ملزمہ بسمہ کا یہ بیان اس کیس کو مزید پیچیدہ کر رہا ہے کہ “میں گذشتہ دو سال سے بچوں کو بھوک سے روتا دیکھ رہی تھی ، لیکن اب یہ سب برداشت نہیں کر سکتی تھی۔ میری زندگی ختم ہوگئی ہے لیکن اب وہ لوگ خوش ہوں گے جنہیں میرے بچوں کے زندہ رہنے سے نقصان تھا۔ کوئی مجھے پسند کرتا ہے نہ میرے شوہر کو، بس اسی لیے میں نے اپنے بچے مار دیئے”۔ میرے مطابق ایک کروڑ پچاس لاکھ کی مالیت کے گھر اور بارہ لاکھ کی ہنڈا کار رکھنے والے جوڑے کی طرف سے تنگ دستی اور فاقہ کشی کا بیان تو مشکوک نظرآتا ہے لیکن اس کے بیان کا دوسرا حصہ کہ ” کچھ لوگ اس کے بچوں کے زندہ رہنے سے خوش نہیں تھے”، کسی سنگین نوعیت کے خاندانی وراثت کے جھگڑے یا پردہ پوش کہانی کی طرف اشارہ دے رہا ہے۔