شمشاد
لائبریرین
صفحہ ۲۲
ورق ورق برباد کئے گئے اور ہزاروں کتابیں فلسفہ الٰہی اور علوم و فنون کی تھیں کہ نابود ہو گئیں، جبکہ یونانیوں نے ملک پر غلبہ پایا تو زبان نے زبانوں پر بھی زور دکھایا ہو گا۔ تھوڑے ہی دنوں میں پارتھیا والوں کا عمل دخل ہو گیا، وہ ایران جسے ہزاروں برس سے ملک گیری کے نشان سلامی اُتارتے تھے اور تہذیب و شائستگی اُس کے دربار میں سر جھکاتے تھے۔ پانچ سو برس تک ظفریابوں کے قبصہ میں دبا رہا، اور ژند کی کتب مقدسہ ڈھونڈھ ڈھونڈھ کر فنا کی گئیں۔
۲۰۰ عیسوی میں پھر تنِ بے جان میں سانس آیا۔ اور ساسانیوں کی تلواروں میں قدیمی اقبال نے چمک دکھائی، ان بادشاہوں نے ملک و مملکت کی قدامت کے ساتھ بُجھتے ہوئے مذہب کو بھی روشن کیا۔ گرے ہوئے آتش خانوں کو پھر اُٹھایا اور جہاں جہاں سے پھٹے پُرانے اوراقِ پریشاں ہاتھ آئے، بہم پہنچائے۔ اُن ہی کی کوششوں کی کمائی تھی جو پھر ساڑھے چار سو برس بعد علم اسلام کے قربان ہوئی۔ اس معاملہ میں ہمیں نیک نیت پارسیوں کا شکریہ نہ بھولنا چاہیے، کیونکہ باوجود تباہی اور خانہ بربادی کے جو پُرانا کاغذ کسی بااعتقاد کے ہاتھ آیا وہ جان کے ساتھ ایمان کو بھی لیتا آیا۔ بندر سورت، گجرات وغیرہ ملکوں میں آج تک اسی نور سے آتش خانے روشن ہیں، جو کچھ ان کے پاس ہے وہ اُن تصنیفات کا بقیہ ہے جو ساسانیوں کے عہد میں ہوئی، کتبِ مذکورہ و دونوں زبانوں کا لفظی اتفاق ہی نہیں ثابت کرتیں بلکہ اُن کے اتحاد و اعتقاد پر بھی شہادت دیتی ہیں جو چار برن ہندوؤں میں، وہی ایران میں تھے، اجرام آسمانی کی عظمت واجب تھی، حیوانات بے آزار کا مارنا گناہِ عظیم تھا، تناسخ کا مسئلہ دونوں میں یکساں تھا، آتش، آب، خاک، باد، ابر، بجلی، گرج، ہوا، وغیرہ وغیرہ اشیاء کے لئے ایک ایک دیوتا مانا ہوا تھا، جس کے
ورق ورق برباد کئے گئے اور ہزاروں کتابیں فلسفہ الٰہی اور علوم و فنون کی تھیں کہ نابود ہو گئیں، جبکہ یونانیوں نے ملک پر غلبہ پایا تو زبان نے زبانوں پر بھی زور دکھایا ہو گا۔ تھوڑے ہی دنوں میں پارتھیا والوں کا عمل دخل ہو گیا، وہ ایران جسے ہزاروں برس سے ملک گیری کے نشان سلامی اُتارتے تھے اور تہذیب و شائستگی اُس کے دربار میں سر جھکاتے تھے۔ پانچ سو برس تک ظفریابوں کے قبصہ میں دبا رہا، اور ژند کی کتب مقدسہ ڈھونڈھ ڈھونڈھ کر فنا کی گئیں۔
۲۰۰ عیسوی میں پھر تنِ بے جان میں سانس آیا۔ اور ساسانیوں کی تلواروں میں قدیمی اقبال نے چمک دکھائی، ان بادشاہوں نے ملک و مملکت کی قدامت کے ساتھ بُجھتے ہوئے مذہب کو بھی روشن کیا۔ گرے ہوئے آتش خانوں کو پھر اُٹھایا اور جہاں جہاں سے پھٹے پُرانے اوراقِ پریشاں ہاتھ آئے، بہم پہنچائے۔ اُن ہی کی کوششوں کی کمائی تھی جو پھر ساڑھے چار سو برس بعد علم اسلام کے قربان ہوئی۔ اس معاملہ میں ہمیں نیک نیت پارسیوں کا شکریہ نہ بھولنا چاہیے، کیونکہ باوجود تباہی اور خانہ بربادی کے جو پُرانا کاغذ کسی بااعتقاد کے ہاتھ آیا وہ جان کے ساتھ ایمان کو بھی لیتا آیا۔ بندر سورت، گجرات وغیرہ ملکوں میں آج تک اسی نور سے آتش خانے روشن ہیں، جو کچھ ان کے پاس ہے وہ اُن تصنیفات کا بقیہ ہے جو ساسانیوں کے عہد میں ہوئی، کتبِ مذکورہ و دونوں زبانوں کا لفظی اتفاق ہی نہیں ثابت کرتیں بلکہ اُن کے اتحاد و اعتقاد پر بھی شہادت دیتی ہیں جو چار برن ہندوؤں میں، وہی ایران میں تھے، اجرام آسمانی کی عظمت واجب تھی، حیوانات بے آزار کا مارنا گناہِ عظیم تھا، تناسخ کا مسئلہ دونوں میں یکساں تھا، آتش، آب، خاک، باد، ابر، بجلی، گرج، ہوا، وغیرہ وغیرہ اشیاء کے لئے ایک ایک دیوتا مانا ہوا تھا، جس کے