مجھے آج تک اس بات کی سمجھ نہیں آئی کہ آیا قرآن مجید ایک آسان کتاب ہے جسے کوئی بھی انسان پڑھ کر خدا کے پیغام کو جان سکتا ہے یا ایک مشکل کتاب ہے جسے سمجھنا عام انسان کے لیے ممکن ہی نہیں۔ ایسا لگتا ہے کہ ضرورت کے حساب سے اس کے خواص بدل لیے جاتے ہیں تاکہ لوگوں کو اپنے اوپر منحصر رکھنے اور گلشن کا کاروبار چلاتے رہنے کا مقصد پورا ہوتا رہے۔
یہ بتائیں کہ یہی قرآن یہ کیوں کہتا ہے:
۱) فاسئلوا اہل الذکر ان کنتم لا تعلمون
۲) إنما يخشى الله من عباده العلماء
۳) الرحمٰن فاسئل بہ خبیرا
۴) فَمَنْ خَافَ مِن مُّوصٍ جَنَفاً أَوْ إِثْماً فَأَصْلَحَ بَیْْنَہُمْ فَلاَ إِثْمَ عَلَیْْہِ
اس آیت میں دونوں میں صلح کرانے کا کیا مطلب ہے؟؟؟
۵) النجم و الشجر یسجدٰن
اس آیت میں ستارے اور درخت بیان کرنے کا آپس میں کیا ربط ہے؟؟؟
۶) یضل بہ کثیرا و یھدی بہ کثیرا سے کون لوگ مراد ہیں؟؟؟
۷) اہل زبان ہونے کے باوجود حضرت عمر و عنبا و ابا کا مطلب پوچھنے کے لیے حضور صلی اللہ علیہ وسلم کی خدمت میں کیوں گئے؟؟؟
۸) اہل زبان اور ہر دم رسول اللہ کے صحبت یافتہ ہونے کے باوجود حضرت عمر نے نو یا گیارہ سال صرف سورہ بقرہ سمجھنے میں کیوں لگادئیے؟؟؟
۹) صحابہ کو بہتان کا مطلب معلوم تھا لیکن اہل زبان ہونے کے باوجود انہوں نے قرآن پاک میں لفظ غیبت کا مطلب پوچھنے کے لیے حضور صلی اللہ علیہ وسلم سے کیوں رجوع کیا؟؟؟
۱۰) وإذا جاءهم أمر من الأمن أو الخوف أذاعوا به ولو ردوه إلى الرسول وإلى أولي الأمر منهم لعلمه الذين
يستنبطونه منهم ولولا فضل الله عليكم و رحمته لاتبعتم الشيطان إلا قليلا
اس آیت میں اہل استنباط سے کون لوگ مراد ہیں؟؟؟