نثار تیری گلیوں کے اے وطن، کے جہاں
چلی ہے رسم کے کوئی نہ سر اٹھا کے چلے
جو کوئی چاہنے والا طواف کو نکلے
نظر چُرا کے چلے، جِسم و جاں بچا کے چلے
ہے اہلِ دل کے لئے اب یہ نظم و بست و کشاد
کے سنگ و خِشت مقید ہیں اور سگ آزاد
بہت ہیں ظلم کے دستِ بہانہ جُو کے لئے
جو چند اہلِ جنوں تیرے نام لیوا ہیں
بنے ہیں اہلِ ہوس مدعی بھی، منصف بھی
کِسے وکیل کریں، کِس سے منصفی چاہیں