تمنّاؤں میں اُلجھایا گیا ہوں
کھلونے دے کے بہلایا گیا ہوں
ہوں اس کوچے کے ہرذرّے سے آگاہ
ادھر سے مدتوں آیا گیا ہوں
نہیں اُٹھتے قدم کیوں جانبِ دیر
کس مسجد میں بہکایا گیا ہوں
دلِ مضطر سے پوچھ اے رونقِ بزم
میں خود آیا نہیں لایا گیا ہوں
(سید علی محمد شاد عظیم آبادی)