سوتن کو گھوڑا کہنے پر برطانوی خاتون کو مقدمے کا سامنا
لالے شاہ راویش کو دبئی ائیر پورٹ سے گرفتار کیا گیا۔ فوٹو کریڈٹ : فیس بک
کچھ لوگ سوشل میڈیا کو ایک ایسی دنیا سمجھتے ہیں جہاں کسی کو، کسی بھی وقت کچھ بھی کہا جا سکتا ہے تاہم مختلف ممالک میں سائبر قوانین سخت ہونے کی وجہ سے تمام چیزیں پکڑ میں آتی ہیں اور الزام ثابت ہونے پر جرمانہ یہ قید بھگتنی پڑتی ہے۔
دبئی میں ایک برطانوی خاتون کو مقدمے کا سامنا اپنے سابقہ شوہر کی نئی بیگم کو فیس بک پر 'ہارس' کہنے پر کرنا پڑا۔ اس مقدمے میں انہیں دو سال قید کی سنائی جا سکتی ہے۔
55 سالہ، لالے شاہ راویش کو دبئی ائیر پورٹ پر اس وقت گرفتار کر لیا گیا جب وہ اپنے سابقہ شوہر کے جنازے میں شرکت کے لیے اپنی 14 سالہ بیٹی کے ہمرا لندن سے پرواز کر رہی تھی۔
2016 میں لالے نے فیس بک پر اپنے سابقہ شوہر کی شادی کی تصاویر پر کمنٹس کیے تھے۔
لالے اور ان کے سابقہ شوہر کی 18 سال رفاقت رہی، اس دوران لالے متحدہ عرب امارات میں 8 ماہ رہائش پذیر رہیں۔ اپنی بیٹی کے ساتھ لندن واپسی پر ان کا سابقہ شوہر اپنے ملک ہی میں مقیم رہا اور پھر اس جوڑے میں علیحدگی ہو گئی۔
فیس بک کے توسط سے لالے کو اپنے سابقہ شوہر کی دوسری شادی کی تصویریں دیکھنے کو ملیں۔ انہوں نے تصویروں پر فارسی میں دو کمنٹس کیے تھے۔ جس میں سے ایک مطلب کچھ یوں تھا کہ؛ مجھے امید ہے تم زمین میں اتر جاؤ گے، تم نے مجھے اس گھوڑے کے لیے چھوڑا۔
یو اے ای کے سائبر کرائم کے مطابق سوشل میڈیا پر ہتک آمیز بیانات جاری کرنے والے شخص کو جیل یا جرمانہ کی سزا کا سامنا کرنا پڑتا ہے۔
لالے کا کیس لڑنے والے ادارے ڈیٹینڈ ان دبئی کا کہنا ہے کہ لالے کو دو سال جیل میں قید یا 50،000 پاؤنڈ جرمانے کی سزا کا سامنا کرنا پڑ سکتا ہے۔
لا لے کے خلاف ان کے سابقہ شوہر کی دوسری بیگم نے فیس بک پر کیے گئے کمنٹس کی رپورٹ درج کروائی تھی۔
وزارت خارجہ کے آفس اور لالے کا کیس لڑنے والے ادارے کی طرف شکایت کنندہ کو اپنی شکایت واپس لینے کا کہا گیا لیکن انہوں نے منع کر دیا۔
ادارے کی نمائندہ خاتون اسٹرلنگ نے کہا کہ ان کی موکل کی ضمانت ہو چکی ہے تاہم ان کا پاسپورٹ حکومتی تحویل میں ہے اور اس وقت وہ ہوٹل میں رہ رہی ہیں۔
مذکورہ خاتون کی 14 سالہ بیٹی نے اپنی ماں کے لیے اپیل دائر کر رکھی ہے۔
ان کا کہنا تھا کہ کوئی بھی یو اے ای میں سائبر کرائم قوانین کی حساسیت کو نہیں جان پاتا، اور وزارت خارجہ سیاحوں کو ان قوانین کی آگاہی دینے میں بھی ناکام رہی ہے۔
وزارت خارجہ نے اپنے بیان میں کہا کہ ہمارا عملہ برطانوی خاتون اور ان کے خاندان کی مدد کر رہا ہے اور ہم یو اے ای حکام سے اس کیس کے حوالے سے رابطے میں بھی ہیں۔