آج کا شعر - 4

کیفیت
مزید جوابات کے لیے دستیاب نہیں

کاشفی

محفلین
خلق کہتی ہے جسے دل ترے دیوانے کا
ایک گوشہ ہے یہ دنیا اسی ویرانے کا

اک معمہ ہے نہ سمجھنے کا نہ سمجھانے کا
زندگی کاہے کو ہے خواب ہے دیوانے کا

مختصر قصہء غم یہ ہے کہ دل رکھتا ہوں
راز کونین خلاصہ ہے اس افسانے کا

ہر نفس عمرگزشتہ کی ہے میّت فانی
زندگی نام ہے مرمر کے جئے جانے کا

(شوکت علی خاں فانی)
 

کاشفی

محفلین
سمائیں آنکھ میں کیا شعبدے قیامت کے
مری نظر میں ہیں جلوے کسی کے قامت کے

(شوکت علی خاں فانی)
 

کاشفی

محفلین
ہوتا نہیں اب اُن کی محفل میں شمار اپنا
یوں بیٹھے ہیں ہم جیسے اُٹھ سے گئے محفل سے

(شوکت علی خاں فانی)
 

کاشفی

محفلین
اب وہ ملتے بھی ہیں تو یوں کہ کبھی
ہم سے کچھ واسطہ نہ تھا گویا

گلشنِ حسنِ یار کی حسرت
جانفزا کس قدر ہے آب وہوا

(حسرت)
 

کاشفی

محفلین
وفا تجھ سے اے بے وفا چاہتا ہوں
مری سادگی دیکھ کیا چاہتا ہوں

تری آرزو ہے اگر جرم کوئی
تو اس جرم کی میں سزا چاہتا ہوں

(حسرت)
 

کاشفی

محفلین
ابتدا وہ تھی کہ تھا جینا محبت میں محال
انتہا یہ ہے کہ اب مرنا بھی مشکل ہوگیا

(علی سکندر جگر مراد آبادی)
 

کاشفی

محفلین
ہمارے ہی دل سے مزے اُن کے پوچھو
وہ دھوکے جو دانستہ ہم کھا رہے ہیں

(علی سکندر جگر مراد آبادی)
 

کاشفی

محفلین
تم مجھ سے چھوٹ کر رہے سب کی نگاہ میں
میں تم سے چھوٹ کر کسی قابل نہ رہا

(علی سکندر جگر مراد آبادی)
 

کاشفی

محفلین
دل کو کسی کا تابعِ فرماں بنائیے
دشواری حیات کو آساں بنائیے

درماں کو درد، درد کو درماں بنائیے
جس طرح چاہئیے مجھے حیراں بنائیے

آباد اگر نہ دل ہو تو برباد کیجئے
گلشن نہ بن سکے تو بیاباں بنائیے

(علی سکندر جگر مراد آبادی)
 

کاشفی

محفلین
تپش جو شوق میں تھی وصل میں بھی ہے وہی مجھ کو
چمن میں بھی وہی اک آگ ہے جو تھی نشمین میں

مری وحشت پہ بحث آرائیاں اچھی نہیں ناصح
بہت سے باندھ رکھے ہیں گریباں میں نے دامن میں

(اصغر حُسین اصغر گونڈوی)
 

کاشفی

محفلین
خستگی نے کردیا اس کو رگِ جاں سے قریب
جستجو ظالم کہے جاتی ہے منزل دور ہے

(اصغر حسین اصغر گونڈوی)
 

کاشفی

محفلین
ہم تو سمجھے تھے کہ ہوں گے اور بھی ظلم و ستم
حوصلہ کچھ بھی نہ نکلا آپ کی بیداد کا

(مولانا محمد علی جوہر)
 

کاشفی

محفلین
کیا ڈھونڈھتے ہو فصلِ خزاں میں بہار کو
اب وہ چمن کہاں ہے وہ رنگِ چمن کہاں

(مولانا محمد علی جوہر)
 

محمداحمد

لائبریرین
تمہیں خبر ہی نہیں کیسے سر بچایا ہے
عذاب جاں پہ سہا ہے تو گھر بچایا ہے

تمام عمر تعلق سے منحرف بھی رہے
تمام عمر اسی کو مگر بچایا ہے

ہر اعتراض پہ گہری طویل خاموشی
یہی تو وصف میرے ہمسفر بچایا ہے​

منور جمیل​
 

محمداحمد

لائبریرین
غبار آلود راستوں میں تلاش کر کر کے تھک گئے ہیں
کہاں پہ جا کر بسے ہوئے ہو، کہاں سے ہم ڈھونڈ لائیں تم کو

بہزاد جاذب
 

محمداحمد

لائبریرین
کیا اختیار اس کو جو رہا کبھی نہ بس میں
وہی ناگزیر ٹھہرا، جو نہیں ہے دسترس میں​

سید مبارک شاہ​
 

محمداحمد

لائبریرین
دو ہی لفظوں کا تھا وہ افسانہ
جو سُنا کر خموش ہو بیٹھے
ابتدا یہ کہ تم کو چاہا تھا
انتہا یہ کہ تم کو کھو بیٹھے​
 
کیفیت
مزید جوابات کے لیے دستیاب نہیں
Top