مدت سے کوئی آیا نہ گیا سنسان پڑی ہے گھر کی فضا
ان خالی خالی کمروںمیںناصر، میں شمع جلاؤں کس کے لئے
ناصر کاظمی
بہت خوب!
جس دھوپ کی دل میں ٹھنڈک تھی وہ دھوپ اُسی کے ساتھ گئ
اِن جلتی بلتی گلیوں میں اب خاک اُڑاؤں کس کے لئے۔۔۔۔۔۔۔
غم کی بارش نے بھی تیرے غم کو دھویا نہیں
تو نے مجھ کو کھودیا میںنے تجھے کھویا نہیں
جشنِ مقتل ہی نہ برپا ہوا ورنہ ہم بھی
پابجولاں ہی سہی ناچتے گاتے جاتے ۔
فراز
کتنا آساں تھا تیرے ہجر میں مرنا جاناں
پہر بھی اک عمر لگی جان سے جاتے جاتے