اسی تھکے ہوئے دستِ طلب سے مانگتے ہیں
جو مانگتے نہیں رب سے، وہ سب سے مانگتے ہیں
وہ بھیک مانگتا ہے حاکموں کے لہجوں میں
ہم اپنے بچوں کا حق بھی ادب سے مانگتے ہیں
میرے خدا اُنہیں توفیقِ خودشناسی دے
چراغ ہو کہ اُجالا جو شب سے مانگتے ہیں
وہ بادشاہ اِدھر مڑ کہ دیکھتا ہی نہیں
ہم اپنے حصے کی خیرات کب سے مانگتے ہیں
میں شاہزادہ غربت، امیرِ دشتِ اَنا
یہ لوگ کیا میرے نام و نسب سے مانگتے ہیں
(معراج فیض آبادی)