زیک
مسافر
اس معاملے میں اقبال کے الفاظ دیکھیں یا اعمال؟دیگر معاملات میں اقبال صاحب کا علمی قد جتنا بھی ہو، ان کی اغلاط کو جوں کا توں اٹھا کر اسے معاشرے پر مسلط نہیں کیا جا سکتا۔
اس معاملے میں اقبال کے الفاظ دیکھیں یا اعمال؟دیگر معاملات میں اقبال صاحب کا علمی قد جتنا بھی ہو، ان کی اغلاط کو جوں کا توں اٹھا کر اسے معاشرے پر مسلط نہیں کیا جا سکتا۔
مولوی یہ سب کرنے کا کہتا نہیں ہے لیکن ان غلط اعمال کی روک تھام کیلئے کوئی عملی تدبیر بھی نہیں کرتا۔ بہت سے مولوی تو خود ہی ان غلط معاشرتی ریوں میں ملوث ہیں تو وہ کیا کسی کی اصلاح کریں گے؟آپ کی بات بھی درست ہے، یورپ ہمارے معاشرتی رویوں کا ذمہ دار نہیں ہے۔ لیکن ویسے ہی کیا مولوی جمعہ کے خطبے میں کہتا ہے کہ زبردستی کی شادی کرو، راہ چلتی عورت کو چھیڑو، عورت کو جائیداد میں حصہ نہ دو، جہیز مانگو ؟
ہمارے سامنے الفاظ ہیں اور وہی دیکھے جانے چاہئیں۔ اعمال کا دارومدار نیت پر ہے اور ان کے کسی عمل کے لیے کئی طرح کے جوازات تلاش کیے جا سکتے ہیں۔ گو کہ اشعار کی بھی مختلف تعبیرات ممکن ہیں، تاہم، مذکورہ اشعار کا مفہوم تو بالکل واضح ہے اور ہماری دانست میں یہ کثیر معانی نہ ہیں اور اکہرے مفہوم کے حامل ہیں۔اس معاملے میں اقبال کے الفاظ دیکھیں یا اعمال؟
یوں ہی تو جاسوس اعظم نہیں کہلاتے!!!اور میرے پاس دو سے زیادہ کی معلومات ہیں
نے پردہ، نہ تعلیم، نئی ہو کہ پُرانییہ سوچ، کہ عورت کی زندگی کے معاملات کا نگہبان اس عورت کو خود نہیں بلکہ کسی مرد کو ہونا چاہیے، انتہائی واہیات فیوڈل سوچ ہے، خواہ وہ جس کی طرف سے بھی آئے۔ دیگر معاملات میں اقبال صاحب کا علمی قد جتنا بھی ہو، ان کی اغلاط کو جوں کا توں اٹھا کر اسے معاشرے پر مسلط نہیں کیا جا سکتا۔
کسی کو برا لگتا ہے تو لگے میری بلا سے، لیکن جب مقصد خیالات کو جانچنا ہو تو خیالات کی ہی اہمیت ہوتی ہے، اس بات کی نہیں کہ وہ خیالات کس کے تھے۔
نسوانیت زن کیا ہے اور اس میں کتنے معاملات آتے ہیں؟ کیا وہ عورت کے "زندگی کے معاملات" کی ذیل میں آتے ہیں یا نہیں؟ کیا ان کی تعداد ایک ہے یا ایک سے زائد ہے؟ اگر زائد ہے تو کتنی زائد ہے؟نے پردہ، نہ تعلیم، نئی ہو کہ پُرانی
نِسوانیَتِ زن کا نِگہباں ہے فقط مرد
(اقبال)
مجھے آپ کی رائے بری نہیں لگی البتہ چند جملوں پر غور فرمائیے
نِسوانیَتِ زن کی نِگہبانی سپیسیفک بات ہے
اور
عورت کی زندگی کے معاملات کی نگہبانی جنرک بات ہے
سپیسیفک بات کو جنرلائز کرنا ایک منطقی غلطی ہے۔
ریاضی میں
∃ there exists
اور
∀for all
کا فرق بھی اس بات کو سمجھنے میں معاون ہو سکتا ہے۔
آہا۔۔۔کچھ علامہ اقبال کی بھی سنتے چلئے:
اک زندہ حقیقت مرے سینے میں ہے مستور
کیا سمجھے گا وہ جس کی رگوں میں ہے لہُو سرد
نے پردہ، نہ تعلیم، نئی ہو کہ پُرانی
نِسوانیَتِ زن کا نِگہباں ہے فقط مرد
جس قوم نے اس زندہ حقیقت کو نہ پایا
اُس قوم کا خورشید بہت جلد ہُوا زرد
الفاظ ہی دیکھناچاہئے، کسی انسان کے نظریے سے بحث ہوتی ہے،کسی کے اعمال سے نہیں، اگراعمال سے بحث شروع ہوجائے تو پوری محفل کا بینڈ بج جائے گا، کون یہاں جنیدورومی ہے؟اس معاملے میں اقبال کے الفاظ دیکھیں یا اعمال؟
اسے کہتے ہیں بحث برائے بحثاول الذکر کی صورت میں کیا آپ نشاندہی کر سکتے ہیں کہ وہ کون سا threshold ہو گا جہاں پہنچ کر اس کے لیے "عورت کی زندگی کے معاملات" کی اصطلاح کا استعمال درست ہو؟ ۳؟ ۵؟ ۱۰؟ ۱۲؟ جب آپ نسوانیت زن کی ذیل میں آنے والے معاملات کی نشاندہی کرتے ہیں تو کیا وہ تعداد میں اس تھریشولڈ کو پہنچتے ہیں یا نہیں؟
پہلے آپ کو یہ واضح کرناچاہئے کہ نسوانیت زن سے آپ نے کیاسمجھاہے،تاکہ پھر دوسرے لوگ سمجھ سکیں کہ آپ کا سمجھنا کتنادرست ہے؟یہ سوچ، کہ عورت کی زندگی کے معاملات کا نگہبان اس عورت کو خود نہیں بلکہ کسی مرد کو ہونا چاہیے، انتہائی واہیات فیوڈل سوچ ہے، خواہ وہ جس کی طرف سے بھی آئے۔ دیگر معاملات میں اقبال صاحب کا علمی قد جتنا بھی ہو، ان کی اغلاط کو جوں کا توں اٹھا کر اسے معاشرے پر مسلط نہیں کیا جا سکتا۔
کسی کو برا لگتا ہے تو لگے میری بلا سے، لیکن جب مقصد خیالات کو جانچنا ہو تو خیالات کی ہی اہمیت ہوتی ہے، اس بات کی نہیں کہ وہ خیالات کس کے تھے۔
دونوں ہی دیکھنے چاہئیں اور یہ دیکھنا چاہئے کہ اس کی وجہ کیا ہے۔ ایک خاتون کو جانتا ہوں جو حقوقِ نسواں کی سرخیل اور تعدد ازواج کی سخت مخالف ہیں مگر خود ایک کاروباری شخص کی تیسری بیوی ہیں۔اس معاملے میں اقبال کے الفاظ دیکھیں یا اعمال؟
اسے کہتے ہیں بحث برائے بحث
نے پردہ، نہ تعلیم، نئی ہو کہ پُرانی
نِسوانیَتِ زن کا نِگہباں ہے فقط مرد
(اقبال)
مجھے آپ کی رائے بری نہیں لگی البتہ چند جملوں پر غور فرمائیے
نِسوانیَتِ زن کی نِگہبانی سپیسیفک بات ہے
اور
عورت کی زندگی کے معاملات کی نگہبانی جنرک بات ہے
سپیسیفک بات کو جنرلائز کرنا ایک منطقی غلطی ہے۔
ریاضی میں
∃ there exists
اور
∀for all
کا فرق بھی اس بات کو سمجھنے میں معاون ہو سکتا ہے۔
اس سے جو بھی سمجھا جائے، یہ بات کم از کم واضح ہے کہ وہ عورت کی اپنی زندگی کا ایک معاملہ ہے، اور اس کے فورا بعد آنے والے الفاظ اس معاملے پر عورت کا اپنا اختیار تسلیم کرنے کے بجائے مرد کو زبردستی اس پر نگہبان مسلط کر رہے ہیں۔پہلے آپ کو یہ واضح کرناچاہئے کہ نسوانیت زن سے آپ نے کیاسمجھاہے،تاکہ پھر دوسرے لوگ سمجھ سکیں کہ آپ کا سمجھنا کتنادرست ہے؟
تہذیب فرنگی ہے اگر مرگ امومت
ہے حضرت انسان کے ليے اس کا ثمرموت
جس علم کی تاثیر سے زن ہوتی ہے نازن
کہتے ہیں اسی علم کو اربابِ نظر موت
بیگانہ رہے دیں سے اگر مدرسہ زن
ہے عشق و محبت کے ليے علم و ہنر موت
آپ نے اب تک عورت مارچ پر مولویوں کے پتھراؤ کی خبریں تو دیکھ ہی لی ہوں گی ویڈیوز سمیت۔ نسوانیت کا تو جو آپ مطلب بتائیں گے سو بتائیں گے، نگہبانی کا مطلب خوب سمجھ آ گیا ہے اس صورت حال کو دیکھ کر کہ آپ لوگوں کے نزدیک کیا ہے۔پہلے آپ کو یہ واضح کرناچاہئے کہ نسوانیت زن سے آپ نے کیاسمجھاہے،تاکہ پھر دوسرے لوگ سمجھ سکیں کہ آپ کا سمجھنا کتنادرست ہے؟
پہلی بات تو یہ ہے کہ اقبال ایک انسان ہے نہ ہی خدا اور نہ ہی کوئی نبی۔ اس لیے اقبال کو بت بنا کر پوجنے والوں کو سوچنا چاہیے کہ ہر انسان غلطی کا مرتکب ہو سکتا ہے یا اس کے خیالات محض ذاتی خیالات ہوتے ہیں ان سے صحیح یا غلط کی تصدیق اس سے نہیں ہو گی کہ وہ انسان کتنا ذہین ہے یا اس نے کتنی کتابیں لکھی ہیں۔ اللہ نے ہر انسان کو عقل اس لیے دی ہے کہ وہ صحیح اور غلط میں تمیز کر سکے نہ کہ اسے سائیڈ پہ رکھ کے دوسروں کے خیالات کی پرستش شروع کر دے۔ اقبال جتنا بھی محترم ہو نبی کے درجے کو نہیں پہنچ سکتا اور نہ ہی اللہ نے اقبال کی کوئی انڈورسمنٹ کی ہے۔ بروز قیامت یہ حجت قطعی نہیں ہو گی کہ آپ نے اقبال کے خیالات کے مطابق عمل کیا بلکہ صرف اور صرف یہ حجت ہو گی کہ آپ نے اللہ کے احکامات پہ کتنا عمل کیا۔ اقبال تو ابھی بہت دور کی بات ہے یہ حجت بھی قطعی نہیں ہو گی کہ آپ نے ابو بکر صدیق رضہ عمر فاروق رضہ عثمان غنی رضہ یا حضرت علی رضہ کے خیالات اور اعمال کے مطابق عمل کیا۔ مومن کا معیار صرف اللہ کے احکامات ہیں۔کچھ علامہ اقبال کی بھی سنتے چلئے:
اک زندہ حقیقت مرے سینے میں ہے مستور
کیا سمجھے گا وہ جس کی رگوں میں ہے لہُو سرد
نے پردہ، نہ تعلیم، نئی ہو کہ پُرانی
نِسوانیَتِ زن کا نِگہباں ہے فقط مرد
جس قوم نے اس زندہ حقیقت کو نہ پایا
اُس قوم کا خورشید بہت جلد ہُوا زرد
کیا کہنے جناب کے۔ خود ہی الزام لگانے والے اور خود ہی جج۔ پہلے تو قران کو ٹریڈ مارک بنا کے اپنے تک محدود رکھو تاکہ لوگ ہمارے محتاج رہیں اور دوسروں کو صرف عربی پڑھ کر ثواب کمانے تک محدود رکھو۔ اب سمجھ میں آتا ہے کہ قطب الدین احمد صاحب کو قران کا فارسی میں ترجمہ کرنے پر لعن طعن کا سامنا کیوں کرنا پڑا تھا۔ اب اگر کوئی ایسی گستاخی کر بیٹھے کہ قران کو سمجھ کر پڑھنے کی تو اس پہ باطل کی طرف مائل کے فتوے صادر کرو۔ لے دے کے صرف یہی بات رہ جاتی ہے کہ ہر وہ شخص باطل ہے جو آپ کے حق میں نہیں آپ ہی کی طرح نہیں سوچتا اور آپ کی من پسند تاویلات اور تشریحات پہ ایمان نہیں لاتا۔یہاں بعض لوگوں کا قلب و ذہن قرآن پڑھنے کے بعد بھی باطل کی طرف زیادہ مائل ہے!!!
لہجہ تو کافی تلخ ہے، بات میں مگر وزن بہت ہے۔پہلی بات تو یہ ہے کہ اقبال ایک انسان ہے نہ ہی خدا اور نہ ہی کوئی نبی۔ اس لیے اقبال کو بت بنا کر پوجنے والوں کو سوچنا چاہیے کہ ہر انسان غلطی کا مرتکب ہو سکتا ہے یا اس کے خیالات محض ذاتی خیالات ہوتے ہیں ان سے صحیح یا غلط کی تصدیق اس سے نہیں ہو گی کہ وہ انسان کتنا ذہین ہے یا اس نے کتنی کتابیں لکھی ہیں۔ اللہ نے ہر انسان کو عقل اس لیے دی ہے کہ وہ صحیح اور غلط میں تمیز کر سکے نہ کہ اسے سائیڈ پہ رکھ کے دوسروں کے خیالات کی پرستش شروع کر دے۔ اقبال جتنا بھی محترم ہو نبی کے درجے کو نہیں پہنچ سکتا اور نہ ہی اللہ نے اقبال کی کوئی انڈورسمنٹ کی ہے۔ بروز قیامت یہ حجت قطعی نہیں ہو گی کہ آپ نے اقبال کے خیالات کے مطابق عمل کیا بلکہ صرف اور صرف یہ حجت ہو گی کہ آپ نے اللہ کے احکامات پہ کتنا عمل کیا۔ اقبال تو ابھی بہت دور کی بات ہے یہ حجت بھی قطعی نہیں ہو گی کہ آپ نے ابو بکر صدیق رضہ عمر فاروق رضہ عثمان غنی رضہ یا حضرت علی رضہ کے خیالات اور اعمال کے مطابق عمل کیا۔ مومن کا معیار صرف اللہ کے احکامات ہیں۔
دوسری بات یہ کہ چار صدیاں گزرنے کو ہیں اور اقبال کو بھی یہ کہے ہوئے ایک صدی گزرنے کو ہے کہ ابھی تک یورپ کا خورشید زرد نہیں ہوا۔ ابھی تک آپ انہی سے بھیک لیتے ہیں انہی کی ٹیکنالوجی استعمال کرتے ہیں۔ مسجد کے سپیکر سے لے کر مولانا کے پاس جو موبائل ہے وہ بھی انہی سے آیا ہے۔ یہ اس قوم کا ظرف ہے کہ اس نے علم کو خود تک محدود اور چھپا کے نہیں رکھا۔ اگر ایسا کیا ہوتا تو ابھی تک آپ گھروں میں دیے جلا رہے ہوتے اور بیل گاڑیوں میں سفر کر رہے ہوتے۔ آپ کا سورج تو ابھی تک طلوع ہی نہیں ہوا اور آپ دوسروں کا سورج زرد ہونے کی بات کرتے ہیں۔ حد ہے اور بے حد ہے۔ یورپ چاہے سارا ننگا پھرے ہمارے ٹھیک یا غلط ہونے کا ذمہ دار یورپ نہیں بلکہ ہمارا اپنا معاشرہ اور سو کالڈ علماء ہیں۔ ہمیں اپنے گھر کو ٹھیک کرنا ہے اور گھر کو ٹھیک اس وقت کیا جا سکتا ہے جب توجہ اپنے گھر اور غلطیوں پہ ہو۔
بھائی لہجے میں یہ تلخی بچپن سے نہیں ہے۔ صرف اور صرف سچ جاننے کی جستجو میں سو کالڈ علماء برادری کی طرف سے تھریٹن کیے جانے اور طرح طرح کے الزام لگائے جانے کی وجہ سے ہے۔ آپ کو یہ لہجہ اگر برا لگا تو تہ دل سے پشیمان اور معذرت خواہ ہوں۔لہجہ تو کافی تلخ ہے، بات میں مگر وزن بہت ہے۔