سید عمران
محفلین
اپنی ذاتی رائے ہم سے منسوب نہ کریں!!!فرسودہ مائینڈ سیٹ کو فرسودہ ہی کہیں گے خواہ بزنس خراب ہونے پر چیخنے والوں کو لاکھ برا لگے۔ اپنی ذاتی رائے کو خدائی حکم کا درجہ دیتے ہوئے اس سے اختلاف کرنے والوں
اپنی ذاتی رائے ہم سے منسوب نہ کریں!!!فرسودہ مائینڈ سیٹ کو فرسودہ ہی کہیں گے خواہ بزنس خراب ہونے پر چیخنے والوں کو لاکھ برا لگے۔ اپنی ذاتی رائے کو خدائی حکم کا درجہ دیتے ہوئے اس سے اختلاف کرنے والوں
ایک اور جھوٹ!!!خواہ بزنس خراب ہونے پر چیخنے والوں کو لاکھ برا لگے۔
اسی طرح آپ کی رائے کی بھی کوئی حیثیت نہیں خصوصا دین کے معاملے میں!!!فرسودہ مائینڈ سیٹ کو فرسودہ ہی کہیں گے خواہ بزنس خراب ہونے پر چیخنے والوں کو لاکھ برا لگے۔ اپنی ذاتی رائے کو خدائی حکم کا درجہ دیتے ہوئے اس سے اختلاف کرنے والوں پر دہریت کے الزام لگائیں گے تو فرسودہ کا لفظ تو ایسی سوچ کے لیے نہایت کم درجے کا ہے۔
حقیقت ٹی وی کی طرح؟ایک اور جھوٹ!!!
چلیں آپ اپنی ذاتی رائے بتا دیں کہ عورت کے ملازمت کرنے کے موضوع پر آپ کی مجوزہ بے جا پابندیوں سے اختلاف کیسے کسی کو دہریہ بنا دیتا ہے؟اپنی ذاتی رائے ہم سے منسوب نہ کریں!!!
مسلمان بیویوں کی بات ہورہی ہے۔۔۔
دہریوں کی نہیں!!!
لیکن دہریوں کا عورتوں کو گھر سے باہر نکال پھینکنے کا فلسفہ یہ گل بھی کھلانے لگا...
اسی رسول کی بیبیوں کو اللہ تعالی نے واضح حکم دے دیا تھا:
و قرن فی بیوتکن
اپنے گھر میں جم کر بیٹھ جاؤ...
اس آیت پر عمل نہ دہریوں کے مرد کریں گے نہ ان کی عورتیں!!!
البتہ جو پہلے سے دہرئیے ہیں اور سرعام ببانگِ دہل خود اس کا اعلان بھی کرتے ہیں وہ جو چاہے سو کریں!!!
کس قسم کا اعتراض آپ کے نزدیک عقل کے منافی نہیں ہوگا؟ مثال کے طور پر ایک ڈاکٹر کی 24 سالوں کی تعلیم کے بعد کوئی مائی یا مائی کا لال کم از کم میرے نزدیک تو اس بات کا مجاز نہیں کہ اسے پریکٹس سے روک سکے۔اس جاب پر بوجوہ اعتراض ہو تو وہ اس اعتراض کو سامنے رکھ سکتے ہیں اور اس میں کوئی حرج نہیں۔
تاہم، ایسی ڈاکٹرز بھی اسی معاشرے میں مل جاتی ہیں جو اپنی رضامندی سے پریکٹس نہیں کرنا چاہتی ہیں۔کس قسم کا اعتراض آپ کے نزدیک عقل کے منافی نہیں ہوگا؟ مثال کے طور پر ایک ڈاکٹر کی 24 سالوں کی تعلیم کے بعد کوئی مائی یا مائی کا لال اس بات کا مجاز نہیں کہ اسے پریکٹس سے روک سکے۔
جب معاشرہ کے سب سے جاہل ترین لوگ "علما" بن بیٹھیں اور اس بنیاد پر اپنےڈھیروں فالورز بھی بنا لیں۔ تو اس کے سنگین نتائج ایسے ہی نکلیں گے جیسا کہ آپ نے اوپر بیان کئے ہیں۔
ہماری بات سے یہ مطلب کیسے نکال لیا کہ ہم نے مسلمانوں کو کہا ہے۔۔۔
اللہ کا حکم نہ ماننے سے یعنی گناہ کرنے سے کوئی مسلمان غیر مسلم نہیں ہوتا۔۔۔
لیکن اسلامی احکام کا مذاق اڑانا مسلمان کا کام نہیں۔۔۔
البتہ جو پہلے سے دہرئیے ہیں اور سرعام ببانگِ دہل خود اس کا اعلان بھی کرتے ہیں وہ جو چاہے سو کریں!!!
ان سب حقائق کو اپنی عقائد والی لڑی میں بھی پوسٹ کرتے جائیں تاکہ ساری چیزیں ایک ہی چھت تلے میسر ہوں!کس نے مذاق اڑایا ہے اسلامی احکام کا؟؟؟؟
کیا کسی نے قراںی آیات کا تعویذ بنا کر ٹانگ اور دیگر جسم کے حصوں پر باندھنے کا طریقہ اپنی کسی کتاب میں لکھا؟؟؟ کیا کسی نے ایسی کسی کتاب کی لاکھوں کاپیاں بنا کر چھاپیں؟؟؟
یہ تو آپ کے من پسند علماء کا کام ہے۔ قرآن کی آیات کی گستاخی کرنا اور عوام کو ببانگِ دہل اور انتہائی ہٹ دھرمی سے اس کی تعلیم دینا!!!!!
کیا یہ سب نظریات دہریوں نے نہیں شروع کیے؟؟؟چلیں آپ اپنی ذاتی رائے بتا دیں کہ عورت کے ملازمت کرنے کے موضوع پر آپ کی مجوزہ بے جا پابندیوں سے اختلاف کیسے کسی کو دہریہ بنا دیتا ہے؟
Exhibit A
Exhibit B
Exhibit C
Exhibit D
اگر آپ حسب عادت چلتے رہے تو مجھے خدشہ ہے کہ میرے پاس ان exhibits کو لیبل کرنے کے لیے حروف تہجی ختم ہو جائیں گے۔
آفسز میں عورتوں کا استحصال ہوتا ہے اس لئے خواتین کام کاج نہ کریں۔ گھر میں بند رہیں۔ یہ کیا دلیل؟ ان مردوں کو ٹھیک کیوں نہیں کرتے جو خواتین کا استحصال کرتے ہیں؟خیر جو آپ کا اصل پوائنٹ ہے، اس پر آتے ہیں۔ اعتراض ممکن ہے جناب جہاں ایسا معاشرہ ہو جہاں ہر دوسرے تیسرے آفس میں عورت کا استحصال ہوتا ہو۔
۱۔ جب تک آپ تخصیص نہیں کرتے کہ کن کن نظریات کی بات کر رہے ہیں، اس سوال کا جواب دینا ممکن نہیں۔کیا یہ سب نظریات دہریوں نے نہیں شروع کیے؟؟؟
البتہ جو پہلے سے دہرئیے ہیں اور سرعام ببانگِ دہل خود اس کا اعلان بھی کرتے ہیں وہ جو چاہے سو کریں!!!
دوسری بات آپ خود ڈھونڈ لیں، یہیں کہیں آپ کو سرعام ببانگ دہل اعلانات مل جائیں گے، ہم کسی کا نام نہیں لیں گے۔۔۔
اچھا حل نکالا ہے جی۔ استحصال کرنے والوں کو قابو نہ کرو۔ عورت کے ہاتھ مضبوط نہ کرو کہ استحصال کرنے والوں کا گریبان پکڑ سکے۔ الٹا ان استحصال کرنے والوں کو بہانے کے طور پر استعمال کر تے ہوئے عورت کو مزید پابند کر کے اس کا مزید استحصال کرو، اور اس کو مزید کمزور بناؤ تاکہ وہ ایک با عزت اور خود مختار زندگی کے حق کو تو بھول ہی جائے۔ جینیس!اعتراض ممکن ہے جناب جہاں ایسا معاشرہ ہو جہاں ہر دوسرے تیسرے آفس میں عورت کا استحصال ہوتا ہو۔
چند باتیں:جہاں ایسا معاشرہ ہو جہاں ہر دوسرے تیسرے آفس میں عورت کا استحصال ہوتا ہو۔ ہر خاتون ایسی خوش نصیب نہ ہے کہ اسے میڈیکل فیلڈ میں با عزت روزگار میسر آئے۔ چند روز قبل، محترم اقرار الحسن کا پروگرام 'سر عام' دیکھا اور اس میں جو حال ملاحظہ کیا، اس کے بعد ہماری رائے میں کسی قدر تبدیلی آئی۔ ہم خواتین کی ملازمت کے قائل رہے ہیں تاہم یہ پروگرام دیکھنے کے بعد کسی حد تک اپنی رائے سے رجوع کر لیا۔ کیا آپ کے خیال میں کوئی ایسا آفس نہیں، کوئی ایسی کام کی جگہ نہیں، جس پر گھرانے کے کسی فرد کو اعتراض نہ ہو سکتا ہو۔
اگر محفل پر اتنے دہریے موجود ہیں تو اسلامی زمروں کے ساتھ ساتھ دہری نظریات کے زمرے بھی ہونے چاہئیں۱۔ جب تک آپ تخصیص نہیں کرتے کہ کن کن نظریات کی بات کر رہے ہیں، اس سوال کا جواب دینا ممکن نہیں۔
۲۔ زیادہ اہم نکتہ جس سے آپ توجہ ہٹانے کی کوشش کر رہے ہیں۔ آپ اپنے ساتھ اختلاف کرنے والوں کے لیے دہریوں کا لفظ استعمال کر رہے ہیں۔ ان کے دہریہ ہونے یا نہ ہونے کا انحصار اس بات ہر ہے کہ وہ خدا پر یقین رکھتے ہیں یا نہیں، اس بات پر نہیں کہ وہ عورت کو کس حد تک حقوق دینے کے قائل ہیں۔ آپ حقیقت ٹی وی کی طرح دانستہ چیزوں کو گڈمڈ کر کے بد دیانتی کے مظاہرے سے گریز کریں تو گفتگو کسی تعمیری سمت میں جا پائے گی۔
علامہ ابن تیمیہ رحمۃ اللّٰہ نے بھی سہولتِ ولادت کے لیے قرآنی آیات پڑھ کر دم کردہ پانی کو حاملہ کی ناف کے نیچے کے حصے پر چھڑکنے کی اجازت دی ہے۔کس نے مذاق اڑایا ہے اسلامی احکام کا؟؟؟؟
کیا کسی نے قراںی آیات کا تعویذ بنا کر ٹانگ اور دیگر جسم کے حصوں پر باندھنے کا طریقہ اپنی کسی کتاب میں لکھا؟؟؟ کیا کسی نے ایسی کسی کتاب کی لاکھوں کاپیاں بنا کر چھاپیں؟؟؟
یہ تو آپ کے من پسند علماء کا کام ہے۔ قرآن کی آیات کی گستاخی کرنا اور عوام کو ببانگِ دہل اور انتہائی ہٹ دھرمی سے اس کی تعلیم دینا!!!!!
اچھا حل نکالا ہے جی۔ استحصال کرنے والوں کو قابو نہ کرو۔ عورت کے ہاتھ مضبوط نہ کرو کہ استحصال کرنے والوں کا گریبان پکڑ سکے۔ الٹا ان استحصال کرنے والوں کو بہانے کے طور پر استعمال کر تے ہوئے عورت کو مزید پابند کر کے اس کا مزید استحصال کرو، اور اس کو مزید کمزور بناؤ تاکہ وہ ایک با عزت اور خود مختار زندگی کے حق کو تو بھول ہی جائے۔ جینیس!
تاہم، ایسی ڈاکٹرز بھی اسی معاشرے میں مل جاتی ہیں جو اپنی رضامندی سے پریکٹس نہیں کرنا چاہتی ہیں۔
خیر جو آپ کا اصل پوائنٹ ہے، اس پر آتے ہیں۔ اعتراض ممکن ہے جناب جہاں ایسا معاشرہ ہو جہاں ہر دوسرے تیسرے آفس میں عورت کا استحصال ہوتا ہو۔ ہر خاتون ایسی خوش نصیب نہ ہے کہ اسے میڈیکل فیلڈ میں با عزت روزگار میسر آئے۔ چند روز قبل، محترم اقرار الحسن کا پروگرام 'سر عام' دیکھا اور اس میں جو حال ملاحظہ کیا، اس کے بعد ہماری رائے میں کسی قدر تبدیلی آئی۔ ہم خواتین کی ملازمت کے قائل رہے ہیں تاہم یہ پروگرام دیکھنے کے بعد کسی حد تک اپنی رائے سے رجوع کر لیا۔ کیا آپ کے خیال میں کوئی ایسا آفس نہیں، کوئی ایسی کام کی جگہ نہیں، جس پر گھرانے کے کسی فرد کو اعتراض نہ ہو سکتا ہو۔
آپ ایک مرتبہ یہ پروگرام دیکھیے اور بتلائیے کہ کیا ایسی جگہوں پر جاب کے لیے کوئی فرد اپنے گھرانے کی خواتین کو اجازت دے سکتا ہے؟ ہمارا موقف تو یہ ہے کہ خواتین تو دور کی بات، مردوں کی بھی جاب کہاں ہو رہی ہے؛ اس حوالے سے اس کے خیر خواہ افراد اعتراض کا دوستانہ حق رکھتے ہیں۔ بقیہ، اب ایسے فرد، چاہے خاتون ہو یا مرد، اس کی مرضی پر منحصر ہے۔ اس پر ہمیں کب 'اعتراض' ہے سر؟