حسیب نذیر گِل
محفلین
چل یار تو وی ویکھ لا۔قسم نال بڑا ہساندے واضروری نہیں بندہ جٹ ہوئے تے ایہہ فلم ویکھے۔ کوئی وی ویکھ سکدا اینوں۔ ویسے عمدہ فلم ہے گی۔ میں وی کوئی 25منٹاں دی ویکھی بیٹھاں
ویکھ کے فیر دسیں کیویں دی لگی
چل یار تو وی ویکھ لا۔قسم نال بڑا ہساندے واضروری نہیں بندہ جٹ ہوئے تے ایہہ فلم ویکھے۔ کوئی وی ویکھ سکدا اینوں۔ ویسے عمدہ فلم ہے گی۔ میں وی کوئی 25منٹاں دی ویکھی بیٹھاں
افلاطون بھائی اس طرح کی چند مزیدار سی فلمیں بتائیں
واقعی یار جٹوں کی بات ہی الگ ہےاپنے جٹ بھائیوں کی ساری فلمیں ہی مزے کی ہوتی ہیں۔ ایک فلم ہے مرزا، گپی گریوال کی، سنجیدہ فلم ہے لیکن کمال ہے۔باقی یار ان ملے، میل کر دے ربا، پنکی موہگے آلی۔ ساری فلمیں ہی مزے کی ہیں۔
OMG Oh My God دیکھی۔ اچھی فلم ثابت ہوئی۔ خاص کر کہ فلم کا کانسیپٹ۔ فلم سازی کا میعار کچھ بہت عمدہ نہیں تھا لیکن پھر بھی لوگوں نے اسے پسند کیا ہے۔ بہت سے لوگوں کو اعتراض بھی ہے کیونکہ کی فلم کا موضوع خطرناک حد تک کونٹرورشل ہے۔ ایک ہندو جو کہ مورتیاں بیچتا ہے لیکن دل سے وہ کسی خدا کے وجود پر یقین نہیں رکھتا۔ طوفان آتا ہے اور پورے شہر میں سے صرف اس کی دکان گر جاتی ہے۔ انشورنس والے اسے ایکٹ آف گاڈ کہہ کر نقصان بھرنے سے انکار کر دیتے ہیں۔ آخر تنگ آگر وہ خدا پر ہی مقدمہ دائر کر دیتا ہے۔ عدالت میں خدا تو نہیں آسکتا لیکن نوٹس پہنچ جاتا ہے بڑے بڑے سوامیوں، پنڈتوں، مولوی حضرات کو، پادریوں کو۔ پھر ایک مزیدار کیس چلتا ہے۔ بُت پرستی پر خاصی لعن طعن کی گئی ہے اس فلم میں جبکہ ہندو اپنے ہر خدا کا ایک بُت بنا کر اس کی عبادت کرتے ہیں۔ تو ایسی فلم انڈیا میں بنا کر ریلیز کرنا دل گردے کا کام ہے۔
بلکل اسی فلم کا ری میک یا نقل خوری ہے۔کچھ ٰعرصہ پہلے شاید کسی اخبار میں اس فلم کے بارے میں پڑھا تھا، جہاں لکھا تھا کہ یہ ایک آسٹریلین فلم "The Man Who Sued God" کا ری-میک ہے۔ ہندوستانی فلمیں تو میں دیکھتا نہیں، شاید یہ آسٹریلین فلم دیکھ لوں۔
کوئی نئی بات نہیں ہندوستان میں کسی فلم کا چربہ بنانا ۔ بات یہ ہے کہ ایسئ فلم کو ہندوستان میں ریلیز کرنا واقعی دل گردے کا کام ہے ۔کچھ ٰعرصہ پہلے شاید کسی اخبار میں اس فلم کے بارے میں پڑھا تھا، جہاں لکھا تھا کہ یہ ایک آسٹریلین فلم "The Man Who Sued God" کا ری-میک ہے۔ ہندوستانی فلمیں تو میں دیکھتا نہیں، شاید یہ آسٹریلین فلم دیکھ لوں۔