یہ بھی شنید ہے کہ موجود شیخ رشید اصل میں "شیخ" ہے ہی نہیں اور "شیخ" اس نے پیپلز پارٹی والے مرحوم شیخ رشید کا چرا کر اپنے نام کا حصہ بنا لیا اور یہ انہی دنوں کی بات ہے یعنی ساٹھ کی دہائی کا آخر، ستر کی دہائی کا شروع جب شیخ رشید مرحوم بھٹو کے دست راست تھے اور حالیہ شیخ رشید کالج یونیورسٹی میں گھوما پھرا کرتے تھے۔
وارث میاں آپکی بات بالکل درست ہے یہ وہی شیخ رشید پیپلز پارٹی والے ہیں مرحوم شیخ رشید ہیں اور یہ بہت صاحبِ کردار انسان تھے جو لاہور میں رہائش پذیر تھے ۔۔۔انکے ایک بیٹے کراچی میں ہیں امتیاز شیخ اُنکا بیٹا رضا کی کلاس میں تھا جب وہ کہتا میرے دادا پیپلز پارٹی میں ہیں تو بڑے حیران ہوتے !!! کیونکہ اُنکے والدین کو جانتے جو بڑے شریف لوگ!!! تو ایسے لوگوں کو دیکھ کر یقین آتا ہے کہ واقعی ہر پارٹی میں ایک دو ضرور ایسے لوگ ہونگے ۔۔۔یقیناً یہ وہی شیخ رشید مرحوم ہیں
میں آپ کو شیخ رشید کی حقیقت بتاتا ہوں۔ یہ اصل میں کشمیری بٹ ہے۔
اس نے 1966 میں مشن اسکول اقبال روڈ، راولپنڈی سے میٹرک کا امتحان پاس کیا تھا۔ نمبر کم ہونے کی وجہ سے اس کو کسی کالج میں داخلہ نہ مل سکا۔
مرحوم ایوب خان کے آخری دنوں میں ریٹائرڈ ائر مارشل اصغر خان کی پارٹی تحریک استقلال خاصی سرگرم تھی۔ شیخ رشید جو کہ تحریک استقلال کے رکن تھے، جو کہ راولپنڈی شہر میں جی ٹی ایس اڈے کے ساتھ والی گلی میں رہائش پذیر تھے، ایک غریب باپ کے بیٹے تھے اور گورنمنٹ ڈگری کالج، اصغر مال روڈ، میں بی اے کے طالبعلم تھے، خاصے مقبول ہوئے۔ ایک دفعہ پولیس کے ہاتھوں ان کی اتنی پٹائی ہوئی تھی کہ ان سارا جسم پٹیوں سے لپٹا ہوا تھا۔
بعد میں انہوں نے غالباً حکومت سے کوئی ڈیل کر لی تھی اور سیاست سے کنارہ کش ہو کر منظر سے ہمیشہ کے ہٹ گئے۔
موجودہ شیخ رشید نے اس دوران راولپنڈی پولی ٹیکنک کالج میں داخلہ لے لیا۔ پولی ٹیکنک کالج پشاور روڈ پر واقع ہے۔ اور شہر سے بہت باہر ہے۔ اگر آپ راولپنڈی کینٹ سے پشاور کی طرف سفر کریں تو اس وقت آخری عمارت کوہ نور مل کی تھی۔ یہ کالج اس سے بھی ایک میل آگے ہے۔ ان کا ہوسٹل اس وقت راولپنڈی شہر، راجہ بازار سے تھوڑا آگے تھا۔ اس کالج کے طالبعلم غنڈہ گردی میں ماہر تھے۔ راولپنڈی صدر سے جو بسیں پشاور کی طرف چلتی تھیں، اس کالج کے طالبعلم رعائتی کرائے پر ان میں سفر کرتے تھے جو کہ اکثر اوقات زیادہ ہونے کی وجہ سے بسوں والے بٹھانے سے انکار کر دیتے تھے کہ کالج کے آگے ان کو اتارنے کے بعد کسی بھی سواری کا ملنا ناممکن ہوتا تھا۔ بعض دفعہ ان کی بس والوں سے لڑائی بھی ہو جاتی تھی۔ ان کی بدمعاشی یہ ہوتی تھی کہ لڑائی کی صورت میں یہ کالج میں اپنے حمائتیوں کو فون کر دیتے تھے کہ فلاں نمبر کی بس آ رہی ہے، اس کو روک لو۔ وہاں کالج کے قریب انہوں نے پہلے ہی بڑے بڑے پتھر رکھے ہوئے تھے۔ تو وہ بڑےبڑے پتھر سڑک پر رکھ کر سڑک بلاک کر دیتے تھے۔ جیسے ہی مخصوص نمبر والی بس وہاں پہنچتی، وہ اسے روک کر توڑ پھوڑ شروع کر دیتے۔
انہی دنوں بھٹو صاحب بھی مرحوم ایوب خان کے خلاف مختلف شہروں میں جلسے جلوس کر رہے تھے۔ ایک دن بھٹو صاحب پشاور میں جلسہ کرنے کے بعد راولپنڈی آ رہے تھے اور آئے بھی بائی روڈ، پولی ٹیکنک کالج کے طلباء کو اطلاع مل گئی، تو انہوں نے بھٹو صاحب کے گزرنے سے پہلے سڑک بلاک کر دی۔ ان دنوں یہ سڑک دو رویہ ہوتی تھی۔ جیسے ہی بھٹو صاحب کا کارواں وہاں پہنچا، ان طلباء نے ان کو روک لیا۔ بھٹو صاحب نے وہاں رک کر مختصر سی تقریر بھی کی۔ اس چھوٹے سے جلسے میں موجودہ شیخ رشید نے اصل شیخ رشید کو کیش کر لیا اور نعرے بازی کرتا رہا۔ اس کے بعد پھر چل سو چل۔ اصل شیخ رشید تو منظر عام سے ہٹ ہی چکے تھے، تو یہ شیخ رشید بن کر اُبھرا اور آج تک شیخ ہی بنا ہوا ہے۔
اس کی اصل حقیقت جاننے کے لیے اس کا میٹرک کا سرٹیفکیٹ نکلوا کر دیکھ لیں کہ اس پر اس کا کیا نام لکھا ہوا۔ رشید بٹ لکھا ہو گا۔