عبدالقیوم چوہدری
محفلین
یونیورسل ٹرتھ وغیرہ وغیرہ جی۔چوہدری صاحب یہ تجزیہ ہے یا بد دعا
یونیورسل ٹرتھ وغیرہ وغیرہ جی۔چوہدری صاحب یہ تجزیہ ہے یا بد دعا
انتہائی دلچسپ ۔۔۔!ریڈرز ڈائجسٹ کا ایک دلچسپ تجربہ۔ دنیا کے 16 مختلف شہروں میں جان بوجھ کر بارہ بارہ بٹوے گم کئے گئے یہ دیکھنے کے لیے کہ اس شہر کے لوگ کتنے ایماندار ہیں اور کتنے بٹوے واپس کیے جاتے ہیں۔
ہر بٹوے میں پچاس ڈالر مالیت کی مقامی کرنسی تھی (یعنی قریب سات ساڑھے سات ہزار پاکستانی روپے،گو پاکستان اس تجرے میں شامل نہیں تھا) اور اس کے ساتھ ساتھ بٹوے والے کا نام، فون نمبر اور مکمل پتا وغیرہ۔
سب سے زیادہ بٹوے ہیلسنکی، فن لینڈ میں واپس کیے گئے یعنی 12 میں سے 11 بٹوے جوں کے توں واپس کر دیئے گئے، اس کے بعد ممبئی انڈیا میں 9 بٹوے۔ سب سے کم پرتگال میں ایک، اور اسپین میں دو بٹوے واپس ہوئے۔
یہ نتائج دیکھیے:
یعنی کہ رونالڈو، لالیگا اور برازیل کے سحر سے باہر نکلا جائے۔ریڈرز ڈائجسٹ کا ایک دلچسپ تجربہ۔ دنیا کے 16 مختلف شہروں میں جان بوجھ کر بارہ بارہ بٹوے گم کئے گئے یہ دیکھنے کے لیے کہ اس شہر کے لوگ کتنے ایماندار ہیں اور کتنے بٹوے واپس کیے جاتے ہیں۔
ہر بٹوے میں پچاس ڈالر مالیت کی مقامی کرنسی تھی (یعنی قریب سات ساڑھے سات ہزار پاکستانی روپے،گو پاکستان اس تجرے میں شامل نہیں تھا) اور اس کے ساتھ ساتھ بٹوے والے کا نام، فون نمبر اور مکمل پتا وغیرہ۔
سب سے زیادہ بٹوے ہیلسنکی، فن لینڈ میں واپس کیے گئے یعنی 12 میں سے 11 بٹوے جوں کے توں واپس کر دیئے گئے، اس کے بعد ممبئی انڈیا میں 9 بٹوے۔ سب سے کم پرتگال میں ایک، اور اسپین میں دو بٹوے واپس ہوئے۔
یہ نتائج دیکھیے:
اس تجربے پر کافی اعتراضات بھی ہو رہے ہیں کہ سیمپل سائز بہت ہی چھوٹا تھا یعنی لاکھوں کی آبادی یا ممبئی جیسے شہر میں کروڑوں کی آبادی میں صرف بارہ بٹوے۔ پھر ساری دنیا کو بھی شامل نہیں کیا گیا، مثال کے طور پر کینڈا، جاپان، کوریا، آسٹریلیا وغیرہ اس میں شامل نہیں۔ پھر ایک اعتراض یہ بھی کہ ہر جگہ ایک جتنی رقم رکھنے سے مختلف رد عمل ہو سکتا ہے کیونکہ بعض جگہوں پر پچاس ڈالر کوئی اتنی بڑی رقم نہیں اور بعض جگہوں پر کافی بڑی رقم ہے۔یعنی کہ رونالڈو، لالیگا اور برازیل کے سحر سے باہر نکلا جائے۔
غالبا بھارت میں جاری "چوکیدار" کمپین کا نتیجہ ہےلیکن اس کے باوجود تجربہ دلچسپ ہے۔ فن لینڈ کی تو سمجھ میں آتی ہے لیکن ممبئی کے نتیجے نے کافی لوگوں کو حیران کر رکھا ہے۔
مجھے بھی اس پر اعتراضات ہیں۔اس تجربے پر کافی اعتراضات بھی ہو رہے ہیں کہ سیمپل سائز بہت ہی چھوٹا تھا یعنی لاکھوں کی آبادی یا ممبئی جیسے شہر میں کروڑوں کی آبادی میں صرف بارہ بٹوے۔ پھر ساری دنیا کو بھی شامل نہیں کیا گیا، مثال کے طور پر کینڈا، جاپان، کوریا، آسٹریلیا وغیرہ اس میں شامل نہیں۔ پھر ایک اعتراض یہ بھی کہ ہر جگہ ایک جتنی رقم رکھنے سے مختلف رد عمل ہو سکتا ہے کیونکہ بعض جگہوں پر پچاس ڈالر کوئی اتنی بڑی رقم نہیں اور بعض جگہوں پر کافی بڑی رقم ہے۔
لیکن اس کے باوجود تجربہ دلچسپ ہے۔ فن لینڈ کی تو سمجھ میں آتی ہے لیکن ممبئی کے نتیجے نے کافی لوگوں کو حیران کر رکھا ہے۔
سب سے بُرا شاید سوئٹرزلینڈ والے محسوس کر رہے ہیں کہ یہ ملک امیر ترین اور مہذب ترین ملکوں میں سے ہے۔ ایک سوئس دل جلے نے تبصرہ کیا کہ جو شخص اپنے بٹوے تک کی حفاظت نہیں کر سکتا وہ اس بات کا حقدار نہیں ہے کہ اسے بٹوہ واپس کیا جائے۔
میرے خیال میں اس پرینک کو ریسرچ کی بجائے بس کھیل ہی سمجھنا چاہیئے۔ اور دلچسپ تو ہے ہی۔لاجواب آئیڈیا ہے۔مجھے بھی اس پر اعتراضات ہیں۔
کوئی مسلم ملک نہیں، کوئی افریقی ملک نہیں، کوئی زرد اقوام میں سے نہیں۔ ریڈرز دائجسٹ نے گونگلوؤ سے مٹی جھاڑی ہے۔
تہذیب یافتہ ملکوں کایہ حال تو بدتہذیب لوگ تو گھر تک پہنچ جائیں گے۔۔۔مجھے بھی اس پر اعتراضات ہیں۔
کوئی مسلم ملک نہیں، کوئی افریقی ملک نہیں، کوئی زرد اقوام میں سے نہیں۔ ریڈرز دائجسٹ نے گونگلوؤ سے مٹی جھاڑی ہے۔
اس قسم کے ’’تجربے‘‘ تفریحی نوعیت کے ہوتے ہیں۔ دل پر نہ لیںکوئی مسلم ملک نہیں، کوئی افریقی ملک نہیں، کوئی زرد اقوام میں سے نہیں۔ ریڈرز دائجسٹ نے گونگلوؤ سے مٹی جھاڑی ہے۔
اس قسم کے ’’تجربے‘‘ تفریحی نوعیت کے ہوتے ہیں۔ دل پر نہ لیں
ایک سوئس دل جلے نے تبصرہ کیا کہ جو شخص اپنے بٹوے تک کی حفاظت نہیں کر سکتا وہ اس بات کا حقدار نہیں ہے کہ اسے بٹوہ واپس کیا جائے۔
چلیں، پرینک مان کر اعتراضات کی لو مدہم کر دیتے ہیں۔میرے خیال میں اس پرینک کو ریسرچ کی بجائے بس کھیل ہی سمجھنا چاہیئے۔ اور دلچسپ تو ہے ہی۔لاجواب آئیڈیا ہے۔
لوگ دل پر لے رہے ہیں، مثال کے طور پر:اس قسم کے ’’تجربے‘‘ تفریحی نوعیت کے ہوتے ہیں۔ دل پر نہ لیں
یہ سکینڈنیویا والے بڑی درویش قومیں ہیںایک ڈینش نے یہ کہہ کر دل کی بھڑاس نکالی کہ ڈنمارک میں لوگ گری ہوئی چیز کو اٹھاتے ہی نہیں کہ کون اس کو دیکھے اور واپس کرنے کے جھنجھٹ میں پڑے!
حد ہی ہو گئی یعنی کہ ۔۔۔! رپورٹر کی وضاحت بنام مدیر کو ہی شہ سرخی بنا دیا گیا ۔۔۔!سستے مدیروں کے کمالات۔
زرد اور لفافہ صحافت کے بعد پیش خدمت ہے "سست صحافت"سستے مدیروں کے کمالات۔
دلچسپریڈرز ڈائجسٹ کا ایک دلچسپ تجربہ۔ دنیا کے 16 مختلف شہروں میں جان بوجھ کر بارہ بارہ بٹوے گم کئے گئے یہ دیکھنے کے لیے کہ اس شہر کے لوگ کتنے ایماندار ہیں اور کتنے بٹوے واپس کیے جاتے ہیں۔
ہر بٹوے میں پچاس ڈالر مالیت کی مقامی کرنسی تھی (یعنی قریب سات ساڑھے سات ہزار پاکستانی روپے،گو پاکستان اس تجرے میں شامل نہیں تھا) اور اس کے ساتھ ساتھ بٹوے والے کا نام، فون نمبر اور مکمل پتا وغیرہ۔
سب سے زیادہ بٹوے ہیلسنکی، فن لینڈ میں واپس کیے گئے یعنی 12 میں سے 11 بٹوے جوں کے توں واپس کر دیئے گئے، اس کے بعد ممبئی انڈیا میں 9 بٹوے۔ سب سے کم پرتگال میں ایک، اور اسپین میں دو بٹوے واپس ہوئے۔
یہ نتائج دیکھیے: