہ زبان خاص و عام میں اس کے اُردو کی طرف منسوب مشہور ہو گئی، ورنہ جو نظم و نثر کی مثالیں بیان ہوئیں، اِن سے خیال کو وسعت دے کر کہہ سکتے ہو کہ جس وقت سے مسلمانوں کا قدم ہندوستان میں آیا ہو گا، اُسی وقت سے اُن کی زبان نے یہاں کی زبان پر اثر شروع کر دیا ہو گا۔ چند کوی کا کلام مل گیا، اس میں الفاظ موجود ہیں۔ محمود کے وقت کی نظم یا نثر مل جائے تو اس میں بھی ضرور ہوں گے۔

بیان ہائے مذکورہ سے یہ بھی ثابت ہوا جو کچھ اس میں ہوا کسی تحریک یا ارادہ سے نہیں ہوا بلکہ زبانِ مذکور کی طبیعت ایسی ملنسار واقع ہوئی ہے کہ ہر زبان سے مِل جُل جاتی ہے۔ سنسکرت آئی اس سے مل گئی، عربی فارسی آئی اُسے بسم اللہ کہہ کر خیر مقدم کہا۔ اب انگریزی الفاظ کو اس طرح جگہ دے رہی ہے گویا اُس کے انتظار میں بیٹھی تھی۔

اِسی زبان کو ریختہ بھی کہتے ہیں (پہلے شعر اُردو کو ریختہ کہتے تھے۔ میر غفر غینی کی تقریر میں دیکھو صفحہ ۳۵، مرزا رفیع فرماتے ہیں :

مصرعہ : شعر بے معنی سے تو بہتر ہے کہنا ریختہ

اور دیکھو صفحہ ۱۳۲) کیوں کہ مختلف زبانوں نے اسے ریختہ کیا ہے۔
 

شمشاد

لائبریرین
صفحہ ۳۲

جیسے دیوار کو اینٹ، مٹی، چونا، سفیدی وغیرہ پختہ کرتے ہیں، یا یہ کہ ریختہ کےمعنے ہیں گری پڑی، پریشان چیز، چونکہ اس میں الفاظ پریشاں جمع ہیں، اس لئے اسے ریختہ کہتے ہیں، یہی سبب ہے کہ اس میں عربی، فارسی، ترکی وغیرہ کئی زبانوں کے الفاظ شامل ہیں۔ اور اب انگریزی بھی داخل ہوتی جاتی ہے اور ایک وقت ہو گا کہ عربی، فارسی کی طرح انگریزی زبان قابض ہو جائے گی، چنانچہ میں ایک نواب زادے کی گفتگو لکھتا ہوں جس کی پرورش اور تعلیم گھریلو ہے یعنی نہ عربی فارسی کی لفاظی نے اس پر رنگ چڑھایا ہہے، نہ انگریزی نے روغن پھیرا ہے۔ فقط دوستانہ بے تکلفانہ باتیں ہیں۔ "بڑے آکا کی پنشن لینے کل کچہری گیا تھا، ڈپٹی صاحب کے کمرے کے آگے کچھ قرقی کا مال نیلام ہو رہا تھا، کمریاں کوٹ اور واسکٹیں نئی تھیں، کنٹر اور گلاس بھی ولایتی تھے۔ کرسیاں، میزیں، چقیں باریک خوشرنگ تھیں۔ میں نے کہا چلو کوئی ڈھب کی چیز ہو تو لے لیں۔ منجھلے آکا بولے، جانے بھی دو، جس مال نے مالک سے وفا نہ کی، ہم سے کیا وفا کرے گا۔ آتے وہئے ریل اسٹیشن کے پاس دیکھتا ہوں کھبے مرزا جان چلے آتے ہیں۔ شکرم ٹھہرا کر بڑی تپاک سے ملے۔ بڑھاپے نے بچارے کا رنگ روپ سب کھو دیا، وہ شکل ہی نہیں وہ صورت ہی نہیں، کیسے گورے چٹے سجیلے جوان تھے۔ لوگ تصویریں اُترواتے تھے، میں نے کہا میاں! ہم نے تو جانا تھا تم دکھن سے خوب چاک و چوبند سُرخ سفید ہو کر آؤ گے تم تو سوکھ کر قاق ہو گئے، غضب کیا اگلا جوبن بھی گنوا آئے۔ ٹھنڈا سانس بھر کے بولے ہائے جوانی۔

فارسی عربی کے الفاظ تو ظاہر ہیں، مگر خیال کیجیے کہ قرق، چق، قاق آکا ترکی ہیں۔ میز (میز دری زبان میں ترجمہ ٹیبل کا ہے مگر اُردو کو یہ فارسی مروجہ سے نہیں ملا صاحب لوگوں سے پہنچا ہے۔)
 

شمشاد

لائبریرین
صفحہ 33

نامعلوم، نیلام پرتگالی ہے، کمرا اطالی ہے، ڈپتی، ریل، اسٹیشن، کوٹ، واسکٹ، کنٹر، گلاس انگریزی ہیں۔ چٹا، کھمبا پنجابی ہے، مگر اتنا ہے کہ ہم چٹا بغیر گورے کے اور اسی طرح چنگا بغیر بھلے کے نہیں بولتے، وہ اکیلا ہی بولتے ہیں۔ کھمبا پنجابی میں عام ہے۔ خاص صفت کے ساتھ بولتے ہیں۔ بھانڈا پھوڑنا اُردو میں کسی بات یا راز کھول دینے کو کہتے ہیں۔ پنجابی میں باسن کو بھانڈا ہی کہتے ہیں۔ گلا گھونٹنا اُردو میں بولتے ہیں۔ پنجابی میں کھینچ کر باندھنے کو یا مضبوط پکڑنے کو کہتے ہیں۔ مثلاً گُھٹ کر باندھو یا گُھٹ کر پکڑو۔ بھنا، بَھنانا توڑنا اور تڑوانا ہے، اور اسی سبب سے پنجابی میں روپیہ کے لئے بھنانا کہتے ہیں، اُردو میں پہلے معنے متروک ہو گئے، دوسرے معنے رہے، وہ بھی ۔۔۔۔۔۔۔۔۔ کر کے کہ جاؤ روپے کے ٹکے بُھنا لاؤ، اور اس اصلیت کا سُراغ یوں لگا کہ فارسی میں روپے کے لئے خوردہ کودن بولتے ہیں اور اُردو میں بھی کہتے ہیں، صُبح کو روپیہ خوردہ کیا تھا، دوپہر کو دیکھو تو برکت! یعنی سب پیسے اُٹھ گئے۔

کسوٹی،گھسنا مرادف فرسودن اُردو میں بالکسر ہے، پنجابی میں اس طرح بولتے ہیں کہ کاف مفتوح معلوم ہوتا ہے اور "ہ" کا تلفظ عجیب ہے کہ اِن ہی کے لہجہ کے لئے خاص ہے، بہرحال اس سے کس وٹی (گِھسنے کی بَٹیا) معیار کا نام ہوا، اُردو میں یہی لفظ کسوٹی ہو گیا۔

رُوپ، سجیلا، جوبن، گنوایا، برج بھاشا ہے، اِن کے علاوہ روزمرہ کی باتوں پر خیال کرو، یوسف، ہارون، موسیٰ، عیسٰے وغیرہ عبرانی ہیں، کیمیا، فیلسوف، اضطرلاب یونانی ہیں، اُرد یعنی ماش تامل ہے، ننھا یعنی خورد گجراتی ہے، بڑا جو کڑاہی میں تلتے ہیں، تنگو ہے، گدام ملایا کی زبان ہے، تمباکو امریکہ کا لفظ ہے، یورپ کے رستہ ہو کر اکبر کے عہد میں یہاں پہنچا۔
 

شمشاد

لائبریرین
صفحہ ۳۴

اُردو میں اس وقت نثر کی کوئی کتاب نہ لکھی گئی، جس سے سلسلہ ان تبدیلیوں کا معلوم ہو۔ میر جعفر زٹل کے کلام کو محمد شاہی بالکہ اس سے پہلے زمانہ کا نمونہ کہتا، مگر زٹل کا اعتبار کیا؟ البتہ محمد شاہ کے عہد میں ۱۱۴۵ھ میں فضلی تخلص کے ایک بزرگ نے وہ مجلس لکھی، اس کے دیباچہ میں سبب تالیف لکھتے ہیں، اور غالباً یہی نثر اُردو کی پہلی تصنیف ہے۔ پھر دل میں گزرا کہ ایسے کام کو عقل چاہیے، کامل اور مدد کسوطرف کی ہوئے شامل کیوں کہ بے تائیدِ صمدی اور بے مدد جنابِ احدی، یہ مشکل صورت پذیر نہ ہووئے اور گوہر مراد رشتہ امید میں نہ آوے، لہذا کوئی اس صنعت کا نہیں ہوا۔ مخترع اور اب تک ترجمہ فارسی بعبارتِ ہندی نثر نہیں ہوا، مستمع۔ پس اس اندیشہ عمیق سے غوطا کھایا اور بیابانِ تامل و تدبیر میں سرگشتہ ہوا لیکن راہ مقصود کی نہ پائی، ناگاہ نسیم عنایت الٰہی دل افگار پُر اہتزاز میں آی، یہ بات آئینہ خاطر میں منھ دکھلائی۔

میر کی مثنوی شعلہ عشق کو بھی مرزا رفیع نے نثر میں لکھا ہے۔ افسوس کہ اس وقت موجود نہیں۔ اس کا انداز بالکل یہی ہے کہ چند فقرے سودا کے ایک دیباچہ سے نقل کرتا ہوں جو کلیات میں موجود ہیں۔

نثر مرزا رفیع "ضمیر منیر پر آئینہ دارانِ معنی کے مبرہن کو محض عنایت حق تعالٰے کی ہے جو طوطی ناطقہ شیریں سخن ہو، پس یہ چند مصرع کہ از قبیل ریختہ در ریختہ، خامہ دو زبان اپنی سے صفحہ کاغذ پر تحریر پائے، لازم ہے کہ تحویلِ سخن سامعہ سنجان روزگار کروں، تازبانی اِن اشخاص کی ہمیشہ مور و تحسین و آفرین رہوں۔ شعر

قیمتِ در قدر شناساہی سے پہنچے ہے بہم
ورنہ دنیا میں خذف بھی نہیں گوہر سے کم​
 

شمشاد

لائبریرین
صفحہ 35

مضمون سینہ میں بیش از مرغِ اسیر نہیں کہ ہو بیچ قفس کے، جس وقت زبان پر آیا، فریاد بلبل ہے واسطے گوش دادرس کے، غرض جس اہل سخن کا دُر منصفی زینتِ لب ہے، سررشتہ حسنِ معانی کا اس کلام کے اس سے انصاف طلب ہے، اگر حق تعالٰے نے صبح کاغذ سفید کی مانند شام سیاہ کرنے کو یہ خاکسار خلق کیا ہے، تو ہر انسان کے فانوسِ دماغ میں چراغِ ہوش دیا ہے۔ چاہیے کہ دیکھ کر نکتہ چینی کرے ورنہ گزند زہر آلود سے بے اجل کاہے کو مرے۔"

اس تصنیف سے تخمیناً ۳۰ برس کے بعد جبکہ میر انشاء اللہ خاں اور مرزا جانجاناں مظہر کی دلی میں ملاقات ہوئی ہے، اس گفتگو کے چند فقرے بھی قابلِ غور ہیں۔ سید انشاء مرزا جانجاناں سے فرماتے ہیں۔

سید انشاء فرماتے ہیں

ابتدائے سِن صبا سے تا اوائلِ ریعان، اور اوائل ریعان سے الے الآن اشتیاقِ مالا یطاقِ تقبیل عتبہ نہ بحدے تھا کہ سلکِ تحریر و تقریر میں منظم ہو سکے لہذا بے واسطہ و وسیلہ حاضر ہوا ہوں۔

مرزا صاحب جواب میں فرماتے ہیں

اپنے تئیں کوں بھی بدرِ طفلی سے ہی ایسے اشخاص کے ساتھ موانست اور مجالست رہا کی ہے۔

لیکن (دیکھو صفحہ ۱۳۲) میر غفر غینی کے نام سے ایک گفتگو سید انشاء نے دریائے لطافت میں
 

شمشاد

لائبریرین
صفحہ ۳۶

لِکھی ہے اسے پڑھ کر تعجب آتا ہے کہ اس صاحبِ کمال نے یہ زبان کس فصاحت کے قالب میں ڈھالی تھی کہ ان عبارتوں میں اور اس میں زمین آسمان کا فرق ہے، شاید مرزا جانجانان اور سودا وغیرہ بزرگوں کی تحریر کچھ اور ہو گی، تقریر کا انداز اور ہو گا۔

بہرحال اس وقت تک انشاء پردازی اور ترقی اور وسعتِ زبانِ اُردو کی فقط شعراء کی زبان پر تھی، جن کی تصنیفات غزلیں عاشقانہ اور قصیدے مدحیہ ہوتے تھے اور غرض ان سے فقط اتنی تھی کہ اُمراء و اہلِ دل سے انعام لے کر گزارہ کریں یا تفریح طبع یا یہ کہ ہم چشموں میں تحسین و آفرین کا فخر حاصل کریں، وہ بھی فقط نظم میں نثر کے حال پر کسی کو اصلا توجہ نہ تھی، کیونکہ کاروائی مطالبِ ضروری کی سب فارسی میں ہوتی تھی مگر خدا کی قدرت دیکھو، تھوڑے عرصے میں کئی قدرتی سامان جمع ہو گئے اور سب سے مقدم سبب اس کی عام فہمی تھی کہ ہر شخص سمجھتا تھا، اس لئے لکھنے والوں کو اسی میں داد واہ لینے کا شوق ہوا۔ میر محمد حسین تحسین نے چہار درویش کا قصہ اُردو میں لکھ کر نو طرز مرصع نام رکھا، شجاع الدولہ کے عہد میں تصنیف شروع ہوئی، ۱۷۹۷ء (1213ھ) نواب آصف الدولہ کے عہد میں ختم ہوئی۔

ادھر تو یہ چونچال لڑکا شعرا ء کے جلسوں اور اُمرو ء کے درباروں میں اپنے بچپنے کی شوخیوں میں سب کے دل بہلا رہا تھا، اُدھر دانائے فرنگ جو کلکتہ میں فورٹ ولیم کے قلعہ پر دُوربین لگائے بیٹھا تھا، اُس نے دیکھا، نظرباز تاڑ گیا، کہ لڑکا ہونہار ہے، مگر تربیت چاہتا ہے، تجویز ہوئی کہ جس ملک پر حکمرانی کرتے ہیں، اُس کی زبان سیکھنی واجب ہے، چنانچہ ۱۷۹۹ ء (۱۲۱۴ھ) میں میر شیر علی افسوس نے باغ اُردو اور ۱۸۰۵ ء (۱۲۴۰ھ) میں آرائش محفل لکھی۔ میر امن دہلوی نے ۱۸۰۲ ء (۱۲۱۷ھ) میں باغ و بہار آراستہ کیا۔
 

شمشاد

لائبریرین
صفحہ 37

اور انہی دنوں میں اخلاق محسنی کا ترجمہ لکھا۔ ساتھ ہی جان گلگرسٹ صاحب نے انگریزی میں قواعد اُردو لکھی۔ 1802 عیسوی (۱۲۱۸ھ) میں شری للوجی لال کوی نے پریم ساگر (پریم ساگر 1860 میں بھاشا ہوئی) لکھی، اور بتیال پچیسی (بتیال پچیسی 1805 عیسوی میں مظہر علی دلا نے اُردو میں لکھی) جو محمد شاہ کے زمانہ میں سنسکرت سے برج بھاشا میں آئی تھی، اب عام فہم اُردو ہو کر ناگری میں لکھی گئی، لیکن اس نقارہ فخر کی آواز کو کوئی دبا نہیں سکتا، کہ میر انشاء اللہ خان پہلے شخص ہیں جنہوں نے 1807ء (1322ھ) میں دریائے لطافت لکھ کر ایجاد کی ٹہنی میں ظرافت کے پھول کھلائے۔

عجیب لطف یہ ہے کہ زبانِ اُردو کی عام فہمی دیکھ کر مذہب نے بھی اپنی برکت کا ہاتھ اُس کے سر پر رکھا یعنی 1807ء (1322ھ)میں مولوی شاہ عبد القادر صاحب نے قرآن شریف کا ترجمہ اُردو میں کیا، بعد اس کے مولوی اسمٰعیل صاحب نے بعض رسالے عام اہلِ اسلام کی فہمائش کے لئے اُردو میں لکھے۔

1835 عیسوی سے دفاترِ سرکاری بھی اُردو ہونے شروع ہوئے۔ چند سال کے بعد کُل دفتروں میں اُردو زبان ہو گئی، اسی سنہ میں اخباروں کو آزادی حاصل ہوئی۔ ۱۸۳۶ عیسوی میں اُردو کا اخبار دلی میں جاری ہوا، اور یہ اس زبان میں پہلا اخبار تھا کہ میرے والد مرحوم کے قلم سے نکلا۔

غرض اپنی آسانی کے وصف سے اور اس لحاظ سے کہ ملکی زبانی یہی ہے، دفتری زبان بھی یہی ٹھہری۔ اُردو نے آہستہ آہستہ فارسی کو پیچھے ہٹانا اور اپنا قدم آگے بڑھانا شروع کیا، تب سرکار نے مناسب سمجھا کہ اس ملک کے لوگوں کو ان ہی کی
 

شمشاد

لائبریرین
صفحہ 38

زبان میں انگریزی علوم و فنون سکھائے جائیں۔ چنانچہ 1842 عیسوی سے دلی میں سوسائٹی قائم ہو کر ترجمے ہونے لگے اور ضرورت علمی الفاظ بہم پہنچانے لگی، خیال کرو کہ جس زبان کی فقط اتنی بنیاد ہو وہ زبان کیا اور اُس کی وسعت کا میدان کیا، البتہ اب امید کر سکتے ہیں کہ شاید یہ بھی ایک دن علمی زبانوں کے سلسلہ میں کوئی درجہ پا جائے۔

اُردو اس قدر جلد جلد رنگ بدل رہی ہے کہ ایک مصنف اگر خود اپنی ایک سنہ کی تصنیف کو دوسرے سنہ کی تصنیف سے مقابلہ کرے تو زبان میں فرق نظر آئے گا۔ باوجود اس کے اب تک بھی اس قابل نہیں کہ ہر قسم کے مضمون خاطر خواہ ادا کر سکے یا ہر علم کی کتاب کو بے تکلف ترجمہ کر دے۔ اس کا سبب یہ ہے کہ اکثر علوم اور ہزاروں مسائل علمی ممالکِ فرنگ میں ایسے نکلے ہیں کہ زمانہ سلف میں بالکل نہ تھے، اس واسطے عربی، فارسی، سنسکرت، بھاشا وغیرہ جو کہ اُردو کے بزرگ ہیں، اُن کے خزانہ میں اس کے ادائے مطلب کے لئے الفاظ نہیں اور اس میں ہم اُردو بچاری کے افلاس پر چنداں تعجب نہیں کر سکتے۔ خصوصاً جب کہ ہندو مسلمان اپنے اپنے بزرگوں کی میراث کو بھی ہاتھ سے کھوئے بیٹھے ہوں۔

*-*-*-*-*-*-*-*-*-*-*-*-*-*-*-*-*-*-*-*-*​
 

شمشاد

لائبریرین
صفحہ ۳۹

برج بھاشا پر عربی اور فارسی زبانوں نے کیا کیا اثر کئے؟

جب دو صاحبِ زبان قومیں باہم ملتی ہیں تو ایک کے رنگ و رُوپ کا دوسرے پر ضرور سایہ پڑتا ہے، اگرچہ اس کے اثر، گفتگو، لباس، خوراک، نشست، برخاست مختلف رسوم میں بھی ہوتے ہیں، لیکن چونکہ مجھے اس مقام پر زبان سے غرض ہے، اس لئے اسی میں گفتگو کرتا ہوں، ظاہر ہے کہ جب ایک قوم دوسرے قوم میں آتی ہے، تو اپنے ملک کی صدہا چیزیں ایسی لاتی ہے کہ جو یہاں نہیں تھیں، اشیائے مذکورہ کبھی ضروری اور کبھی ایسی باعثِ آرام ہوتی ہیں، کہ اُنھیں استعمال میں لینا ضروریات زندگی سے نظر آتا ہے، اس لئے یہ لوگ انھیں غنیمت سمجھ کر لیتے ہیں اور بخوشی کام میں لاتے ہیں، ان اشیاء میں سے بہتیری چیزیں تو نام اپنے ساتھ لاتی ہیں اور بہتیری نئی ترکیب سے، یا ادل بدل کر یہاں نیا نام پاتی ہیں اور یہ پہلا اثر دوسری زبان کا ہے، اس کے علاوہ جب یہ دونوں ایک جگہ رہ سہہ کر شیر و شکر ہوتی ہیں تو ایک زبان میں دوسری زبان کے لفظ گھل مِل جاتے ہیں۔

جب مہمان و میزبان ایک دوسرے کی زبان سمجھنے لگتے ہیں تو ایک خوشنما اور مفید تبدیلی کے لئے رستہ پیدا ہوتا ہے، کیوں کہ اگرچہ طبعِ انسانی کے اتحاد سے سب کے خیالات متفق یا قریب قریب ہوں مگر اندازِ بیان سب کا جُدا جُدا ہے، اور طبیعت ہمیشہ نئے
 

شمشاد

لائبریرین
صفحہ ۴۰

انداز کو پسند کرتی ہے۔ اس لئے ادائے مطلب میں ایک دوسرے کے اندازِ بیان سے بھی فائدہ اُٹھاتے ہیں، پھر نئی نئی تشبیہیں، لطیف استعارے لے کر اپنی پُرانی تشبیہوں اور مستعمل استعاروں کا رنگ بدلتے ہیں اور جس قدر زبان میں طاقت ہے، ایک دوسرے کے خیالات اور نئی طرز کو لے کر اپنی زبان میں نیا مزہ پیدا کرتے ہیں۔

یہ انقلاب حقیقت میں وقت بوقت ہر ایک زبان پر گزرتا ہے، چنانچہ قومِ عرب نے جو ایک زمانہ میں رُوم، یونان اور ہسپانیہ وغیرہ سے خلط ملط ہوئی تھی، ہزاروں لفظ علمی اور غیر علمی وہاں سے لئے، اسی طرح فارسی زبان عربی و ترکی وغیرہ الفاظ سے مالا مال نظر آتی ہے، انگریزی کے باب میں مجھے کچھ کہنا زیبا نہیں، کیونکہ اب روشن ضمیر انگریزی خوان بہت ہیں، اور مجھ سے زیادہ جانتے ہیں، مگر اتنا کہنا کافی ہے کہ جس طرح ایک مہذب سلطنت کو تمام ضروریاتِ سلطنت کے کارخانے اور ملکی سامان کی ضرورت ہے، اسی طرح سب قسم کے الفاظ اور تمام ادائے خیالات کے انداز انگریزی زبان میں موجود ہیں۔

اب مجھے اپنی زبان میں گفتگو کرنی چاہیے لیکن اتنا یاد دلانا واجب ہے کہ اُردو کہاں سے نکلی ہے اور کیوں کر نکلی ہے؟ اُردو زبان اول لین دین، نشست برخاست کی ضرورتوں کے لئے پیدا ہو گئی، ہندوؤں کے ساتھ ہندی مسلمان جو اکثر ایرانیوں یا ترکستانیوں کی اولاد تھے، ہندوستان کو وطن اور اس زبان کو اپنی زبان سمجھنے لگے، یہ بھی ظاہر ہے کہ جس طرح زمین بے روئیدگی کے نہیں رہ سکتی، اسی طرح کوئی زبان بے شاعری کے نہیں رہ سکتی۔ محمد شاہی دَور تھا اور عیش و عشرت
 

شمشاد

لائبریرین
صفحہ ۴۱

کی بہار تھی، ان شرفا کو خیال آیا ہو گا کہ جس طرح ہمارے بزرک اپنی فارس کی انشاء پردازی میں گلزار کھلاتے تھے، اب ہماری زبان یہی ہے، ہم بھی کچھ اس میں رنگ دکھائیں، چنانچہ وہی فارس کے خاکے اُردو میں اُتار کر غزل خوانیاں شروع کر دیں اور قصیدے کہنے لگے، اور اس میں کچھ شک نہیں کہ جو کچھ قوتِ بیان یا لفظوں کی تراش، یا ترکیبوں کی کوبصورتی یا تشبیہ اور استعاروں کی رنگینی غرض اول جو کچھ نصیب ہوا، شعرائے اُردو کی بدولت ہوا اور یہی سبب ہے کہ جو کچھ سامان ایک مللی اور ٹکسالی زبان کے لئے درکار ہوتے ہیں، اُس سے یہ زبان مفلس رہی، کیوں کہ اِس عہد میں علوم و فنون، تاریخ، فلسفہ، ریاضی وغیرہ کا چرچا عام ہوتا تو اس کے لئے بھی الفاظ ہو جاتے، جن جن باتوں کا چرچا تھا، انہی سامانوں کے الفاظ اور خیالات پیدا ہوئے، ہاں یہ کہنا ضرور چاہیے کہ جو کچھ ہوا تھا، اپنے رنگ پر خوب ہوا تھا۔

اب ہمیں پھر مطلب پر آنا چاہیے کہ بھاشا نے اُردو کے کپڑے پہننے کے لئے فارسی سے کیا کیا لیا۔

۱) ان چیزوں کے نام لئے جو عرب اور فارس سے آئیں اور اپنے نام اپنے ساتھ لائیں، مثلاً لباس میں فرغل، کُرتہ، قبا، چوغا، آستین، گریبان، پائجامہ، ازار، عمامہ، رومال، شال، دوشالہ، تکیہ، گاؤ تکیہ، برقع، پوستین، وغیرہ۔

کھانے کے ذیل میں : دسترخوان، چپاتی، شیرمال، باقرخانی، پلاؤ، زردہ، مزعفر، قلیہ، قورمہ، متنجن، فرنی، ماقوتی، حریرہ، حریسہ، لوز، مربے، اچار، فالودہ، گلاب، بید مشک، کوان، طبق، رکابی، قشتری، کفگیر، چمچہ، سینی،
 
کیفیت
مزید جوابات کے لیے دستیاب نہیں
Top