میں کچھی نیند میں ہوں
اور اپنے نیم خوابیدہ تنفس میں اُترتی
چاندنی کی چاپ سنتی ہوں
گمان ہے
اب بھی شاید
میرے ماتھے پے تیرے لب
ستارے ثبت کرتے ہیں
(پروین شاکر)
زندگی ہے عدم کا رد عمل
ہر خوشی ہے الم کا رد عمل
ہر عمل ہے عمل کا رد عمل
ہر ستم ہے ستم کا رد عمل
میں کہ ہوں اپنے ہم کا رد عمل
اور کثرت ہے کم کا رد عمل
سود گیا ہے زیاں ہے کیا اے منیر
اک خوشی ایک غم کا رد عمل
(منیر نیازی)
ریت کی مِٹتی لکیروں میں بہت غور سے ہم
اپنی گم کردہ سی منزل کا نشاں ڈُھونڈتے ہیں
کتنے سادہ ہیں نشانے پہ کھڑے ہوکے بتول
تیر کو تھام کے ہاتھوں میں ‘ کماں ڈُھونڈتے ہیں
(فاخرہ بتول)
بہار آمیز یہ موجِ صبا کچھ اور کہتی ہے
مگر ہر سُو اداسی کی فضا کچھ اور کہتی ہے
خزاں کے موسموں کا زرد پتّہ ہو گیا ہے دل
تو کیوں مجھ سے ہواؤں کی نوا کچھ اور کہتی ہے؟
(ناہید ورک)