عرفان سرور

محفلین
شب کو میں ان کے گھر گیا تو کہا
دن کو تُو اے قمرؔ نہیں آتا

نامہ بر ان کا میں غلام نہیں
جا کے کہہ دے قمرؔ نہیں آتا
اُستاد قمر جلالوی
 

غ۔ن۔غ

محفلین
کر رہا ہے پناہ گاہیں تلاش
دلِ افسردہ کار آنکھوں میں

آئینہ دل میں ٹوٹ جاتا ہے
کرچیوں کا شمار آنکھوں میں
 

عرفان سرور

محفلین
بال کھولے ہوئے یوں سیر سرِ بام نہ کر
تیری زلفوں کی سیاہی نہ اڑا لے بادل

وقتِ رخصت عجب انداز سے ان کا کہنا
پھر دُعا کل کی طرح مانگ بُلا لے بادل
اُستاد قمر جلالوی
 

عرفان سرور

محفلین
منہ سے کچھ بھی دمِ رخصت نہ کہا بلبل نے
صرف صیّاد نے اتنا تو ُسنا ہائے بہار

یہ بھی کچھ بات ہوئی گل ہنسے تم روٹھ گئے
اُس پہ یہ ضد کہ ابھی خاک میں مل جائے بہار
اُستاد قمر جلالوی
 

غ۔ن۔غ

محفلین


یہ نہیں کہ دب گئی ہے کہیں گرد روز و شب میں

وہ خلش محبتوں کی ، وہ کسک رفاقتوں کی

کہیں دشت دل میں شاید مری راہ تک رہی ہو

وہ قطار جگنوں کی ، وہ مہک ہری رتوں کی
 
Top