نت نئے رنگ کے چولوں میں جو آتا ہے نظر
وہ تو موسم بھی نہیں کیسے بدلتا ہوگا
درد ہے دل کا مکیں اس کو نکالے بھی تو کون؟
یہ بھی موتی کی طرح سیپ میں پلتا ہوگا
(فاخرہ بتول)
آنسو نہ روک دامنِ زخم ِ جگر نہ کھول
جیسا بھی حال ہو نگہ ء یار پر نہ کھول
جب شہر لٹ گیا ہے تو کیا گھر کو دیکھنا
کل آنکھ نم نہیں تھی تو اب چشمِ تر نہ کھول
داستانِ شوق لے کر نامہ بر آیا تو کیا؟
آہ اب میری دعاؤں میں اثر آیا تو کیا؟
ایک بھی نقشِ قدم میرا کہیں باقی نہیں
منزلِ ہستی سے خستہ پا گزر آیا تو کیا؟
(سرور)