آزادیِ نسواں۔۔۔ آخری حد کیا ہے؟؟؟

ابن جمال

محفلین
علامہ اقبال نے مدراس کی خواتین سے فرمایا تھا:
’’آپ نے اپنے لیے ایڈریس میں اسیرانِ قفس کے الفاظ استعمال کیے ہیں۔ ان سے مجھے مغربی عورتوں کی اس تحریک کا خیال ہوا جسے ترکی میں یا اور جگہ یورپ میں (Emacipation)’مردوں کے غلبہ سے آزادی‘ کے لفظ سے تعبیر کیا جاتا ہے…. آپ کو لفظ آزادی پر نہیں جانا چاہیے۔ آزادی کے صحیح مفہوم پر غور کرنا چاہیے، یورپ کی آزادی کو ہم خوب دیکھ چکے ہیں، یورپین تہذیب باہر ہی سے دیکھی جارہی ہے، کبھی اندر سے دیکھی جائے تو رونگٹے کھڑے ہوں۔ بڑھے ہوئے معیار زندگی کا وہاں لوگوں پر یہ اثر پڑا ہے کہ بعض ماں باپ بچے کی زندگی کا بیمہ کرادیتے ہیں۔ پھر بچے کو تھوڑی خوراک دے کر ہلاک کردیا جاتا ہے۔ بچوں کو اسی قسم کی ہلاکت سے بچانے کے لیے یورپ میں کئی سوسائٹیاں مقرر ہیں۔ مسلمانوں کو چاہیے کہ وہ قرآن پڑھیں اور اس کی تعلیم پر غور کریں….‘‘
 

ابن جمال

محفلین
یہاں بعض لوگوں کا قلب و ذہن قرآن پڑھنے کے بعد بھی باطل کی طرف زیادہ مائل ہے!!!
یہ تواللہ نے قرآن کریم کی صفت بیان فرمائی ہے یضل بہ کثیرویہدی بہ کثیرا کہ قرآن پڑھ کر بہت سے لوگ ہدایت پاتے ہیں اوربہت سے لوگ گمراہ ہوتے ہیں لیکن یہ گمراہی قرآن کی وجہ سے نہیں ہوتی بلکہ ان کی اپنی طبیعت میں موجود جوہر اورصلاحیت کی وجہ سے ہوتی ہے، قرآن کریم ایک آئینہ ہے جس سے وہ افراد جن کی طبیعت میں صالحیت اور خیر ہے وہ ہدایت یاب ہوتے ہیں اورجن کی طبیعت میں فسق وفجور ہے وہ مزید گمراہ ہوتے ہیں۔
حضرت عمررضی اللہ عنہ کا قول ہے کہ امیتوالباطل بالصمت عنہ ،باطل کو خاموش رہ کر فناکردو، بسااوقات ایساہوتاہے کہ جس چیز کی جتنی تردید کی جائے، وہ اتنی ہی مشہور ہونے لگتی ہے اس موقع پر حکمت کا تقاضایہی ہوتاہے کہ اس سے اعراض کرلیاجائے،وہ برائی خود ختم ہوجاتی ہے، میرے خیال میں عورت مارچ بھی کچھ اسی قبیل سے ہے،اس سےا عراض کرناچاہئے، ایک دن کا شور ہے،اوربس۔
دوسری چیز یہ ہے کہ اسکول اورکالج میں پڑھنے والے طلباء تعلیمی نظام کے سقم اور دیگر خامیوں کی وجہ سے اسلام کے تعلق سے مختف شکوک وشبہات مبتلارہتے ہیں، اصلاح کا طریقہ یہ نہیں کہ ان سے مناظرہ کیاجائے اوردنداں شکن جواب سے خاموش کیاجائے، کیونکہ دلیل کا تعلق عقل سے ہوتاہے، عقل عیار ہوتی ہے سوبھیس بنالیتی ہے، ضرورت اس بات کی ہے کہ عقل کے بجائے دل کو ٹچ کیاجائے اور جب دل ایک مرتبہ متاثر ہوجاتاہے تو پھر وہ نہ صرف اس کے حق میں سودلیل بنالیتاہے بلکہ وہ کسی مخالف دلیل کو خاطر میں نہیں لاتا، یہی وجہ ہے کہ ہم دیکھتے ہیں کہ کالجوں میں پڑھنے والے بہت سے اعلیٰ تعلیم یافتہ لوگ اسلام کے تعلق سے شکوک وشبہات کا شکار ہوتے ہیں لیکن کوئی کسان جاہل کبھی اس طرح کا شکار نہیں ہوتا، کیونکہ اسلام کے ساتھ اس کا تعلق دماغ کا نہیں دل کا ہوتاہے۔
ہمارے قریب میں ایک مسلم خاتون تھی جو اسلام پر اعتراض کرتی تھی کہ اسلام نے عورت کے ساتھ غلط سلوک کیاہے، وراثت میں آدھاحصہ کو بطور دلیل پیش کرتی تھی یہ چند برسوں قبل کا واقعہ ہے، آج وہ خاتون پردے شرعی پردہ میں رہتی ہےا ورکہیں آنا جاناکرتی ہے،خاموش محنت کا اپنا الگ جادو ہے۔
تیسری چیز یہ ہے جو ہم بہت سے اسلام کے نام لیوا بھی بھول گئے ہیں کہ ہمارے وہ بھائی جو کسی بھی وجہ سے اسلام کے تعلق سے شکوک وشبہات کے شکار ہیں، ان کیلئے خیر کی اورہدایت کی دعا کریں، جب اللہ کے رسول نے ابوجہل اور حضرت عمر(جب وہ مسلمان نہ ہوئے تھے بلکہ مسلمانوں کے سخت دشمن تھے) کے حق میں ہدایت کی دعا کی تو یہ ہمارے بھائی توان سے بدرجہا بہتر ہیں، ان کیلئے اگر ہم خلوص دل سے دعاکریں تو انشاء اللہ ضرور ان کے بھی دل کی دنیا بدلے گی کیونکہ اللہ کے رسول ﷺ کے ارشاد کے مطابق بندوں کے دل اس کی دوانگلیوں کےد رمیان ہیں، وہ جدھر چاہے پلٹ دے، یہی دعاہمیں کرنی ہے کہ اے اللہ یہ ہمارے بھائی اورتیرے بندے کسی وجہ سے اسلام کی شاہراہ سے کٹ گئے ہین اسلام اورایمان کو ہمارے اوران کے دلوں میں جاگزیں فرما۔
 

سید عمران

محفلین
یہ تواللہ نے قرآن کریم کی صفت بیان فرمائی ہے یضل بہ کثیرویہدی بہ کثیرا کہ قرآن پڑھ کر بہت سے لوگ ہدایت پاتے ہیں اوربہت سے لوگ گمراہ ہوتے ہیں لیکن یہ گمراہی قرآن کی وجہ سے نہیں ہوتی بلکہ ان کی اپنی طبیعت میں موجود جوہر اورصلاحیت کی وجہ سے ہوتی ہے، قرآن کریم ایک آئینہ ہے جس سے وہ افراد جن کی طبیعت میں صالحیت اور خیر ہے وہ ہدایت یاب ہوتے ہیں اورجن کی طبیعت میں فسق وفجور ہے وہ مزید گمراہ ہوتے ہیں۔
جی بالکل درست۔۔۔
اصل بات یہی ہے۔۔۔
عام آدمی ناسمجھی یا دوسروں کو غلط سمجھانے کی وجہ سے غلط فہمی کا شکار ہوجائے تو اسے سمجھانا مفید ہوتا ہے۔۔۔
لیکن بات ان لوگوں کی ہورہی ہے جو خاص ایجنڈا لے کر دیدہ و دانستہ گمراہی پھیلانے آتے ہیں۔۔۔
ان کا مقصد راہ ہدایت پر آنا نہیں، دوسروں کو اس راہ سے گم کرنا ہے!!!
 

فرقان احمد

محفلین
بدقسمتی سے، وطن عزیز میں خواتین کو اسلام اور آئین و قانون میں دیے گئے حقوق سے بھی محروم رکھا گیا ہے۔ صرف اس عورت مارچ پر تنقید سے کچھ حاصل نہ ہو گا۔ اگر ہم صدق دل سے اس بات کے تمنائی ہیں کہ یہ خواتین ہماری معاشرتی اقدار اور بنیادی اخلاقیات کے تابع رہیں تو ہمیں کم ازکم آئین و قانون میں دیے گئے حقوق ان خواتین کو دینے کے حوالے سے پیش قدمی کرنا ہو گی وگرنہ متبادل بیانیہ زور پکڑے گا۔ چاہے یہ بیانیہ ہمیں تیتر رہنے دے، نہ بٹیر پر اس میں کیا شک کہ کسی نے کسی نے تو خلا پُر کرنا ہوتا ہے۔ ہمارا زیادہ تر زور اس مارچ کو رکوانے پر ہے تاہم جو کچھ ہمیں سننے کو مل رہا ہے، اگر ہم ٹھنڈے دل و دماغ سے سوچیں تو کیا ہم نے یہ سب کچھ سننے کے لیے فضا خود سے تو ہموار نہیں کی ہے؟ کیا یہ ایک المیہ نہیں کہ ہم میں سے اکثر افراد اپنی بہنوں، بیٹیوں کو جائیداد میں سے ان کا مقرر کردہ حصہ دینے سے پہلو تہی کرتے ہیں۔ ملازمت پر اسے ہراساں کرنے میں ہم ایسے پیش پیش ہوتے ہیں۔ کیا ہماری نگاہیں بے باک نہ ہیں؟ یہاں یہ کہنا مقصود نہیں کہ خواتین کا کوئی قصور نہیں تاہم ہماری سوچی سمجھی رائے ہے کہ مردوں کے اس معاشرے میں اگر کوئی زیادہ بڑا قصور وار ہے تو وہ مرد ہی ہے۔ ہمیں اپنی اصلاح پر توجہ دینا ہو گی۔
 
آخری تدوین:

محمد وارث

لائبریرین
سو، یہ معروف معنوں میں مخلوط محفل نہ ہوئی۔
"فلسفیانہ" سطح پر آپ کہہ سکتے ہیں کہ اردو محفل معروف معنوں میں ایک مخلوط محفل نہیں ہے جب کہ حقیقت یہ ہے کہ اسی محفل کی بدولت اسی محفل کے ارکان کے درمیان کم از کم دو شادیاں ہو چکی ہیں (جن کا مجھے علم ہے، باقی کا کچھ کہہ نہیں سکتا)۔ :)
 

سید عمران

محفلین
"فلسفیانہ" سطح پر آپ کہہ سکتے ہیں کہ اردو محفل معروف معنوں میں ایک مخلوط محفل نہیں ہے جب کہ حقیقت یہ ہے کہ اسی محفل کی بدولت اسی محفل کے ارکان کے درمیان کم از کم دو شادیاں ہو چکی ہیں (جن کا مجھے علم ہے، باقی کا کچھ کہہ نہیں سکتا)۔ :)

ایک کیس میں آپ نے ایک با’’ہمت‘‘ خان کو بند بھی کرایا ہے!!!
 

فہیم

لائبریرین
"فلسفیانہ" سطح پر آپ کہہ سکتے ہیں کہ اردو محفل معروف معنوں میں ایک مخلوط محفل نہیں ہے جب کہ حقیقت یہ ہے کہ اسی محفل کی بدولت اسی محفل کے ارکان کے درمیان کم از کم دو شادیاں ہو چکی ہیں (جن کا مجھے علم ہے، باقی کا کچھ کہہ نہیں سکتا)۔ :)
اور میرے پاس دو سے زیادہ کی معلومات ہیں:)
 

عدنان عمر

محفلین
بدقسمتی سے، وطن عزیز میں خواتین کو اسلام اور آئین و قانون میں دیے گئے حقوق سے بھی محروم رکھا گیا ہے۔ صرف اس عورت مارچ پر تنقید سے کچھ حاصل نہ ہو گا۔ اگر ہم صدق دل سے اس بات کے تمنائی ہیں کہ یہ خواتین ہماری معاشرتی اقدار اور بنیادی اخلاقیات کے تابع رہیں تو ہمیں کم ازکم آئین و قانون میں دیے گئے حقوق ان خواتین کو دینے کے حوالے سے پیش قدمی کرنا ہو گی وگرنہ متبادل بیانیہ زور پکڑے گا۔ چاہے یہ بیانیہ ہمیں تیتر رہنے دے، نہ بٹیر پر اس میں کیا شک کہ کسی نے کسی نے تو خلا پُر کرنا ہوتا ہے۔ ہمارا زیادہ تر زور اس مارچ کو رکوانے پر ہے تاہم جو کچھ ہمیں سننے کو مل رہا ہے، اگر ہم ٹھنڈے دل و دماغ سے سوچیں تو کیا ہم نے یہ سب کچھ سننے کے فضا خود سے تو ہموار نہیں کی ہے؟ کیا یہ ایک المیہ نہیں کہ ہم میں سے اکثر افراد اپنی بہنوں، بیٹیوں کو جائیداد میں سے ان کا مقرر کردہ حصہ دینے سے پہلو تہی کرتے ہیں۔ ملازمت پر اسے ہراساں کرنے میں ہم ایسے پیش پیش ہوتے ہیں۔ کیا ہماری نگاہیں بے باک نہ ہیں؟ یہاں یہ کہنا مقصود نہیں کہ خواتین کا کوئی قصور نہیں تاہم ہماری سوچی سمجھی رائے ہے کہ مردوں کے اس معاشرے میں اگر کوئی زیادہ بڑا قصور وار ہے تو وہ مرد ہی ہے۔ ہمیں اپنی اصلاح پر توجہ دینا ہو گی۔
آپ کی بیشتر باتوں سے اتفاق ہے، لیکن یہاں اختلافات اس بات پر نہیں ہے کہ عورتوں کو یہ حقوق نہیں ملنے چاہئیں۔ اختلاف اس بات کا ہے عورتوں کے حقوق کا علَم بلند کرنے والی عورتوں، مردوں اور تنظیموں کا اصل ایجنڈا انھیں معاشرے کی اخلاقی جکڑ بندیوں سے نجات دلوانا اور مادر پدر آزاد کروانا ہے۔ یہ ایجنڈا اب اتنا واضح ہو گیا ہے کہ اس سے انکار نہیں کیا جا سکتا۔ ایسا ایجنڈا نہ تو برداشت کیا جا سکتا ہے اور نہ کیا جانا چاہیے۔
عورتوں کو ان کے کھوئے ہوئے حقوق ضرور ملنے چاہئیں لیکن معاشرتی بگاڑ کی قیمت پر نہیں۔ اور بگاڑ بھی ایسا کہ جو ایک گھن کی طرح مغربی معاشروں کو کھانے کے بعد اب ہماری طرف بڑھ رہا ہے۔
 

محمد سعد

محفلین
آپ کی بیشتر باتوں سے اتفاق ہے، لیکن یہاں اختلافات اس بات پر نہیں ہے کہ عورتوں کو یہ حقوق نہیں ملنے چاہئیں۔ اختلاف اس بات کا ہے عورتوں کے حقوق کا علَم بلند کرنے والی عورتوں، مردوں اور تنظیموں کا اصل ایجنڈا انھیں معاشرے کی اخلاقی جکڑ بندیوں سے نجات دلوانا اور مادر پدر آزاد کروانا ہے۔ یہ ایجنڈا اب اتنا واضح ہو گیا ہے کہ اس سے انکار نہیں کیا جا سکتا۔ ایسا ایجنڈا نہ تو برداشت کیا جا سکتا ہے اور نہ کیا جانا چاہیے۔
عورتوں کو ان کے کھوئے ہوئے حقوق ضرور ملنے چاہئیں لیکن معاشرتی بگاڑ کی قیمت پر نہیں۔ اور بگاڑ بھی ایسا کہ جو ایک گھن کی طرح مغربی معاشروں کو کھانے کے بعد اب ہماری طرف بڑھ رہا ہے۔
تو یار آپ ان کو حقوق دے دو، احتجاج کا جواز خود ہی ختم ہو جائے گا۔ یہ کوئی راکٹ سائنس ہے کیا؟

اگر اس مخصوص مارچ پر اعتراض ہے تو پھر ان کے جائز حقوق کی بات کرتے ہوئے کیوں ہمارے معاشرے پر موت کا سناٹا طاری ہو جاتا ہے؟ کیا یہ ایک سنگین مرض کی علامت نہیں؟
 

جاسم محمد

محفلین
"فلسفیانہ" سطح پر آپ کہہ سکتے ہیں کہ اردو محفل معروف معنوں میں ایک مخلوط محفل نہیں ہے جب کہ حقیقت یہ ہے کہ اسی محفل کی بدولت اسی محفل کے ارکان کے درمیان کم از کم دو شادیاں ہو چکی ہیں (جن کا مجھے علم ہے، باقی کا کچھ کہہ نہیں سکتا)۔ :)
یعنی محفل ماضی کے سنہری دور میں رشتے کروانے والی “ماسی” کی خدمات بھی ادا کر چکی ہے :)
 

جاسم محمد

محفلین
آپ کی بیشتر باتوں سے اتفاق ہے، لیکن یہاں اختلافات اس بات پر نہیں ہے کہ عورتوں کو یہ حقوق نہیں ملنے چاہئیں۔ اختلاف اس بات کا ہے عورتوں کے حقوق کا علَم بلند کرنے والی عورتوں، مردوں اور تنظیموں کا اصل ایجنڈا انھیں معاشرے کی اخلاقی جکڑ بندیوں سے نجات دلوانا اور مادر پدر آزاد کروانا ہے۔ یہ ایجنڈا اب اتنا واضح ہو گیا ہے کہ اس سے انکار نہیں کیا جا سکتا۔ ایسا ایجنڈا نہ تو برداشت کیا جا سکتا ہے اور نہ کیا جانا چاہیے۔
عورتوں کو ان کے کھوئے ہوئے حقوق ضرور ملنے چاہئیں لیکن معاشرتی بگاڑ کی قیمت پر نہیں۔ اور بگاڑ بھی ایسا کہ جو ایک گھن کی طرح مغربی معاشروں کو کھانے کے بعد اب ہماری طرف بڑھ رہا ہے۔
عورت مارچ والیاں اگر ان تحفظات کو دور کرکے ریلیاں نکالیں تو میرا نہیں خیال کسی کو کوئی اعتراض ہوگا
 

محمد سعد

محفلین
کچھ علامہ اقبال کی بھی سنتے چلئے:

اک زندہ حقیقت مرے سینے میں ہے مستور
کیا سمجھے گا وہ جس کی رگوں میں ہے لہُو سرد

نے پردہ، نہ تعلیم، نئی ہو کہ پُرانی
نِسوانیَتِ زن کا نِگہباں ہے فقط مرد

جس قوم نے اس زندہ حقیقت کو نہ پایا
اُس قوم کا خورشید بہت جلد ہُوا زرد
یہ سوچ، کہ عورت کی زندگی کے معاملات کا نگہبان اس عورت کو خود نہیں بلکہ کسی مرد کو ہونا چاہیے، انتہائی واہیات فیوڈل سوچ ہے، خواہ وہ جس کی طرف سے بھی آئے۔ دیگر معاملات میں اقبال صاحب کا علمی قد جتنا بھی ہو، ان کی اغلاط کو جوں کا توں اٹھا کر اسے معاشرے پر مسلط نہیں کیا جا سکتا۔
کسی کو برا لگتا ہے تو لگے میری بلا سے، لیکن جب مقصد خیالات کو جانچنا ہو تو خیالات کی ہی اہمیت ہوتی ہے، اس بات کی نہیں کہ وہ خیالات کس کے تھے۔
 
تو یار آپ ان کو حقوق دے دو، احتجاج کا جواز خود ہی ختم ہو جائے گا۔ یہ کوئی راکٹ سائنس ہے کیا؟

اگر اس مخصوص مارچ پر اعتراض ہے تو پھر ان کے جائز حقوق کی بات کرتے ہوئے کیوں ہمارے معاشرے پر موت کا سناٹا طاری ہو جاتا ہے؟ کیا یہ ایک سنگین مرض کی علامت نہیں؟
میرے خیال میں اعتراض اس کو لیڈ کرنے والوں کے نعروں اور نیت پہ ہے۔ جائز حقوق پہ اعتراض کیونکر ہے جبکہ انہیں حقوق پہ قوانین ماضی قریب میں ہی بنائے گئے ہیں۔
 

زیدی

محفلین
عورت کو اس کے حقوق ملنے چاہییں اور صرف عورت کو ہی نہیں بلکہ ہر انسان کو بلا تفریق رنگ عقیدہ مذہب نسل مذہبی اور معاشرتی اتھارٹی اور کلاس کے سارے حقوق ملنے چاہییں۔ اصلی اسلام بھی یہی کہتا ہے اور ذہن بھی اسے تسلیم کرتا ہے۔ مسئلہ یہ ہے کہ ہمارے معاشرے اور اس سے نکلے عالموں جتنا بڑا منافق اور شخصیت پرست نہیں کوئی۔ ہمیں یورپ نے روکا ہے انسان کو اس کے حقوق دینے کو؟ یورپ کی رینیزنس سے اب تک ہماری نظریں اپنے گھر سے ہٹ کر ان کی طرف ہیں۔ ہمارے گھر میں جو بھی مسئلہ ہے یورپ اس کا ذمہ دار ہے۔ اسے کہتے ہیں اپنی ذمہ داریوں سے بھاگنا اور اپنی غلطیوں کا ذمہ دار کسی اور کو ٹھہرانا۔ اگر یہی رویہ رہے گا تو ہم خود کو ٹھیک کب کریں گے؟ انسان کو اس کے حقوق دینے میں ہمیں کوئی مسئلہ ہے؟ یورپ نے کہا ہے عورتوں کو جائیداد میں اس کا حصہ نہ دو؟ یورپ نے کہا ہے ان کی شادیاں اپنی مرضی سے ان کی رضا کے بغیر کرواؤ؟ یورپ نے کہا ہے اس پہ ہاتھ اٹھاؤ؟ یورپ نے کہا ہے اس سے کمتر مخلوق جیسا رویہ رکھو؟ یورپ نے کہا ہے اقلیتوں سے ناروا سلوک رکھو؟ جب ایک انگلی کسی اور کی طرف اٹھتی ہے تو تین اپنی طرف بھی اٹھتی ہیں۔ اور آخر میں کیا بے حیائی کی ساری ذمہ دار عورت ہے؟
 
آخری تدوین:

عدنان عمر

محفلین
تو یار آپ ان کو حقوق دے دو، احتجاج کا جواز خود ہی ختم ہو جائے گا۔ یہ کوئی راکٹ سائنس ہے کیا؟

اگر اس مخصوص مارچ پر اعتراض ہے تو پھر ان کے جائز حقوق کی بات کرتے ہوئے کیوں ہمارے معاشرے پر موت کا سناٹا طاری ہو جاتا ہے؟ کیا یہ ایک سنگین مرض کی علامت نہیں؟
عورت ہو یا مرد، ہر جائز حق انھیں ملنا چاہیے۔
رہ گئی بات قانونی حقوق کی، اس پر حکومت کو غور کرنا چاہیے کہ وہ اپنی نا اہلی دور کرے۔
اگر سندھ کے ضلع لاڑکانہ میں عورتوں کی شرحِ خواندگی صرف 20 فیصد ہے تو اس کے ذمہ دار عوام نہیں، حکومت ہے۔
عورت کے جائز حقوق پر ہرگز کوئی اعتراض نہیں۔
میں سمجھتا ہوں کہ عورتوں کو ان کے جائز حقوق دلوانے کے لیے نہ صرف حکومت کو سختی برتنی چاہیے بلکہ سماجی سطح پر غیر متوازن سوچ کے حامل مردوں کو بھی خواتین کے حقوق کے حوالے سے sensitize کیا جانا چاہیے۔
یہ حوا کی بیٹیاں ہماری مائیں اور بہنیں ہیں۔ ہر وہ حق جو اسلام نے انھیں دیا ہے، اگر ہم دینے سے انکار رہے ہیں تو ہم سے زبردستی وصول کیا جائے۔
 

محمد سعد

محفلین
عورت ہو یا مرد، ہر جائز حق انھیں ملنا چاہیے۔
رہ گئی بات قانونی حقوق کی، اس پر حکومت کو غور کرنا چاہیے کہ وہ اپنی نا اہلی دور کرے۔
اگر سندھ کے ضلع لاڑکانہ میں عورتوں کی شرحِ خواندگی صرف 20 فیصد ہے تو اس کے ذمہ دار عوام نہیں، حکومت ہے۔
عورت کے جائز حقوق پر ہرگز کوئی اعتراض نہیں۔
میں سمجھتا ہوں کہ عورتوں کو ان کے جائز حقوق دلوانے کے لیے نہ صرف حکومت کو سختی برتنی چاہیے بلکہ سماجی سطح پر غیر متوازن سوچ کے حامل مردوں کو بھی خواتین کے حقوق کے حوالے سے sensitize کیا جانا چاہیے۔
یہ حوا کی بیٹیاں ہماری مائیں اور بہنیں ہیں۔ ہر وہ حق جو اسلام نے انھیں دیا ہے، اگر ہم دینے سے انکار رہے ہیں تو ہم سے زبردستی وصول کیا جائے۔
باقی سے متفق۔ بس ایک اختلاف ہے کہ اگر اسی فیصد لوگ بچیوں کو تعلیم نہیں دلوا رہے تو بہرحال ذمہ داری عوام پر بھی آتی ہے کہ یہ فیصلہ لینے والے عوام ہی کا اسی فیصد ہیں۔
 

عدنان عمر

محفلین
باقی سے متفق۔ بس ایک اختلاف ہے کہ اگر اسی فیصد لوگ بچیوں کو تعلیم نہیں دلوا رہے تو بہرحال ذمہ داری عوام پر بھی آتی ہے کہ یہ فیصلہ لینے والے عوام ہی کا اسی فیصد ہیں۔
جی بالکل، میں آپ کی بات سے متفق ہوں۔ تبدیلی حکومتی ہی نہیں، سماجی سطح پر بھی آنی چاہیے۔
 
عورت کو اس کے حقوق ملنے چاہییں اور صرف عورت کو ہی نہیں بلکہ ہر انسان کو بلا تفریق رنگ عقیدہ مذہب نسل مذہبی اور معاشرتی اتھارٹی اور کلاس کے سارے حقوق ملنے چاہییں۔ اصلی اسلام بھی یہی کہتا ہے اور ذہن بھی اسے تسلیم کرتا ہے۔ مسئلہ یہ ہے کہ ہمارے معاشرے اور اس سے نکلے عالموں جتنا بڑا منافق اور شخصیت پرست نہیں کوئی۔ ہمیں یورپ نے روکا ہے انسان کو اس کے حقوق دینے کو؟ یورپ کی رینیزنس سے اب تک ہماری نظریں اپنے گھر سے ہٹ کر ان کی طرف ہیں۔ ہمارے گھر میں جو بھی مسئلہ ہے یورپ اس کا ذمہ دار ہے۔ اسے کہتے ہیں اپنی ذمہ داریوں سے بھاگنا اور اپنی غلطیوں کا ذمہ دار کسی اور کو ٹھہرانا۔ اگر یہی رویہ رہے گا تو ہم خود کو ٹھیک کب کریں گے؟ انسان کو اس کے حقوق دینے میں ہمیں کوئی مسئلہ ہے؟ یورپ نے کہا ہے عورتوں کو جائیداد میں اس کا حصہ نہ دو؟ یورپ نے کہا ہے ان کی شادیاں اپنی مرضی سے ان کی رضا کے بغیر کرواؤ؟ یورپ نے کہا ہے اس پہ ہاتھ اٹھاؤ؟ یورپ نے کہا ہے اس سے کمتر مخلوق جیسا رویہ رکھو؟ یورپ نے کہا ہے اقلیتوں سے ناروا سلوک رکھو؟ جب ایک انگلی کسی اور کی طرف اٹھتی ہے تو تین اپنی طرف بھی اٹھتی ہیں۔ اور آخر میں کیا بے حیائی کی ساری ذمہ دار عورت ہے؟
آپ کی بات بھی درست ہے، یورپ ہمارے معاشرتی رویوں کا ذمہ دار نہیں ہے۔ لیکن ویسے ہی کیا مولوی جمعہ کے خطبے میں کہتا ہے کہ زبردستی کی شادی کرو، راہ چلتی عورت کو چھیڑو، عورت کو جائیداد میں حصہ نہ دو، جہیز مانگو ؟
 

زیک

مسافر
"فلسفیانہ" سطح پر آپ کہہ سکتے ہیں کہ اردو محفل معروف معنوں میں ایک مخلوط محفل نہیں ہے جب کہ حقیقت یہ ہے کہ اسی محفل کی بدولت اسی محفل کے ارکان کے درمیان کم از کم دو شادیاں ہو چکی ہیں (جن کا مجھے علم ہے، باقی کا کچھ کہہ نہیں سکتا)۔ :)

اور میرے پاس دو سے زیادہ کی معلومات ہیں:)
پھر تو اردو محفل بالکل بھی مخلوط نہیں ہے
 
Top