آب حیات - مولانا محمد حسین آزاد (مرحوم)

کیفیت
مزید جوابات کے لیے دستیاب نہیں

شمشاد

لائبریرین
صفحہ 42

کشتی، چائے، جوش وغیرہ۔

متفرقات میں : حمام، کیسہ، صابون، شیشہ، شمع، شمعدان، فانوس، گلگیر، تنور، رفیدہ، مشک، نماز، روزہ، عید، شب برات، قاضی، ساقی، حقہ، نیچہ، چلم، تفنگ، بندوق، تختہ زد، گنجفہ اور اُن کی اصطلاحیں، یہ سب چیزیں اپنے نام ساتھ لے کر ائیں، بہت سی چیزیں آئیں کہ بھاشا میں اُن کے لئے نام نہیں، سنسکرت کی کتابوں میں ہوں گے، پستہ، بادام، منقے، شہتوت، بیدانہ، خوبانی، انجیر، سیب، بہی، ناشپاتی، انار وغیرہ،

۲) بہت سے عربی فارسی کے لفظ کثرتِ استعمال سے اس طرح جگہ پکڑ بیٹھے ہیں کہ اب اُن کی جگہ کوئی سنسکرت یا قدیمی بھاشا کا لفظ ڈھونڈھ کر لانا پڑتا ہے۔ مگر اس میں یا تو مطلب اصلی فوت ہو جاتا ہے، یا زبان ایسی مشکل ہو جاتی ہے کہ عوام تو کیا خواص ہنود کی سمجھ میں نہیں آتی، مثلاً دلآل، فراش، مزدور، وکیل، جلاد، صراف، مسخرا، نصیحت، لحاف، توشک، چادر، صورت، شکل، چہرہ، طبیعت، مزاج، برف، فاختہ، قمری، کبوتر، بلبل، طوطا، پر، دوات، قلم، سیاہی، جلاب، رقعہ، عینک، صندوق، کرسی، تخت، لگام رکاب، زین، تنگ، پوزی، فعل، کوتل، عقیدہ، وفا، جہاز، مستول، بادبان، تمہت، درہ، پردہ، دالان، تہ خانہ، تنخواہ، ملاح، تازہ، غلط، صحیح، رسد، سرباری، کاریگر، ترازو، شطرنج کے باب میں تعجب ہے کہ خاص ہندو کا ایجاد ہے، مگر عرب اور فارس سے جو پھر کر آئی تو سب اجزاء کے نام اور اصطلاحیں بدل آئی۔

(حاشیہ : بہت سی چیزیں ہندی کی ہیں مگر اپنے نام کھو بیٹھیں۔)

سینکڑوں لفظ عربی، فارسی کے یہاں آئے، مگر ہوا موافق نہ آئی، اس لیے مزاج
 

شمشاد

لائبریرین
صفحہ 43

اور صورت بگڑ گئی۔ مثلاً مرغا وغیرہ، دیکھو صفحہ ۵۱۔

صرف میں فارسی نے ہندی پر کیا اثر کیا​

صرف۔ میں فارسی سے کچھ نہیں لیا۔ خود اتنا کیا کہ دن علامت جمع ہندی کو عربی فارسی لفظوں پر بھی لگا لیا، مثلاً آدمیوں، انسانوں، درختوں، میوؤں۔

اسمِ فاعل : فارسی عربی کے بے شمار لئے اور ان میں شطرنج باز کے قیاس پر چوپڑ باز اور وفادار کے قیاس پر ظرفاً سمجھ دار سمجھ ناک بھی بول دیتے تھے۔ باغبان کے قیاس پر گاڑی بان، ہاتھی بان، بہلبان، مگر بان اور دان حقیقت میں ایک ہیں کیونکہ اصل میں دونوں زبانیں ایک دادا کی اولاد ہیں، اس کی تحقیق جیسی کہ چاہیے فارسی لکچروں میں لکھی ہے۔

اسمِ ظرف : قلمدان وغیرہ کے قیاس پر خاصدان، پاندان، ناگردان، پیک دان، مودیخانہ، پیخانہ۔

بابِ حروف کا بھی یہی حال ہے، مثلاً حرف، تشبیہ کوئی نہیں لیا، مگر چنانچہ اور چونکہ موجود ہیں اور اس طرح آتے ہیں کہ ترجمہ کے لئے ہندی حرف معلوم ہی نہیں ہوتا۔

حرفِ شرط میں اگر، اور اس سے اگرچہ بھی لیا۔

واؤ عاطفہ : سمیت، معطوف اور معطوف علیہ، اُردو عبارت میں لے لئے مثلاً آب و ہوا، شب و روز، صبح و شام، زور و شور۔

حرفِ استثنا میں سے مگر اور عربی کے لفظ سوا، ماسوا، الا، والانہ، لیکن و لیکن لے لئے۔ اپنے حرفوں کو گم کر دیا۔

حروفِ نفی نا اور بنا کی جگہ نہ اور نے، آ گئے
 

شمشاد

لائبریرین
صفحہ 44

حروفِ ایجاب رہے مگر ادب کی جگہ میں، سب بچن وغیرہ کی جگہ بجا، درست، واقعی، حق، بے شک، برحق، بہ سر و چشم، آ گئے، اصل زبان کے لفظ نہ رہے۔

حروفِ تاکید کی جگہ ہرگز، زنہار، ضرور، البتہ آ گئے۔ اصلی لفظ گم ہو گئے۔

حروفِ تردید کی جگہ با، خواہ ہیں، اصل گم۔

حروفِ تمنا میں سے کوئی حرف نہیں۔ کاش فارسی کا لفظ ہے۔

حروفِ ترقی میں بل تو نہیں بولتے، بلکہ اپنے موقع پر آتا ہے۔

اسم کی بحث میں اسمائے اشارہ میں سے کچھ نہیں لیا، مگر ازانجاکہ، باآنکہ، باآینکہ، مرکب ہو کر بہت آتے ہیں۔

موصولات میں سے کچھ نہیں لیا، مگر کاف بیانیہ اس طرح آنے لگا کہ بے اس کے کلام ہی بے مزہ ہو جاتا ہے۔ کیسا، ایسا، جیسا کی جگہ کس طرح وغیرہ کس وضع وغیرہ ، کتبا، اتنا، جتنا کی جگہ کس قدر وغیرہ بولنے لگے۔

یائے نسبت کی ترکیبوں میں فارسی عمومی کے بموجب نسبتی الفاظ بولنے لگے چنانچہ دلی وال کی جگہ دہلوی بولتے ہیں۔ اسی طرح اور الفاظ ہیں اور عورتونمیں شیخانی، سیدانی، اُستانی وغیرہ وغیرہ۔

باوجودیکہ ہندی کے مصدر موجود تھے، مگر صدہا مصادر مرکبہ بنا لئے مثلاً مانا اب کہتے ہیں، ہر چند سمجھایا، اُس نے منظور نہ کیا، کسی عنوان قبول نہ کیا یعنی نہ مانا۔

مُکرنا : اب کہتے ہیں، پہلے قبول دیا تھا پھر انکار کر گیا یعنی مُکر گیا۔

سوچنا : اب کہتے ہیں ہر چند فکر کرتا ہوں، عقل کام نہیں کرتی۔

پچتانا : اپنے کئے پر بہت پشیمان ہوا، مگر اب کیا ہو سکتا ہے یعنی پچتانا۔
 

شمشاد

لائبریرین
صفحہ 45

اسی طرح خوش ہونا، غصے ہونا، خفا ہونا، تنگ ہونا، دق ہونا، غمگین ہونا، تماشہ دیکھنا، سیر کرنا، انتظار کرنا، راہ دیکھنا، یہاں تک کہ بہتیرے مصدروں کی اصل ہندی گم ہو گئی، اس سے بڑھ کر یہ عربی فارسی کے مصدر یا مشتقات لیکر ہندی کا اشتقاق کر لیا۔

گزشتن سے گزرنا، اور اسکے افعال محاورہ ہے کہ گئی گزری بات کا اب کیا کہنا۔

فرمودن سے فرمانا، اور اس کے بہت سے افعال۔

قبول سے قبولنا محاورہ ہے، بڑا عادی چور تھا، ہرگز نہ قبولا۔

بدل سے بدلنا اور اسکے بہت سے افعال محاورہ ہے، کہ اَدلے کا بدلہ ہے صاحب۔

بخشیدن سے بخشنا

نواختن یا نوازس سے نوازنا۔

کاہلی سے کہلانا، میاں مجبور ایک قدیمی شاعر تھے۔ اُستاد مرحوم اُن کی باتیں کیا کرتے تھے کہ بڈھے دیرینہ سال تھے، مکتب پڑھایا کرتے تھے، ایک دفعہ مشاعرہ میں غزل پڑھی، دیکھا کس خوبصورتی سے فعل مشتق بٹھایا ہے۔ شعر

باتیں دیکھ زمانہ کی، جی بات سے بھی کُمھلاتا ہے
خاطر سے سب یاروں کی مجبور غزل کیا لاتا ہے​

نحو میں ترکیب اضافی، ترکیب توصیفی، کہیں مبتدا، کہیں کبر ہو کر تمام ہندی پر چھا گئی۔ اس میں پہلا فائدہ یہ ہوا کہ اختصار کے لحاظ سے لفظوں کا پھیلاؤ کم ہو گیا۔

دوسرے جمع موصوف ہوا تو اسم صفت موصوف کو بھی اس کے لئے جمع لاتے تھے، اب واحد لاتے ہیں۔ شعر

ملائم ہو گئیں دل پر بَرہ کی ساعتیں کڑیاں
پہر کٹنے لگے اُن بِن نہ کٹتیں جن بنا گھڑیاں​

اب گھڑی ساعتیں بولتے ہیں۔
 

شمشاد

لائبریرین
صفحہ 46

تیسرے صیغہ مضارع بمعنے حال، سودا

نالہ سینے سے کرے عزمِ سفر آخر شب
راہ رو چلنے پہ باندھے ہے کم آخر شب​

چوتھے یہ کہ اقسام اضافت میں تشبیہ اور استعارے کے رنگ سے سیدھی سادی زبان رنگین ہو گئی۔ چنانچہ بھاشا میں کہنا ہو تو کہیں گے، راج کنور کے دل کے کنول کی کملاہٹ دربار کے لوگوں سے نہ دیکھی گئی، اُردو میں کہیں گے، شہزادہ کے غنچہ دل کی کُملاہٹ اہل دربار سے نہ دیکھی گئی۔

ولی وغیرہ متقدین کے کلاموں میں ایسی ترکیبیں بہت ہیں، بلکہ آدھے آدھے اور سارے سارے مصرع فارسی کے ہیں۔ مگر کچھ اور طرح سے علٰی ہذا القیاس بھاشا کے الفاظ اور ترکیبیں بھی زیادہ ہیں اور اس طرح ہیں کہ آج لوگوں کو فصیح نہیں معلوم ہوتیں، اس کی مثال ایسی ہے گویا دودھ میں مٹھاس ملائی مگر وہ ابھی اچھی طرح گُھلی نہیں۔ ایک گھونٹ خاصا میٹھا، ایک بالکل پھیکا ہے، پھر ایک مصری کی ڈلی دانت تلے آ گئی، ہاں اب گُھل مل کر وہ مرتبہ حاصل ہوا جسے شیر و شکر کہتے ہیں۔ بعض اشخاص یہ بھی کہتے ہیں کہ خالی بھاشا میں کچھ مزہ نہیں، اُردو خواہ مخواہ طبیعت کو بھلی معلوم ہوتی ہے مگر میری عقل دونوں باتوں میں حیران ہے، کیونکہ جب کوئی کہے آج ایک شخص آیا تھا، یا یہ کہیں کہ ایک منش آیا تھا، تو دونوں یکساں ہیں، کیوں کر کہوں کہ منش مخالف طبع ہے۔ یہ بھی تو ہو سکتا ہے کہ ہم بچپن سے "شخص" سنتے ہیں، اس لئے ہمیں منش یا مانس نامانوس معلوم ہوتا ہے، اسی طرح اور الفاظ جن کی تعداد شمار سے باہر ہو گئی ہے۔

اس سے زیادہ تعجب یہ ہے کہ بہت سے لفظ خود متروک ہیں، مگر دوسرے لفظ سے ترکیب پا کر ایسے ہو جاتے ہیں کہ فصحا کے محاورہ میں جان ڈالتے ہیں، مثلاً یہی
 

شمشاد

لائبریرین
صفحہ ۴۷

مانس کہ اکیلا محاورہ میں نہیں مگر سب بولتے ہیں کہ احمد ظاہر میں تو بھلا مانس معلوم ہوتا ہے باطن کی خبر نہیں۔

بُندھو! بھاشا میں بھائی یا دوست کو کہتے ہیں۔ اب محاورہ میں بھائی بُند کہتے ہیں۔ نہ فقط بندھو، نہ بھائی بندھو اور ان استعمالوں کی ترجیح کے لئے دلیل کسی کے پاس نہیں جو کچھ جس زمانہ میں رواج ہو گیا وہی فصیح ہو گیا۔ ایک زمانہ آئے گا، ہمارے محاورہ کو لوگ بے محاورہ کہہ کر ہنسیں گے۔

اگرچہ یہ بات بغیر تمثیل دیکھنے کے بھی ہر شخص کے خیال میں تقش ہے کہ سنسکرت اور برج بھاشا کی مٹی سے اُردو کا پُتلا بنا ہے، باقی اور زبانوں کے الفاظ نے خط و خال کا کام کیا ہے مگر میں چند لفظ مثالاً لکھتا ہوں، دیکھو سنسکرت الفاظ جب اُردو میں آئے تو اُن کی اصلیت نے انقلابِ زمانہ کے ساتھ کیوں کو صورت بدلی ہے۔

(1) چُورن – سنسکرت ہے یعنی آٹا۔ بھاشا میں چون کہتے ہیں، اُردو میں چُورن پسی ہوئی دوا کو کہتے ہیں، اور کُٹی ہوئی چیز کے نیچے جو باریک اجزا رہجائیں وہ چُورا ہے۔

(2) پشٹ – سنسکرت ہے۔ برج بھاشا میں پسان اسی سے ہے، پسنہاری اُردو میں پیٹھی پسی ہوئی دال کے لئے خاص ہو گئی اور پیسنا مصدر ہو گیا۔

(3) اٹ – جسے برج بھاشا اور اُردو دونوں میں آٹا کہتے ہیں۔

(4) وارتا، یا درت اُردو میں بات ہو گئی۔

(5) چتردھر – اُردو میں چودھری ہو گیا۔

(6) چندر، چاندری، سنسکرت ہے، اُردو میں چاند اور چاندنی ہو گیا۔

(7) (گڈھ) گڑھ، گھر یعنی خانہ، اور کیا عجب ہے، کہ فارسی میں کد یا کدہ بھی یہی ہو۔
 

شمشاد

لائبریرین
صفحہ 48

(8) ہست – ہاتھ ہے۔

(9) ہستی کا ہاتھی ہو گیا۔

(10) بازو – سنسکرت ہے، بھاشا، باور، اُردو بادل یعنی ابر ہو گیا۔

(11) دَل – ایک ایک چیز کے دو دو ٹکڑے کرنے کو کہتے ہیں، بھاشا اور اُردو میں دال خاص غلہ کے لئے اور دَلنا مصدر نکل آیا۔

(12) کشیر دودھ، بھاشا، کھیر، یا چھیر اُردو میں دودھ چاول سے تیار ہوتی ہے۔

(13) وُگدھ سنسکرت ہے، بھاشا دُدھ ہوا، اب اُردو میں دودھ کہتے ہیں۔

(14) ماش یا ماکھ، ماس، اُردو میں مہینا ہو گیا۔

(15) گانڈا، اُردو میں گنا ہو گیا مگر گنڈیری میں ڈال باقی رہی، بہت سے الفاظ ہیں کہ عربی فارسی نے اُردو کو دیئے، اُردو نے کہیں تو لفظوں میں کچھ تصرف کیا، معنی وہی رکھے، کہیں لفظوں کو سلامت رکھا، معنے کچھ سے کچھ کر لئے، مثلاً :

فیلسوف – یونانی لفظ ہے، بمعنی محب الحکمت، جسے عربی میں حکیم اور انگریزی میں ڈاکٹر یا فلوزفر کہتے ہیں، مگر اُردو والے دغاباز اور مکار کو کہتے ہیں اور فیلسوفی مکاری۔

ابا – اما – اب اور اُم سے نکلے ہین۔

خصم – عربی میں بمعنی مقابل یا دشمن ہے مگر اُردو میں خاوند بمقابل جورو کے ہے جس سے زیادہ کوئی دنیا میں عزیز نہیں۔

تماشا – سَیر، عربی میں فقط بمعنی رفتار ہے، اُردو میں کہتے ہیں، چلو باغ کی سیر دیکھ ائیں عجب تماشا ہے۔

اخلاص – عربی میں خالص کرنے کو کہتے ہیں، اُردو والے پیار، اخلاص
 

شمشاد

لائبریرین
صفحہ 49

محبت ایک معنوں میں بولتے ہیں۔

خیرات ۔ عربی لفظ ہے، یعنی نیکیاں، اُردو میں خیرات دو، صدقہ اُتار دو۔

تکرار ۔ عربی میں دوبارہ کہنے یا کام کرنے کو کہتے ہیں، اُردو میں نزاع یا جھگڑے کو کہتے ہیں۔

طوفان ۔ عربی لفظ ہے۔ فارسی میں کسی شے کی حالتِ افراط کو کہتے ہیں، اُردو میں بمعنے تہمت بھی آتا ہے۔

خفیف ۔ عربی میں ہلکی شے کو کہتے ہیں، ہندی میں کہتے ہیں، وہ مجھ سے ذرا ملے تو سہی دیکھو کیسا خفیف کرتا ہوں یعنی شرمندہ۔

مصالح ۔ جمع مصلحت، یا صلح کا مخفف ہے، اُردو میں گرم مصالح وغیرہ اور سامانِ عمارت کو بھی مصالح کہتے ہیں۔

خاطر ۔ عربی فارسی میں دل یا خیال کے موقع پر بولتے ہیں، اُردو میں کہتے ہیں کہ بھلا ایک گھونٹ تو ہماری خاطر سے بھی لو یا ان کی بڑی خاطر کی۔

دستوری ۔ جن معنوں میں یہاں بولتے ہیں، یہ یہیں کا ایجاد ہے۔ پنجابی میں جھونگا کہتے ہیں۔

روزگار ۔ فارسی یں زمانہ کو کہتے ہیں، ہندی میں روزگار نوکری ہے۔

رومال ۔ جن معنوں میں یہاں بولتے ہیں یہ یہیں کا ایجاد ہے، فارسی میں روپاک یا دست پاک ہے۔

خیر و صَلاح ۔ عوام الناس خیرسَلا کہتے ہیں یعنی صحت و سلامت۔

رسَد ۔ اگرچہ فارسی لفظ معلوم ہوتا ہے مگر اہلِ فارس ان معنوں میں نہیں بولتے۔
 

شمشاد

لائبریرین
صفحہ ۵۰

بہت الفاظ اس طرح لئے کہ معنوں کے ساتھ اُن کی صورت بھی بدل دی، اگرچہ ان میں سے عوام الناس بولتے ہیں، مگر بعض الفاظ خواص کی زبانوں تک بھی پہنچ گئے، مثلاً :

اروادہ ۔ کہ اسل آروابہ تھا
پجادہ ۔ پزداہ پزیدن سے
شردا ۔ شوربا، یا شورابہ
ٹاٹ بافی ۔ تاربافی
کھیسا ۔ کیسہ
زری کونا ۔ زری کُہنہ
کہگل ۔ کاہ گل
تارتلا ۔ تارطلا یعنی زری کہنہ
ہمام دستہ ۔ ہاون دستہ
تانے ۔ تشنے ۔ طعن و تشنیع
بجاز ۔ بزاز
بَک بَک جِھک جِھک ۔ زق زق، بق بق
قبور ۔ قربوس
توبہ تنسوہا ۔ توبتہً نصوحا
دسپناہ ۔ دست پناہ، یہیں کی فارسی ہے
تاشہ پ تاسہ اور تاسک فارسی لفظ ہے۔
مردار سنگ ۔ مردہ سنگ
سہ بندی ۔ سپہ بندی، نو نگہداشت فوج
گدڑی ۔ گذری
غرفِش ۔ غُرش

افراتفری ۔ یعنی افراط و تفریط۔ اصل میں نہایت بہتات، اور نہایت کمی کے معنی ہیں، اب کہتے ہیں عجب افراتفری پڑ رہی ہے، یعنی ہلچل پڑ رہی ہے۔

قلانچ ۔ قلاش ۔ یا قلانچ، ترکی میں دونوں ہاتھوں کے درمیان کی وسعت کو کہتے ہیں۔ اسی طرح کپڑا ناپنے کا پیمانہ ہے، یہاں خرگوش یا ہرن وغیرہ جانور دوڑتے ہیں تو کہیں گے کہ قلانچیں بھرتے پھرتے ہیں۔ ذوق شعر :

وحشی کو دیکھا ہم نے اُس آہو نگاہ کے
جنگل میں بھر رہا ہے قلانچیں ہرن کیساتھ​

آکا ۔ ترکی میں بڑے بھائی کو کہتے ہیں، یہاں آکا، یار دوست کو بولتے ہیں۔
 

شمشاد

لائبریرین
صفحہ ۵۱

اس میں کچھ بانکپن کو بھی دخل ہے۔

قیورق ۔ ترکی میں شے محفوظ کو کہتے ہیں، یہاں جو شے حاکم کی ضبطی میں آئے، اسے قرق کہتے ہیں۔

مشاطہ ۔ مُشط عربی میں کنگھی کو کہتے ہیں، فارسی میں مشاطہ اُس عورت کو کہتے ہیں جو عورتوں کو بناؤ سِنگار کروائے، جیسے ہندوستان میں نائن، اُردو میں مشاطہ بضم اول، اور تخفیف ثانی اُس عورت کو کہتے ہیں جو زن و مرد کی نسبت تلاش کرے اور شادی کروائے۔

مرغا ۔ فارسی میں مرغ، فقط پرندہ ہے۔ اُردو میں مُرغا، خروس مرغی، ماکیان کو کہتے ہیں اور ان کے ہاں ہر جمعہ کو مرغوں کی پالی بندھتی ہے۔

چغ ۔ یا چق، ترکی میں باریک پردہ کو کہتے ہیں۔

کتا ۔ ترکی میں بڑے کو کہتے ہیں، یہاں کٹا موٹے کو کہتے ہیں۔ ہٹا کٹا محاورہ ہے۔

نظر ۔ بالتحریک ہے مگر جمع اس کی بسکونِ اوسط ہی بولتے ہیں۔ وزیر شعر

ترچھی نظروں سے نہ دیکھو عاشق دلگیر کو
کیسے تیر انداز ہو سیدھا تو کر لو تیر کو​

خط ۔ مشدد ہے، مگر اب کہتے ہیں، آج کل خطوں میں آداب و القاب کا دستور ہی نہیں رہا، کسی اُستاد کا شعر ہے :

صاف تھا جبتک کہ خط تب تک جواب صاف تھا
اب تو خط آنے لگا شاید کہ خط آنے لگا​

غم ۔ بھی عربی میں مشدد ہے۔ فارسی اور اُردو میں بالتخفیف بولتے ہیں۔

طرح ۔ عربی میں بالتسکین ہے۔ اُردو کے اہل محاورہ اور شاعر بھی بالتحریک باندھتے ہیں۔

محل ۔ باتشدید ہے مگر کہتے ہیں، کل بھولی بھٹیاری کے محلوں پر بسند ہے۔
 

شمشاد

لائبریرین
صفحہ 52

بھولی بھٹیاری کو کوئی بو علی بختیاری کا مخفف و مبدل کہتا ہے، کوئی کہتا ہے بھول بھئی کا۔

بجے منڈل ۔ بدیع منزل کا مخفف و مبدل ہے۔ دلی کے باہر شاہانِ قدیم کی تعمیرات سےایک مشہور عمارت ہے۔

مرزا حس کو پیار سے مرزا حسنو کہتے ہیں، اور یہاں س ساکن ہی بولنا فصیح ہے۔

کلمہ ۔ لام کی زیر سے ہے۔ محاورہ میں بہ سکون لام بھی بولتے ہیں اور وہی بھلا معلوم ہوتا ہے۔ جرات نے کیا خوب کہا ہے :

کلمہ بھرے ترا، جسے دیکھے تو بھر نظر
کافر اثر ہے یہ تری کافر نگا کا​

نشاہ ۔ اہل محاورہ اسے بھی نَشَا کہتے ہیں، ذوق نے کیا خوب کہا ہے :

جتنے نشے ہیں یاں، روشِ نشہ شراب
ہو جاتے بدمزہ ہیں جو بڑھ جاتے حد سے ہیں

کُھلا نشے میں جو پگڑی کا پیچ اس کا میر
سمندِ ناز کو اک اور تازیانہ ہوا​

اس طرح سینکڑوں لفظ ہیں جن کی تفصیل بے فائدہ طویل ہے۔

انگریزی زبان بھی اپنی عملداری بڑھاتی چلی آتی ہے۔ ہندو، مسلمان بھائیوں کو اس دن کا انتظار چاہیے کہ عربی، فارسی کے لفظ جو اب تک ہمارے تمھارے باپ دادا بولتے رہے، آیندہ ان کی جگہ اس کثرت سے انگریزی لفظ نظر آئیں گے کہ عربی، فارسی کے لفظ خود جگہ چھوڑ چھوڑ بھاگ جائیں گے، چند لفظ ایسے بھی دکھانے چاہئیں جو مختلف ممالک یورپ کے ہیں اور اب ہماری زبان
 

شمشاد

لائبریرین
صفحہ 53

میں اس طرح پیوند پا گئے ہیں کہ جوڑ تک نہیں معلوم ہوتا۔ مثلاً :

کمرا ۔ اطالی ہے۔
اسٹام ۔ سٹمپ انگریزی ہے۔
نیلام ۔ پُرتگالی ہے، وہ لیلام کہتے ہیں۔
بِسکُٹ ۔ بِسکٹ انگریزی ہے۔
پادری ۔ زبان لاطینی سے آیا ہے۔
پنشن ۔ انگریزی ہے۔
لالٹین ۔ لین ٹرین انگریزی ہے۔
بوتام ۔ بوتان فرنچ ہے۔
پستول ۔ پسٹل انگریزی ہے۔
بٹن ۔ بٹن انگریزی ہے۔
فرانیل ۔ یا فلالین، فلنیل انگریزی ہے۔
بگی ۔ انگریزی ہے۔
بابنٹ ۔ بابی نٹ، ایک جالی کی قسم کا کپڑا۔
گلاس ۔ انگریزی میں عام شیشہ ہے۔
بوتل ۔ باٹل انگریزی ہے۔
میم ۔ میڈم انگریزی ہے۔
درجن ۔ ڈزن انگریزی ہے۔
اَردَلی ۔ آرڈرلی۔

اِسی طرح اسٹیشن، ٹکٹ، ریل، پولیس وغیرہ صدہا لفظ ہیں کہ خاص و عام سے بڑھ کر عورتوں کی زبان تک پہنچ گئے ہیں۔ اور جو الفاظ دفتروں اور کچہریوں اور صاحب لوگوں کے ملازم بولتے ہیں، اگر سب لکھے جائیں تو ایک ڈکشنری بن جائے۔

ہر زبان کے فصحا کا قاعدہ ہے کہ اپنی زبان میں تصرفات لطیف سے کچھ ایجاد کر کے نئے الفاظ اور اصطلاحیں پیدا کرتے ہیں، ہماری اُردو بھی اس میدان میں کسی سے پیچھے نہیں رہی۔ ان اصطلاحوں کی بنیاد اگرچہ اتفاقی پڑتی ہے، مگر اُن لوگوں کی طبیعت سے ہوتی ہے جو علم کے ساتھ فکرِ عالی، طبیعتِ براق، ذہنِ پُر ایجاد اور ایجاد دلپذیر رکھتے ہیں، اُنھی کے کلام کا خاص و عام کے دلوں میں بھی اثر ہوتا ہے کہ بات سب کے دلوں کو بھی بھلی لگتی ہے اور اُسے اختیار کر لیتے ہیں۔ مثلاً :
 

شمشاد

لائبریرین
صفحہ 54

گھوڑے کا رنگ جسے ہندوستان میں سُرنگ اور پنجابی میں چنبا یا ککا کہتے ہیں، فارسی میں اسے کرنگ کہتے ہیں۔ چونکہ بھاشا میں ک علامت بدی اور س علامت خوبی ہے، اس لئے اکبر نے اِس کا نام سُرنگ رکھا۔

گھوڑے کی اندھیری کا نام اُجیالی رکھا کہ نیک شگون ہے۔

خاک روب کو حلال خور کا خطاب بھی اسی ذرہ نواز بادشاہ کا بخشا ہوا ہے۔ جہانگیر کی رنگیلی طبیعت نے شراب کا نام رام رنگی رکھا اور اس فارس کے شعراء نے اشعار میں بھی باندھا، طلب آملی :

نہ ایم مُنکرِ صہباد لیک می گویم
کہ رام رنگیِ مانشہ دگر وارد​

سنگترہ کو اس کی خوبی و خوش رنگی کے سبب سے محمد شاہ نے رنگترہ کہا، بلبل ہندوستان کا نام گُلدم رکھا۔

ہار کے لفظ کو بدشگون سمجھ کر پُھلمال کہوایا۔

شاہ عالم نے سرخاب کو بھی گُلسِرہ کہا، مگر اِس نے رواج نہ پایا۔

نواب سعادت علیخان مرحوم نے ملائی کا نام بلائی رکھا کہ لکھنؤ میں عام اور دلی وغیرہ میں کم رائج ہے، مذاقِ سلیم دونوں کے لطف میں امتیاز کر سکتا ہے۔

بھاشا کی ساخت کو دیکھو کہ ہر ایک زبان کے ملاپ کے لئے کیسی ملنسار طبیعت رکھتی ہے، نظم و نثر پر غور سے نظر کرو، اس نے اپنے مہمان کے لئے فقط لفظوں ہی میں جگہ خالی نہیں کی بلکہ بہت سے الفاظ و خیالات جو کہ ملکی خصوصیت عربی فارسی سے رکھتے تھے وہ بھی لے لئے، چنانچہ بہادری کا میدان رستم و سام کو دیا، حالانکہ یہاں وہ بھیم اور ارجن کا تھا، سودا کہتے ہیں :
 

شمشاد

لائبریرین
صفحہ ۵۵

رستم رہا زمین پہ نہ سام رہ گیا
مَردوں کا آسماں کے تلے نام رہ گیا

رستم سے بھلا کہہ تو سر تیغ تلے دھر دے
پیارے یہ ہمیں سے ہو ہرکارے و مرمردے​

حُسن و جمال کے شبستان میں لیلٰی و شیریں آ گئیں، اور جب وہ آئیں تو رانجھے کی جگہ مجنوں و فرہاد کیوں کر نہ آتے۔ مجنوں و فرہاد کی آنکھوں سے گنگا، جمنا تو بہہ نہیں سکیں، مجبوراً جیحوں، سحیوں ہندوستان میں آ گئے، ہمانچل اور بندھیا چل کو چھوڑ کر کوہِ بیستون، قصر شیریں، کوہِ الوند سے سر پھوڑتے ہیں، مگر جب کوئی خوش طبع چاہتا ہے تو یہیں کے پھولوں سے بھی یہاں کا مکان سجا دیتا ہے اور وہ عجیب بہار دیتے ہیں۔

ایک زبان کے محاورہ کو دوسری زبان میں ترجمہ کرنا جائز نہیں، مگر ان دونوں زبانوں میں ایسا اتحاد ہو گیا کہ یہ فرق بھی اُٹھ گیا اور اپنے کارآمد خیالوں کے ادا کرنے کے لئے دل پذیر اور دلکش اور پسندیدہ محاورات جو فارسی میں دیکھے اُنھیں کبھی بجنسہ اور کبھی ترجمہ کر کے لیا۔مثلاً آمدن اور بسر آمدن میں اس کا ترجمہ لفظی ڈھونڈیں تو نہیں ہے، مگر اہلِ زبان نے نہایت خوبصورتی کے ساتھ تضمین کر لیا اور سودا نے کہا،

اس دل کی تفِ آہ سے کب شعلہ بر آئے
بجلی کو دمِ سرد سے جس کے حذر آئے

افعی کو یہ طاقت ہے کہ اس سے بسر آئے
وہ زُلفِ سیاہ اپنی اگر لہر پر آئے​

درآمدن، یعنی گھس آنا۔ سودا :

یاں تک نہ دل آزارِ خلائق ہو کہ کوکئی
مَل کر لہو منھ سے صفِ محشر میں در آئے​

عرق عرق شدن، آب شدن، ذوق :

آگ ووزخ کی بھی ہو جائے گی پانی پانی
جب یہ عاسی عرقِ شرم میں تر جائیں گے​
 

شمشاد

لائبریرین
صفحہ 56

حرف آمدن اور دل خوں شدن۔ ذوق

حرف آئے مجھ پہ دیکھیے کِس کِس کے نام سے
اس درد سے عقیق کا دل خوں یمن ہیں ہے​

سید انشاء : مصرعہ

لب وہ کہ لعل کے بھی نگینہ پر حرف ہے​

چشمک زدن۔ ذوق

لب پر ترے پسینہ کی بوند اے عقیق لب
چشمک زنی کرے ہے سہیلِ یمن کے ساتھ​

پیمانہ پُر کردن ۔ مار ڈالنا۔ سودا :

ساقی چمن میں چھوڑ کے مجھ کو کدھر چلا
پیمانہ میری عمر کا ظالم تو بَھر چلا​

دامن افشاندہ برخاستن۔ بیزار ہو کر اُٹھ کھڑے ہونا۔ سودا :

کیا اس چمن میں آن کے لے جائیگا کوئی
دامن تو میرے سامنے گل جھاڑ کر چلا​

از جامہ بیروں شدن ۔ سودا

نکلا پڑے ہے جامہ سے کچھ ان دنوں رقیب
تھوڑے ہی دم دلاسے میں اتنا اُبھر چلا​

ذوق :

کب صبا آئے ترے کوچہ سے اے یار کہ میں
جوں حبابِ لبِ جو جامہ سے باہر نہ ہوا​

فلکش خبر ندارد ۔ یہ محاورہ بھی اہل ہند کا نہیں کیوں کہ یہاں اکاس ہے، فلک نہیں ہے۔ اہل ہند اس کا مضمون کیوں باندھتے مگر سودا کہتے ہیں :

تجھ رُخ میں ہے جو لطف ملک کو خبر نہیں
خورشید کیا ہے اس کے فلک کو خبر نہیں​

دل از دست رفتن ۔ بے اختیار ہونا، سودا کا مصرعہ ہے :

ہاتھ سے جاتا رہا دل، دیکھ محبوباں کی چال​

دل داون ۔ عاشق ہونا، ظفر :
 

شمشاد

لائبریرین
صفحہ 57

دل دے کے تم کو جان پہ اپنی بُری بنی
شیریںِ کلامی آپ کی میٹھی چُھری بنی​

میر صاحب : مصرعہ

ایسا نہ ہو دل دادہ کوئی جاں سے گزر جائے​

از جان گزشتن ۔ جان پر کھیل جانا، ظفر کا مصرعہ ہے :

وہاں جائے وہی جو جان سے جائے گزر پہلے​

از سر چیزے گزشتن ۔ دست بردار ہونا ۔ سید اِنشاء :

خدا کے واسطے گزرا میں ایسے جینے سے​

ذوق علیہ الرحمۃ

پہنچیں گے رہ گزرِ یار تلک کیوں کر ہم
پہلے جب تک نہ دو عالم سے گزر جائیں گے​

آصف الدولہ

تو اپنے شیوہ جور و جفا سے مت گزرے
تری بَلا سے مِرا دَم رہے رہے نہ رہے​

سفید شدن پوست کشیدن بھی فارسی کا محاورہ ہے جس کا ترجمہ انھوں نے کر لیا ہے۔ اُردو میں کھال کھینچنا۔ سودا :

چاہے تجھ چشم کے آگے جو ہو بادام سفید
کھینچ کر پوست کرے گردشِ ایام سفید​

نہ کمروارند نہ دہن وارند ۔ یہ حقیقت میں لفظی ترجمہ فارسی محاورہ کا ہے کہ نہ کمر ہے نہ دہن ہے۔

بھا گئی کون سی وہ چیز بتوں کی ہم کو
نہ کمر رکھتے ہیں ظالم نہ دہن رکھتے ہیں​

بعض جگہ اصل اصطلاح فارسی کی لے کر اس پر اپنے شعر کی بنیاد قائم کی ہے۔ مثلاً
 

شمشاد

لائبریرین
صفحہ ۵۸

تَر دامن ۔ اصطلاحِ فارسی میں پُر گناہ ہے، دیکھو اُسی بنیاد پر کیا مضمون پیدا کیا ہے :

تَر دامنی پہ شیخ ہماری نہ جائیو
دامن نچوڑ دیں تو فرشتے وضو کریں​

ذوق ۔ مصرعہ :

کہ میری تر دامنی کے آگے عرق عرق پاک دامنی ہے​

چراغِ سحری ۔ بیمار جاں بلب :

ٹک میر جگر سوختہ کی جلد خبر لے
کیا یار بھروسا ہے چراغِ سحری کا​

اور دیکھو اُردو فارسی دو محاوروں کو کس خوبصورتی سے ترکیب دیا ہے :

آشیانہ میں میر بلبل کے
آتشِ گل سے رات پھول پڑا​

(دلی والوں کا محاورہ ہے۔ اگر رات کو کہیں آگ لگتی تھی تو اصلی لفظوں میں تعبیر کرنا بدشگونی سمجھتے تھے۔ کنایتہً ادا کرتے تھے اور کہتے تھے کہ دیکھنا کہیں پھول پڑا ہے۔)

پنبہ دہن ۔ یعنی کم گو ۔ زبان دراز، بے ادب پر گو، اُستاد مرحوم نے ساقی نامہ میں کہا :

شیشہ مے کی یہ دراز زباں
اُس پہ ہے یہ سِتم کہ پنبہ وہاں​

شیشہ کے منھ میں عرق یا شربت وغیرہ نکلتے وقت جو دھار بندھتی ہے، اُسے اصطلاح فارسی میں زبانِ شیشہ کہتے ہیں۔

آتش زیر پا، بیقرار، موئے آتش دیدہ، جسے آگ کی سینک پہنچی ہو۔

بسکہ ہوں غالب اسیری میں بھی آتش زیرپا
موئے آتش دیدہ ہے حلقہ مری زنجیر کا​

مُردنِ چراغ ۔ کشتنِ چراغ، چراغ کے بُجھنے اور بُجھانے کو کہتے ہیں۔ اسی سے

چراغِ مردہ ۔ دیکھا ذوق مرحوم نے کس لطف سے جان ڈالی ہے :

شمعِ مردہ کے لئے ہے دمِ عیسے آتش
سوزشِ عشق سے زندہ ہوں محبت کے قتیل

داغِ دل فسردہ پہ پھاہا نہیں، نہ ہو
کام اس چراغِ مردہ کو کیا ہے کفن کے ساتھ​
 

شمشاد

لائبریرین
صفحہ 59

کِمر کوہ اور دامن کوہ سے بھی دیکھو کیا مضمون نکالا ہے، ذوق علیہ الرحمۃ :

حاضر ہیں جلو میں ترے وحشی کے ہزاروں
باندھے ہوئے کُہسار بھی دامن کو مکر سے​

گردنِ مینا ۔ آتش نے کیا خوب مضمون نکالا ہے۔

ہر شب شبِ برات ہے ہر روز روزِ عید
سوتا ہوں ہاتھ گردنِ مینا میں ڈال کر​

دستِ سبو ۔ خواجہ وزیر نے کس خوبصورتی سے اس کا ترجمہ کیا ہے :

ہوں وہ میکش گر نہ آیا مے کدہ میں ایکدن
ہر سُبو نےہاتھ پھیلائے دُعا کے واسطے​

سوسنِ دہ زبان ۔ فارسی والوں کا خیال ہے، میر وزیر علی صبا کہتے ہیں :

کھولا بہار نے جو کتب خانہ چمن
سوسن نے دس ورق کا رسالہ اُٹھا لیا​

سرو کو آزاد ۔ فارسی والوں نے کہا تھا کہ بہار و خزاں، اور ثمر اور بے ثمری کی قید سے آزاد ہے، ذوق مرحوم اس بنیاد پر فرماتے ہیں :

پابزنجیر آبِ جو کی موج میں سب سرو ہیں
کیسی آزادی کہ یاں یہ حامل ہے آزاد کا​

قافلہ نگہت گُل ۔ سید انشاء نے خوب ترجمہ کیا :

جو ٹھنڈے ٹھنڈے چلی ہے اے آہ
چھانو تاروں کی چل نِکل تو

گلوں کی نگہت کا قافلہ بھی
چمن سے ہے لاد پھاند نکلا​

آسمان و زمین کے قلابے ملانے بھی ایجاد اہل اُردو کا ہے۔ ذوق :

قلابے آسمان و زمیں کے نہ تو مِلا
اُس بت سے کوئی ملنے کی ناصح بتا صلاح​

طوفان باندھنا بھی انہی کا ایجاد ہے، ہندی میں نہ تھا۔

بعض فارسی کے محاورے یا اُن کے ترجمے ایسے تھے کہ میر و مرزا وغیرہ اُستادوں
 

شمشاد

لائبریرین
صفحہ 60

نے لئے مگر متاخرین نے چھوڑ دیے، چنانچہ فارسی کا محاورہ ہے :

ترآمدن ۔ یعنی شرمندہ شدن، میر صاحب کہتے ہیں :

کھلنے میں ترے منھ کی کلی پھاڑے گریباں
آگے ترے رخسار کے گل برگ ترآوے​

تو گوئی ۔ میر حسن اس کا ترجمہ فرماتے ہیں ۔ مصرعہ :

کہے تو کہ خوشبوئیوں کے پہاڑ​

ایک اور موقع پر کہتے ہیں۔ مصرعہ :

کہےتو کہ دریا تھا اک نُور کا​

میر صاحب :

اب کوفت سے ہجراں کی جہاں دلپہ رکھا ہاتھ
جو درد و اَلم تھا سو کہے تھا کہ یہیں تھا​

نمود کردن ۔ بمعنی ظہور کردن بھی فارسی کا محاورہ تھا۔

نمود کر کے وہیں بحرِ غم میں بیٹھ گیا
کہے تو میر بھی اک بلبلہ تھا پانی کا​

حیف آنا ۔ یا حیف کسانیکہ، میر صاحب :

حیف وے جنکے وہ اس وقت پہنچا جسوقت
ان کنے حال اشاروں سے بتایا نہ گیا​

اب اگر کہیں گے تو یہ کہیں گے کہ حیف ہے اُن لوگوں کے حال پر جن کے پاس تو گیا اور وہ بیچارے اشارے سے بھی حال نہ کہہ سکے، کنے، ہندے ہے، مگر اب متروک ہے۔

بے تہی، یعنی کم مائگی، میر صاحب کا شعر ہے :

اس زمانہ کی تری سے لہر بحر اگلی نہیں
بے تہی کرنے لگے دریا دلوں کے حوصلے​

خوشم نمے آید ۔ مجھے بھلا نہیں لگتا۔ میر صاحب فرماتے ہیں :
 

شمشاد

لائبریرین
صفحہ 61

ناکامیِ صد حسرت خوش لگتی نہیں ورنہ
اب جی سے گزر جانا کچھ کام نہیں رکھتا​

خوشا بحال کسانیکہ۔ میر صاحب فرماتے ہیں :

احوالِ خوش اُنھوں کا ہم بزم ہیں جو تیرے
افسوس ہے کہ ہم نے واں کا نہ بار پایا​

داغ ایں حسرت ام میر صاحب کہتے ہیں :

داغ ہوں رشکِ محبت سے کہ اتنا بیتاب
کس کی تسکیں کے لئے گھر سے تو باہر نکلا​

میر صاحب کہتے ہیں :

اے تو کہ یاں سے عاقتِ کار جائیگا
غافل نہ رہ کہ قافلہ یک بار جائیگا​

ایک قصیدہ مدحیہ کے مطلع ثانی میں سودا کہتے ہیں :

اے تو کہ کارِ جن و بشر تجھ سے ہے رواں
تیری وہ ذات جس سے دو عالم ہے کامراں​

فارسی میں بیاامر کا صیغہ شعر کے اول میں لاتے ہیں اور وہ بہت مزا دیتا ہے :

بیا کہ گریہ من آن قدر زمیں نگزاشت
کہ درفراق تو خاکے بسر تواں کردن​

عرفی :

ہیا کہ باولم آں مے کند پریشانی
کہ غمزہ تو نکردہ است با مسلمانی​

میاں رنگین اس کا ترجمہ کرتے ہیں :

آ تجھ بغیر مملکتِ دل اُجاڑ ہے
چھاتی پہہ رات ہجر کی کالا پہاڑ ہے​

دستے دریں کاردارد یعنی وہ اس کام میں واقفیت یا مہارت رکھتا ہے۔ سودا :

کون ایسا ہے جسے دست ہے دل سازی میں
شیشہ ٹوٹے تو کریں لاکھ ہنر سے پیوند​

اودہن ایں کارندارد۔ سودا نے کہا :

نہیں ہے بحث کا طوطی ترا دہن مجھ سے
سخن تو دیکھ ہے رنگیں ترا چمن مجھ سے​
 
کیفیت
مزید جوابات کے لیے دستیاب نہیں
Top