showbee

محفلین
ناجانے کیسا اِمتحان ہے مجھ پر مسلسل آج کل
مقدر دوست اور محبت تینوں مجھ سے اُلجھے اُلجھے رہتے ہیں
 

کاشفی

محفلین
اسی تھکے ہوئے دستِ طلب سے مانگتے ہیں
جو مانگتے نہیں رب سے، وہ سب سے مانگتے ہیں

وہ بھیک مانگتا ہے حاکموں کے لہجوں میں
ہم اپنے بچوں کا حق بھی ادب سے مانگتے ہیں

میرے خدا اُنہیں توفیقِ خودشناسی دے
چراغ ہو کہ اُجالا جو شب سے مانگتے ہیں

وہ بادشاہ اِدھر مڑ کہ دیکھتا ہی نہیں
ہم اپنے حصے کی خیرات کب سے مانگتے ہیں

میں شاہزادہ غربت، امیرِ دشتِ اَنا
یہ لوگ کیا میرے نام و نسب سے مانگتے ہیں

(معراج فیض آبادی)
 

showbee

محفلین
یہ اِس ریت کی عادت ہے
کئی ہزار برس پہلے سے
چلتے پھرتے باتیں کرتی رہتی ہے
اِس کی باتوں میں اِک گھر ہے
اور اُس گھر میں ایک کہانی
اِک ترپال کی اُوٹ پکڑ کے دھوپ میں لکھا سایہ
رگوں کے جیسے گُنجل گلیاں
آپس میں سر جوڑ کے بیٹھی دیواروں کے اندر بستے
خوابوں جیسے لوگ
ایک کتاب کی کھولے دل
انکھیں صادق نور
سائیں فرید کی روہی اندر
ست گھنیری رات کے اُپر پہرہ دیتے خواب
لایں اجر و ثواب
اِس مٹی کی دھول سے نکلے سونے جیسا بُور
باتیں کرتی ریت جہاں کی-وہ ہے بھاولپور
 

showbee

محفلین
جو کھویا ہے اُس کا غم نہی
لیکن جو پایا ہے وہ کسی سے کم نہی
جو نہی ہے، وہ اِک خواب ہے
اور جو ہے، وہ لاجواب ہے
 

showbee

محفلین
زندگی کے میلے مییں، خواہشوں کے ریلے میں
خواب چُنتے رہے، ہم کبھی اکیلے میں

بات وہ کِتابوں سی، ذات وہ سرابوں سی
ڈُھنڈتے بھلا کیسے، زیست کے جھمیلے میں

ہے نشہ شرابوں سا، کُچھ مزا بہاروں کا
جام تیری یادوں کا، جب پیا اکیلے میں

کون جوڑتا وعدے، کون توڑتا تارے
کس کو تھی یہاں فرصت، روز کے جھمیلے میں

ہم کے اب ھیں سودائی، ہم نادمِ تنہائی
آگئے بھلا کیے، بیھڑ سے اکیلے میں

بیٹھ کر کبھی تنہا، سوچتا ہوں میں "نیہا"
بیچ دوں سبھی سپنے صرف ایک دھیلے میں
(نیہا)
زندگی کے میلے مییں، خواہشوں کے ریلے میں
تم سے کیا کہیں "جاناں"، اِس قدر جھمیلے میں
(امجد اِسلام امجد)
 

showbee

محفلین
کوئی نہیں جو کرے اپنی بھی خطا تسلیم
"گناہ ہمیشہ کسی دوسرے کا ہوتا ہے"
جو کج نہاد ہو بنتی نہیں کبھی وہ بات
جو قرض بڑھتا چلا جائے کب اترتا ہے

نہ جیتنی ہے کبھی نہ ہارنی ہے کبھی
یہ جنگ ایسی ہے جس کی کوئی اخیر نہیں
نہ اس میں رنگ ہے کوئی نہ آرزو نہ امنگ
یہ وہ قفس ہے جس میں کوئی اسیر نہیں

کوئی نہیں جو کرے اپنی بھی خطا تسلیم
کہے کہ آؤ بھلا دیں ہر ایک رنجش کو
اور ایک دوجے کے جذبوں کا احترام کریں

سو حال یہ ہے کہ دونوں طرف کے شہر اور گھر
منافرت کے الاؤ میں جلتے رہتے ہیں
ہوائے امن کو پل پل ترستے رہتے ہیں
ہمارے حال پہ روتے ہیں، ہنستے رہتے ہیں

۔ ۔ ۔امجد اسلام امجد۔ ۔ ۔
 

showbee

محفلین
مغرور ہی سہی مجھے اچھا بہت لگا
وہ اجنبی تو تھا مگر اپنا بہت لگا
وہ جسکے دم قدم سے تھی بستی کی رونقیں
جب بستی اُجڑ گئی تو وہ تنہا بہت لگا
ریشم پہن کر بھی میری قیمت نہ بڑھ سکی
کھدر بھی اُس کے جسم پر مہنگا بہت لگا
محسن جب آئینے میں میری سانسیں جم گئیں
مجھ کو تو اپنا عکس بھی دھندھلا بہت لگا
 

showbee

محفلین
تو کہ ناواقفِ آدابِ غلامی ہے ابھی
رقص زنجیر پہن کر بھی کیا جاتا ہے
دیکھ! فریاد نہ کر، سر نہ جُھکا، پاؤں اُٹھا
کل کے لوگ جو کریں گے، تو ابھی سے کرجا
ناچتے ناچتے آزادی کےلئے مر جا!!
منزلِ عشق میں مر مر کے جیا جاتا ہے
رقص زنجیر پہن کر بھی کیا جاتا ہے
(حبیب جالب)
 
آخری تدوین:

کاشفی

محفلین
محبت میں شکایت ہورہی ہے
یہ کیوں توہینِ اُلفت ہورہی ہے

بس اب شکوہ کی اصلیّت نہ پوچھو
مجھے خود بھی ندامت ہورہی ہے

زمانے میں بہت کافر ہیں ساغر
مجھ ہی کو کیوں نصیحت ہورہی ہے

(ساغر نظامی)
 
Top